ہزاروں لاکھوں ننھی سی جان کےکیڑوں پتنگوں میں ٹڈہ ایک بڑےجسم اوربڑی جان کاعشق باز ہے اور پروانے آتے ہیں تو روشنی کےگرد طواف کرتے ہیں، بے قرار ہو ہو کر چمنی سے سر ٹکراتے ہیں۔ ٹڈے کی شان نرالی ہے۔ یہ گھورتا ہے، مونچھوں کو بل دیتا ہے اور اچک کر ایک حملہ کرتا ہے۔ سمجھتا ہو گا میں ٹکر مار کر روشنی کو فتح کر لوں گا۔ سب کم ذات چھوٹے رقیبوں کی آنکھ میں خاک ڈال کراپنی محبوبہ کو اڑا کر لے جاؤں گا اور آکھہ کے درخت پر بیٹھ کر اس کو گلے لگاؤں گا۔میرے گیت سن کر روشنی ہمیشہ ہمیشہ کو میری تابعدار بن جائے گی۔
پرہائےعشق کےکوچہ میں کس کا خیال پورا ہوا ہے۔ کس کی آرزو بر آئی ہے۔ کون بامراد رہا ہے جو ٹڈہ کا ارمان پورا ہوتا۔ حسرت نصیب اچک اچک، پد ک پھدک کر، گھور گھور کر رہ جاتا ہے اور نور پر قبضہ میسر نہیں آتا۔
مجھ کو ان عاشق زار کیڑوں نے بہت ستایا ہے۔ میرے رات کے مطالعہ میں یہ شریر بڑا رخنہ ڈالتے ہیں۔ سر کے بالوں میں آنکھوں میں کانوں میں گھسے چلے آتے ہیں۔ کوئی پوچھے کہ بھئی آدمی کےسر کیوں ہوتے ہو جس پر جی آیا ہے اس کے پاس جاؤ، اس سے ملنے کی کوشش کرو۔
مگر وہ تو زمانہ کی تاثیر ہے۔آج کل ہرعشق باز باتون اور لسان ہوگیا ہے۔ جان دینےاورمعشوق پرقربان ہوجانےکی ہمت جانوروں تک میں نہیں۔ اب وہ وقت گیا۔ شیخ سعدی نے بلبل کو پروانے کی سرفروشی کا طعنہ دیا تھا اورکہا تھا کہ عشق پروانے سے سیکھ، کہ بولتا نہیں ایک دفعہ آکر جان دے دیتا ہے۔
اب تو پروانے بھی آتے ہیں تو آدمیوں کو ستاتے ہیں۔ ان کے ناک کان میں گھستے ہیں، تاکہ وہ ان کی عشق بازی سے آگاہ ہو جائیں۔ نمود کا شوق آدمیوں سے گزر کر جانوروں تک میں سرایت کر گیا۔ ان دنوں ہر ہستی دکھاوے اور ریاکاری کی مشتاق ہے۔ یہ کیڑے صرف اپنے عشق کا اظہارکرنے کو آدمی پرگرے پڑتے ہیں تاکہ اس کوعلم ہو جائے کہ ان کو روشنی سے محبت ہے۔
ذرا انصاف کرنا۔ کل میں نے مسہری کے پردے ڈال کر سرہانے روشنی رکھی کہ اب تو ان نمسو بازوں سے چھٹکارا ملے گا۔ مگر موذی ننھے کیڑے مسہری کے چھوٹے سوراخوں میں گھس آئے اور ایسی شورش کی کہ میں نے کتاب اٹھا کر دے ماری۔ غصہ سے بیتاب ہو گیا۔ دیوانوں کی طرح کیڑوں کو،برسات کو اور اس موسم کی رات کو برا بھلا کہا۔ اور تو اور غسل خانہ تو الگ کونہ میں ہے۔ اس کے دروازہ پر تو چلمن پڑی ہوئی ہے وہاں بھی ان فتنوں کی فوج گھستی چلی جاتی ہے کیونکہ غسل خانہ میں بھی ان کی فاحشہ معشوقہ روشنی رکھی ہے۔
حسن نظامی