حضور ﷺ کے عورتوں پر احسانات
ایک خوبصورت تحریر از یوسف برکاتی
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پورے انسانوں پر احسانات ہیں خصوصی طور پر عورتوں پر میری جو بھی بہن ہے بیٹی ہے وہ آج حضور کے احسان کو ضرور مانے اج عورتوں کو بچیوں کو بہنوں کو ماؤں کو جو عزتیں ملی ہیں وہ رسول اللہ صلی علیہ وآلیہ وسلم کے فرمان کے صدقے میں ملی ہیں انہیں چاہیے کہ وہ حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم کا شکریہ ادا کریں اور اس کا آسان طریقہ حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم کے فرمان کے مطابق زندگی گزارنا ہے۔ ایک دفعہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس ایک شخص جو کافروں میں سے تھا حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم میں ایمان لانا چاہتا ہوں تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم نے اسے کلمہ پڑھایا اور یوں وہ ایمان لاکر مسلمان ہوگیا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں لیکن وہ شخص اسلام لانے کے بعد بھی اداس اداس رہتا تھا لوگوں نے حضور کی بارگاہ میں ذکر کیا حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے اسے بلایا اور فرمایا کہ اپ اتنے رنجیدہ کیوں رہتے ہیں تو اس نے کہا یا رسول اللہ میں نے زمانہ جہا لیت میں جتنے گناہ کیے کیا سارے گناہ معاف ہو گئے صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ہاں سارے گناہ اللہ نے معاف کر دیے کیوں کہ اسلام لانے کی برکت سے سارے گناہ معاف ہو گئے انہوں نے کہا کہ اس بات کا مجھے یقین ہے کہ میرے سارے گناہ معاف ہوگئے لیکن ایک گناہ ایسا ہے کہ مجھے بار بار یاد اتا ہے تو میں روتا ہوں۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس نے عرض کیا یا رسول اللہ میں اس قبیلے سے تھا جہاں بچی پیدا ہوتی تو پیدائش کو اپنے لیے آر سمجھتے تھے وہ سوچتے تھے کہ پھر داماد کے نخرے اٹھانے پڑیں گے سسرال والوں کے نخرے اٹھانے پڑیں گے اور بچی کی وجہ سے ہمیں دب کے رہنا ہوگا تو اس کو قتل کر دیتے تھے میں بھی ان میں سے تھااور میری بھی ایک بیٹی تھی لیکن میری بچی بڑی پیاری تھی بڑی خوبصورت تھی میں نے چاہا قتل کروں لیکن میں اسے قتل نہیں کر سکا جیسے جیسے وہ بڑی ہوتی گئی اس کا پیار بڑھتا گیا وہ اور پیاری ہوتی گئی ویسے ہی بچیاں بڑی پیاری ہوتی ہیں بیٹوں کے مقابلے میں بیٹیاں اپنے باپ سے بہت محبت کرتی ہیں اج اپ دیکھ لیں کتنے ایسے ماں باپ ہیں جن کے بیٹوں نے انہیں ٹھکرا دیا بیٹیوں نے ان کا ساتھ دیاسارے ایسے نہیں ہوں گے الحمدللہ ایسے بیٹے بھی ہیں جو ساتھ دینے والے ہیں لیکن اگر فیصد دیکھا جائے تو بیٹوں کے مقابلے میں بیٹیوں کا فیصد زیادہ ہے جو اپنے ماں باپ سے بڑی محبت کرتی ہے زیادہ محبت کرتی ہیں خاص طور پر بیٹی کو باپ سے بڑی محبت ہوتی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں وہ کہنے لگا کہ وہ چھوٹے چھوٹے ہاتھ سے میرے چہرے پر ہاتھ پھیرے میری گود میں ائے مجھے بڑی پیاری لگتی ہے لیکن پھر یہ ہوا کہ میرے قبیلے والوں نے مجھے ابھارا مجھے طعنہ دینا شروع کردیا میرا مذاق اڑایا اور کہا کہ بیٹی کی وجہ سے تجھے سسرال والوں کی غلامی کرنی ہوگی آپ ذرا غور کریں کہ آج ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں کیا یہ جہالت اج ہے کہ نہیں مجھے بتائیے کے کیا بیٹیوں والا ہی غلام کیوں بنتا ہے داماد جب سسرال جاتا ہے تو ایسا بن کے جاتا ہے جیسے ارمی چیف ہو سارے گھبرائے ہوئے ہوتے ہیں کہ ذرا سی بات بری لگ گئی تو اسے برا لگ جائے گا ہاں لیکن سارے داماد ایسے نہیں ہے الحمدللہ جو دین کی سمجھ رکھتے ہیں تو وہ اپنے ساس سسر کو ماں باپ سمجھتے ہیں لیکن جو دین سے دور ہیں میں ان جاہلوں کی بات کررہا ہوں جب وہ سسرال کے گھر سے واپس اتے ہیں تو اتنی اؤ بھگت کرنے کے باوجود بھی ناراض ہوتے ہیں اپنی بیوی پر ظلم کرتے ہیں کتنے دن تک ناراض رہتے ہیں تیرے باپ نے جب میں پہنچا تو میرا استقبال صحیح نہیں کیا یہ ہوا وہ ہوا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اور اج زمانہ جاہلیت میں بھی وہی ہے آج لڑکی کا باپ ہے وہ پریشان ہو جاتا ہے کہ میں اپنی بیٹی کے لیے جہیز کہاں سے لاؤں گا اور سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بیٹی والے کو دبایا جاتا ہے توبہ استغفراللہ یہ ٹھیک ہے کہ ہر جگہ نہیں لیکن بہت سی جگہوں پر یہ معاملات ہیں میں بار بار ہر جگہ ایسا نہیں ہے کیوں کہ رہا ہوں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ الحمدللہ اللہ کے نیک بندے اس دنیا میں ہیں اگر ایسے نہ ہوتے تو دنیا کب کی تباہ ہو جاتی ایسے لوگ ہیں کہ بہو کو بیٹی سمجھتے ہیں ایسی بہو ہے جو ساس کو ماں سمجھتی ہیں الحمدللہ ہیں لیکن ہمارے اس معاشرے کی بہت بڑی تعداد گمراہ ہو چکی ہے پھر اس نے کہا کہ مجھے لوگوں نے ملامت کیا چاروں طرف طنز طعنے دینا شروع ہوگئے آخر ایک دن میں نے اس کی ماں سے کہا کہ مجھے دعوت میں جانا ہے میری بیٹی کو تیار کرو جب وہ تیار ہوئی تو اور خوبصورت ہو گئی اتنی خوش تھی کیونکہ جب سے پیدا ہوئی شرم کے مارے میں اس کو گھر سے باہر نہیں لے جاتا تھا لوگ کیا کہیں گے کہ میری بیٹی ہے وہ بہت خوش تھی کہ میرے والد مجھے اج باہر لے جا رہے ہیں۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس نے کہا کہ میری بیٹی پانچ سال یا سات سال کی عمر ہوگی پھر میں اسے ایک ویرانے میں لے گیا اور وہاں جاکر میں نے گڑھا کھودنا شروع کیا جب مٹی میرے چہرے پر اتی میرے جسم پہ لگتی تو وہ ننھے ننھے ہاتھوں سے مٹی صاف کرتی تھی اور کہتی کہ ابا آپ کا جسم مٹی الود ہو رہا ہے اسے کیا معلوم کہ میں گڑھا کیوں کھود رہا ہوں جب میں نے گڑھا کھود لیا اور پھر اسے اٹھا کے گڑے میں ڈالنے لگا تو وہ سمجھ گئی تب اس نے روتے ہوئے کہا ابو میں کبھی آپ سے روٹی نہیں مانگوں گی مجھے اپ قتل نہ کریں مجھے اس گھڑے میں نہ ڈالیں لیکن زمانے جاہلیت کی باتیں مجھ پر غالب ائیں اور میں نے اسے گڑے میں ڈال دیا وہ ہاتھ سے فریاد کر رہی تھی مجھے ابا کہہ کر پکار رہی تھی لیکن میں مٹی ڈالتا رہا اور اسے میں نے دفن کر دیا۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس شخص نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے جب حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم زارو قطار رو رہے تھے آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم نے فرمایا کہ زمانہ جاہلیت میں کفر کی حالت میں جو گناہ ہوئے ان کی کوئی سزا نہیں دی جا سکتی کیوں کہ اللہ تعالی نے سارے گناہ معاف کر دیے اگر میں کسی کو زمانہ جاہلیت کے گناہ کی وجہ سے سزا دیتا تو تجھے دیتا تو نے یہ واقعہ سنا کر ہمیں رلا دیا ہمیں رنجیدہ کر دیا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں زمانہ جاہلیت میں ہونے والا یہ ایک واقعہ نہیں ہے ایسے لاکھوں واقعات تھے لیکن سرکار علیہ وآلیہ وسلم کی آمد کے بعد ان واقعات میں یکثر کمی ہوتی گئی اس کے بعد آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم کے صدقے میں خواتین کو کیا کیا مقام ملے لیکن یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ آج کے معاشرے میں ایک بار پھر کچھ عورتیں عرب کی باتوں سے متاثر ہو کر کہتی ہیں کہ ہمیں ازادی چاہیے ہمیں بے پردگی چاہیے اس خاندانی نظام سے باہر نکلنا ہے اگر یہ عورتیں غور کریں اور سرکار علیہ وآلیہ وسلم کا احسان مانے اگر عورت اللہ کے حضور اس کے شکرانے میں ساری زندگی اللہ کی بارگاہ میں سجدہ کرے اور کہے کہ یا اللہ تیرا شکر ہے تو بھی وہ شکر ادا نہیں کر سکتی اللہ تبارک و تعالی محبوب کریم کے صدقے میں ہمارے گناہ معاف فرمائے اور ہمیں محبوب کریم سے مزید محبت عطا فرمائے ان کی فرمانبرداری کی توفیق عطا فرمائے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضور کے ایسے کروڑوں سے زیادہ احسانات ہیں ہم انہیں گن نہیں سکتے اج اٹھتے ہیں سوتے ہیں زمین پر چلتے ہیں تو صرف آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم کی صدقہ ہے ورنہ ہمارے گناہ تو ایسے ہیں کہ ہم زمین میں دھنس جائیں اسمان ہم پر گر پڑے یہ بھی کم ہے لیکن ہم پر جو کرم ہے وہ محبوب کریم کی ان دعائوں کا نتیجہ ہے جو وہ ہمارے لئے ہر وقت مانگا کرتے تھے اپنے ظاہری وصال کے بعد بھی جب بھی عذاب ہماری طرف بڑھتا ہے حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم ہمارے لیے قبر انور میں دعا کرتے ہیں اے اللہ میرے اس امتی کو مہلت دے دے اے اللہ میرے اس امتی سے عذاب دور کر دے اور یہ حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم کی دعاؤں کا صدقہ ہے ان کی نظر کرم کا صدقہ ہے وہ ہماری غیب سے مدد کرکے ہمارے لئے آسانیاں فراہم کردیتا ہے لیکن پھر وہ امتی کتنا بد نصیب ہے کہ وہ حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم کے طریقوں کو چھوڑ کر فرمان کو چھوڑ کر کافروں یہودیوں عیسائیوں کے کہنے پر چلے عورتیں ان کے نکالے ہوئے فیشن کو اپنائے اور ان کے کہنے پر چلیں۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آخر میں میں اتنا کہوں گا کہ مرد ہو بچہ ہو یا کوئی عورت ہمیں ایک اہل ایمان مسلمان ہونے کے ناطے صرف ان احکامات پر عمل پیرا ہونا ہوگا جو ہمیں اللہ رب العزت نے قرآن میں بتائے اور ان باتوں پر عمل کرنا ہوگا جو سرکار علیہ وآلیہ وسلم کی بتائی ہوئی احادیث مبارکہ کی شکل میں ہمارے پاس محفوظ ہیں اور ان سنتوں پر عمل کرنا ہوگا جو ہمیں سرکار علیہ وآلیہ وسلم نے خود اپنی زندگی میں ہمیں کرکے بتائے اسی طرح ہماری اس عارضی زندگی میں بھلائی اور ہمیشہ قائم رہنے والی قیامت کی زندگی کی بقا ہے دعا ہے باری تعالی سے کہ اے اللہ تو ہمیں صرف اپنا قرب عطا کر اپنے بتائے ہوئے راستوں پر چلنے کی توفیق عطا فرما اور تیرے محبوب صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم کا سچا عاشق و غلام بنا امین امین بجاء النبی الکریم صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم ۔
یوسف برکاتی