- Advertisement -

کوئی مرے کوئی جیوے

از سمیع اللہ خان

کوئی مرے کوئی جیوے، کھسرا کول پتاسے پیوے

خوجہ سراکو ”مورت“بھی کہاجاتاہے۔سمیرین اوراکاڈین تہذیب کی تحریری دستاویزات میں ان کا تذکرہ 4500قبل ملتاہے، اسی طرح یورپ میں ایک ساڑھے چارہزاربرس قبل کی قبردریافت ہوئی ہے جس کے متعلق کہاجارہاہے کہ یہ قبرتیسری جنس کے کسی انسان کی ہے۔لفظ Transvestiteکاپہلی باراستعمال جرمن سیکسالوجسٹ Magnus Hirschfeldنے 1910میں کیا،جنھوں نے بعد میں برلن انسٹی ٹیوٹ کی بنیاد رکھی جہاں پہلا ”سیکس تبدیلی“ کاآپریشن کیاگیا۔لفظ ”ٹرانس سیکسوئل“کاپہلی باراستعمال 1949میں جبکہ لفظ ٹرانس جینڈر کا پہلا استعمال 1971میں ملتاہے۔اسی طرح لفظ ”ٹرانس“کا پہلا استعمال برطانیہ میں 1996میں ہوا۔اس وقت جوخواجہ سراکلچرپاکستان میں موجودہے،اس کے ڈانڈے کہیں نہ کہیں دلی سے جاملتے ہیں۔جہاں ”سجان“خاندان کے خواجہ سراؤں نے اس کلچرکے فروغ میں اہم کرداراداکیااوراسے برصغیرکے دیگرحصوں سمیت پنجاب تلک پھیلادیا۔پاکستان میں یہ کلچراپنی پوری آب وتاب کے ساتھ اس وقت آیاجب ہندوستان کے خواجہ سراؤں نے اسلام کے نام پراپنے آبائی علاقوں کوخیرآبادکہااوراللہ و اس کے رسول کی محبت میں ہجرت کی۔

۔مثل مشہور ہے ”کوئی مرے کوئی جیوے،کھسراکول پتاسے پیوے“۔کہنے کوتویہ ایک مثل ہے لیکن اس کے اندر دُکھ اوراجنبیت کاوہ احساس رقم ہے کہ اس زخمی گٹارکے تاروں پرہاتھ پڑتے ہی راگ پیلوکاسوزبلندہوجائے۔ویسے سچ تویہ ہے کہ خواجہ سراایک زخمی کونج کی مانندہوتے ہیں جواپنی ڈاریعنی فیملی سے بچھڑ کرزمین کے چپے چپے پرکُرلاتے پھرتے ہیں،اورملن کی آس معاشرتی جبرکے سائے تلے نااُمیدی بن کران کے چہرے کی اُن جھُریوں میں سمٹ آتی ہے جہاں سے جوانی کی دہلیزمیں ہی بڑھاپے کے آثارنمایاں ہونے لگتے ہیں۔ہم واپس ”مثل“کی طرف آتے ہیں، فیضی(ایم فل اردو،خواجہ سرا)کہتی ہیں کہ یہ مثل بالکل سچ ہے کیونکہ وقت کے ستائے خواجہ سرا کوملکی حالات کے نشیب وفراز، معیشت اوردنیاکے حالات سے کچھ لینادینانہیں ہوتا۔وہ سچ ہی کہتی ہے کہ جسے حالات کاجبردووقت کی روٹی کیلئے ترسادے،وہ ان بکھیڑوں میں کیونکرپڑسکے گا۔ ہماراآج کاموضوع خواجہ سراکلچرکی رسومات ہیں۔جن کے ذریعے یہ اپنا کیتھارسس کرتے نظرآتے ہیں۔ہم نے کبھی سوچاکہ ہم ان کی نجی زندگیوں سے کیوں نابلدہیں؟اسی لئے کہ موپساں کی The Metamorphosisکا عکس ادھربھی پوری طرح جھلک رہاہے اورہم نے اپنے ہی خون کوبیگانگی واجنبیت کی سُلگتی بھٹی میں زندہ جھونک دیاہے۔
چٹائی:اس رسم میں ایک جونئیرخواجہ سرا،کسی سینئرخواجہ سراکواپنا”گُرو“تسلیم کرتاہے یاکرتی ہے۔گُروتسلیم کرنے کامدعایہ ہوتاہے کہ آج کے بعد ”گُرو“زندگی کے اُتارچڑھاؤمیں اپنے ”چیلے“کاآسراہوگا اورخواجہ سراؤں کی دنیامیں ”گُرو“ والدین کی طرح کاکردارنبھاتاہے۔یہ رسم خواجہ سراکلچرمیں عقیقے کی مانندہے۔اس رسم میں چیلادلہن کی طرح سجتاہے اوراس کے سرپرڈالے جانے والے دوپٹہ پرگوٹالگاہوتاہے۔ پاکستان میں خواجہ سراؤں کے چاربڑے گھرہیں اوران ہی میں سے کسی گھرکی اہم شخصیت چیلے کرسرپردوپٹہ ڈالنے کی رسم اداکرتی ہے۔اس کے بعدمٹھائی تقسیم کی جاتی ہے۔اس تقریب میں ڈھولکی،رقص اورگانوں کاخصوصی اہتمام کیاجاتاہے لیکن طرفہ تماشایہ ہے کہ ہماری خوشیوں میں شریک ہونے والے خواجہ سراؤں کی یہ تقاریب انھی کی کمیونٹی تک محدودرہ جاتی ہیں۔
چٹائی: چٹائی لفظ سے جُڑی ایک رسم آپ کے علم میں لائی جاچکی ہے۔ زمانہ قدیم میں خواجہ سراؤں کے ہاں لفظ ”چٹائی“ ہاتھ سے بنے ہوئے مختصردبیزکپڑے کیلئے مستعمل تھا۔یہ دبیز کپڑانسل درنسل منتقل ہوتارہتاہے۔اس پر بیٹھ کرخواجہ سراہمیشہ سچ بولتے ہیں۔جب ان کے ہاں کسی بات پراختلاف ہوتاہے تواسی کپڑے کولایاجاتاہے اورجن خواجہ سراؤں کے مابین تنازعہ ہوتاہے وہ اس پربیٹھ کرمعاملے کی حقانیت سے پردہ اُٹھاتے ہیں۔اس کپڑے پربیٹھتے وقت خواجہ سراؤں کااندازانتہائی مودبانہ ہوتاہے اوراس طرح خواجہ سراؤں کے مسائل احسن طریقے سے حل ہوجاتے ہیں۔بعض خواجہ سراؤں کے پاس ایسی”چٹائیاں“ بھی موجود ہیں جن کے بارے کہاجاتاہے کہ یہ مغل دوریااس کے کچھ بعد سے چلی آرہی ہیں۔
ورت اور لا : خواجہ سراؤں میں علاقے تقسیم ہوتے ہیں اوررسمی طورپراس علاقہ میں جنم لینے والا خواجہ سرا بچے کامالک یا گُروقراردیاجاتاہے جس کاعلاقہ ہو۔اس علاقے کوخواجہ سرا ”ورت“کہتے ہیں۔ہمارے ہاں تووالدین ہی بچے کوکسی کی گوددے دیتے ہیں لیکن خواجہ سراؤں میں یہ رسم اس طرح ہے کہ اگرکوئی خواجہ سرااپنے گروکے پاس کسی بھی وجہ سے نہ رہناچاہے تواسے اختیارہے کہ اپناگروتبدیل کرلے۔ اس کاطریقہ کاریہ ہوتاہے کہ نیاگُرو،اس گروکوپیسے اداکرے گاجس کے علاقے میں اس خواجہ سرانے جنم لیاہوجواس کاچیلابننے جارہی ہے یاجارہاہے۔
میک اپ کاپانی: خواجہ سراؤں کی گھرسے اختلاف کی وجوہات میں جہاں لباس کے تعین کاسوال ہوتاہے وہیں اکثرمیل خواجہ سراکوگھروالوں سے اس لئے بھی مارپڑتی ہے کہ وہ میک اپ کیوں کرتاہے۔ اس سوال کاجواب خواجہ سرایہ دیتے ہیں کہ بظاہرتوان کی ساخت مردجیسی ہوتی ہے لیکن اللہ تعالی نے ان کے اندرکسی عورت جیسے احساسات رکھ چھوڑے ہوتے ہیں۔اسی واسطے دوپٹہ کرنا،لڑکیوں کے کپڑے پہننااورمیک اپ کارجحان ان میں قدرتی طورپرپایاجاتاہے۔رات کومہندی کے فنکشنز پرجاتے ہوئے اکثرخواجہ سراپانی کا استعمال بھی کرتے ہیں اورمیک اپ مکمل ہونے کے بعد اس پانی کوکسی معتبرچیزکی مانندکسی جگہ سنبھال کررکھ دیاجاتاہے تاکہ وہ گرنے نہ پائے۔اس پانی کواگلے دن گرایاجاتاہے اوراگروہ پہلے گرجائے یارکھتے ہوئے چھلک جائے تواسے اچھاشگون تصورنہیں کیاجاتا۔
سیاپا: بزرگ خواجہ سراکی وفات کاسوگ اس طرح منایاجاتاہے کہ گدی نشین بننے والے خواجہ سراکے بال کھول کراُسے درمیان میں بٹھاکرماتم کیاجاتاہے۔”سیاپا“صرف وہی خواجہ سراکرتے ہیں جن کے اپنے گروبھی اس جہانی فانی سے کوچ کرگئے ہوں۔
سرپرپانی ڈالنا: جب کسی خواجہ سراکاگُروفوت ہوجاتاہے تواس کے چیلوں کے سرپرپانی ڈالاجاتاہے جوکہ اس بات کی علامت ہوتاہے کہ اب ان کے سرپرسایہ نہیں رہا۔
گونگے گھنگھرو: گھنگھرو جہاں صوفیاء کے در پردھمال کرنے والوں کے پاؤں کی زینت ہوتے ہیں تووہیں انھیں تیسری جنس بھی بڑے عزت واحترام سے نوازتی ہے۔سننے میں آیاہے کہ گھنگھروریت میں پکائے جاتے ہیں۔ان کی زندگی کی بقا کیلئے ان کو سورج کی شعاعوں کی قربت بھی لازمی عطاکی جاتی ہے۔خواجہ سراگھنگھروؤں کوہمیشہ زمین پررکھتے ہیں۔اس کے متعلق ان کے درمیان ایک mythہے کہ گھنگھروچارپائی پر رکھ دیئے جائیں تووہ گونگے ہوجاتے ہیں۔گھنگھروؤں کی زبان ان کی چھنک ہوتی ہے۔ جس کے متعلق یہی رائے ہے کہ زمین کے سینے پررکھے جانے والے گھنگھرو ہی درست انداز میں اپنی چھنکارسے محوتماشالوگوں کادل موہ لینے کی قوت رکھتے ہیں۔خواجہ سراٹولی کی صورت میں مختلف محلوں کادورہ کرتے ہیں اورجہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی ہویااس گھرمیں شادی ہوئی ہوتووہاں گھنگھرو باندھ کررقص کرتے ہوئے ان کی خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں۔وہ الگ بات کہ ان کی تقاریب میں شامل ہونے کوہمارامعاشرہ گناہ کبیرہ تصورکرتاہے۔
فارسی: خواجہ سراؤں کی آپس میں contact languageیا بولی کویہ خود”فارسی“ کہتے ہیں۔فیضی کی تحقیق کے مطابق اس میں سنسکرت،ہندی اورپنجابی کے ڈھیرسارے الفاظ شامل ہیں۔میرااس زبان سے سامنابہاولپورمیں اپنے بھتیجے محمدشاہ زین کی”چھٹی“ پرہوا۔جب ہنستے کھیلتے خواجہ سراشانی نے کھانے کی اُجرت کے متعلق اپنے ساتھی سے گفتگوکی اوراس کی سمجھ نہ آنے پرجب میرے کزن شاہ زیب خان نے سوال کیاتوشانی نے کہاکہ یہ ’فارسی“ہے۔ دراصل اس زبان کوان کے بزرگوں نے اس لئے تخلیق کیاکہ وہ اپنے سربستہ رازمخفی رکھناچاہتے تھے۔یہ بھی ممکن ہے کہ خواجہ سراچونکہ مختلف علاقوں اورزبانوں سے تعلق رکھتے ہیں توکہاجاسکتاہے کہ ان زبانوں کے ملاپ سے اس زبان نے خودبخودجنم لیاہو۔اس زبان پرتحقیق کرکے ماہرلسانیات خواجہ سراؤں سے متعلق کئی گھتیاں سلجھاسکتے ہیں۔
لاچی:پاکستانی معاشرے میں دعوت پرمدعوکرنے کیلئے جیسے کارڈ،ٹیلی فون یامیسج کیاجاتاہے،اسی طرح خواجہ سراؤں میں اگرکسی کودعوت دینامقصودہوتو اسے ”الائچی“بھیجی جاتی ہے۔جسے عرف عام میں ”لاچی“کہاجاتاہے اور”لاچی“لانے والے کوکچھ رقم بھی عنایت کی جاتی ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ اس میں بھی تبدیلی آئی اورآج کل شاہی میوہ، تلسی وغیرہ بھی اس مقصدکیلئے بھیج دی جاتی ہے لیکن اس سارے عمل کو اب بھی ”لاچی“ہی کہاجاتاہے۔
یہ تھیں وہ چندرسومات جن کاذکرہم نے اس لئے کیاکہ اپنے سے کٹے ان بہن،بھائیوں کے جذبات،احساسات اورمسائل سے آپ کوآگہی ہوسکے۔رمضان کریم کامہینہ ہے،اس میں زکوتہ اورفطرانہ دیتے ہوئے آپ مستحق خواجہ سراؤں کوضروریادرکھئے گا۔
سُرخی:رمضان کریم کامہینہ ہے،اس میں زکوتہ اورفطرانہ دیتے ہوئے آپ مستحق خواجہ سراؤں کوضروریادرکھئے گا۔
۔سیدہ علیشا رضوی شوگرکی وجہ سے ایک پاؤں اورایک ٹانگ سے محروم ہوچکی ہیں اورآپ کے تعاون کی منتظرہیں۔

سمیع اللہ خان

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
شیخ خالد زاہد کا اردو کالم