دل پہ تالہ نہ کوئی اور نیا لگ جائے
کاش اٌس گم شدہ چابی کا پتہ لگ جائے
رونے والے میں ترا کچھ نہیں لگتا ہوں مگر
کتنا اچھا ہو تجھے کوئی دعا لگ جائے
زندگی دکھ میں بہت خرچ لی سو خواہش ہے
اب یہ سرمایہ کسی ٹھیک جگہ لگ جائے
بات بخشش کی نہیں مسئلہ یہ ہے کہ اسے
در سے اٹھنا نہ فقیروں کا برا لگ جائے
بے بسی گریہ نہیں ملتوی ہونے دیتی
کچ٘ی عمروں میں کوئی جیسے نشہ لگ جائے
اونچی دیواریں غریبوں کی کہاں ہوتی ہیں
میری کوشش ہے کہ دروازہ بڑا لگ جائے
بوجھ تھوڑا سا تو مرہم کا بھی ہوتا ہے ضمیر
زخم اچھا ہے وہی جس کو ہوا لگ جائے
ضمیر قیس