درونِ خواب جواک راستہ بنایا تھا
اسی کی دھول سے پھر آئنہ بنایا تھا
کسی کے نقشِ کفِ پا بتا رہے تھے ہمیں
کسی سفر نے نیا قافلہ بنایا تھا
بٹی ہوئی تھی مری جاں ہزار خانوں میں
شکستہ یاد سے جب حوصلہ بنایا تھا
کبھی تو تجھ سے ہی مانگا تھا تھا تیری خوشیوں کو
کبھ دعا سے بھی یہ سلسلہ بنایا تھا
میں دوستوں کی رفاقت میں ہنس رہا تھا عتیق
مرے عدو نے جسے واقعہ بنایا تھا
ملک عتیق