میلاد االنبیؐ کی خوشی
قرآن و حدیث کی روشنی میں
نبیؐ پاک کی دنیا میں تشریف آوری ایسی نعمت عظمیٰ ہے کہ جس نعمت کے طفیل باقی نعمتیں ملیں۔بلکہ یوں کہہ لیجیے کہ جس جس کو بھی لگتا ہے کہ اس کے لیے یہ چیز، یہ کام، یہ وقت، یہ عمر، یہ حسن،یہ دولت،یہ جوانی، یہ اولاد، یہ خیر غرض کچھ بھی نعمت ہے،اسے یہ جان لینا چاہیے کہ وہ نعمت اسے آقا کریمؐ کے صدقے میں ہی ملی ہے۔حکم شریعت ہے کہ جب نبیؐ پاک کا نام مبارک آئے تو درود پڑھو اورآقاؐجی کا نام مبارک اتنا میٹھا ہے کہ درود پڑھتے ہوئے بھی جب نام محمدؐ آتا ہے تو پھر دل کرتا ہے وہاں بھی درود پڑھتے جائیں۔اللہ پاک نے ارشاد فرمایا وَذَ کِّرھُم بِاَیاَّمِ اللہ۔”اور یاد دلاؤ ان کو اللہ کے دن۔”اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ سارے دن ہی تو اللہ کے ہیں تو پھر اللہ پاک نے موسیٰ ؑ کو کون سے دن یاد دلانے کا حکم دیا اور وہ کون سے خاص ایام ہیں تو مفسرین اکرام نے فرمایا اس سے مراد وہ دن ہیں کہ جن دنوں میں اللہ پاک نے اپنے بندوں پر انعامات فرمائے۔(تفسیر ابن عباس،خازن،ابن جریر وغیرہ)۔کون مسلمان ہے جو انکار کر سکتا ہے کہ نبیؐ پاک نعمت بھی ہیں اور رحمت بھی ہیں۔
رحمت کے حوالے سے اللہ پاک نے فرمایا۔”اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر”اور نعمت کے حوالے سے رب کریم نے فرمایا کہ اَلَّذِینَ بَدَّلُوا نِعمَۃَاللہِ کُفراً۔”وہ لوگ ہیں جنہوں نے بدلا اللہ کی نعمت کو کفرکرتے ہوئے۔”حضرت ابن عباسؓ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ نِعمَۃِ الّٰلہِ مُحَمّدصل اللہ علیہ وآلہ وسلم۔بے شک نعمت اللہ محمدؐ ہیں۔ اب جب ثابت ہے کہ آپؐ رحمت بھی ہیں اور نعمت بھی اور اللہ پاک ان دنوں کو یاد کرنے کا حکم بھی دیتا ہے جس میں کوئی نعمت ملے تو پھر آقاؐ کریم کے آنے کی خوشی منانے میں کوئی چیز بھی مانع نہیں ہو سکتی سوائے اس کے کہ خدانخواستہ کوئی انھیں نعمت اور رحمت نہ سمجھتا ہو۔اب خوشی منانے کے حوالے سے ایک اور قرآنی دلیل دیکھیں۔قُل بِفَضلِ الّٰلہِ وَ بِرَحمَتِہ ِفَبِذَالِکَ فَلیَفرَحُوا ط ھُوَاخَیرُُمِّمَّا یَجمَعُونَ۔” اے پیارے محبوب ؐ!لوگوں سے فرما دیجیے کہ اللہ کے فضل اور رحمت کے ملنے پر چاہیے کہ پس خوشیاں منائیں۔وہ بہتر ہے اس سے جو وہ جمع کرتے ہیں۔” اب اس آیت مقدسہ میں واضح طور پر خوشی منانے کا باقاعدہ حکم دیاگیا ہے اور اس خوشی پر خرچ کرنے کا بھی حکم دیا گیا ہے۔تواب فضول خرچی کے فتوی لگانے والے اپنا محاسبہ خود کریں۔پھر فرمایا: وَاذکُرُوا نِعمَتَ الّٰلہِ عَلَیکُم۔”اور ذکر کرو اللہ کی نعمت کا جو تم پر ہوئی۔”پھر اللہ پاک نے فرمایا : وَاَمَّا بِنِعمَتِ رَبِّکَ فَحَدِّث۔”اور میری نعمتوں کا خوب چرچا کیا کرو۔”اب بتائیں کیا چرچا خاموشی سے ہوتا ہے یا لوگوں میں اجتماعی طور پر ذکر کرنے سے ہوتا ہے؟کسی کے گھر بیٹا پیدا ہوا تو وہ خوش تو بہت ہے لیکن اپنے ہمسائے کو عزیز اقارب کو یا دوست احباب کو بتاتا تک نہیں،تو خود سوچیں کون مانے گا کہ یہ واقعی دل میں بڑا خوش ہے۔
خوشی منانے کا تقاضا ہی یہی ہے اس کا سب سے والہانہ اظہار کیا جائے۔اور جو ایسے اظہار نہ کرے اس کی خوشی مشکوک ہو جاتی ہے۔ہاں اس بات میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ خوشی شریعت کے دائرے میں رہ کر منائی جائے اور کوئی خلاف شرع کام نہ کیا جائے۔اور اس اصول کا اطلاق صرف میلاد شریف کی خوشی منانے کی حد تک نہیں ہے بلکہ ہر ہر مقام خوشی پر اس کو مدنظر رکھنا چاہیے۔چاہے شادی بیاہ ہو یا کوئی میچ یا الیکشن جیتا ہو،جشن آزادی ہو یا چاند رات ہو۔ سب اوقات فرحت و مسرّت پر شریعت کاخیال رکھا جائے۔وہ بھی سوچیں جن کے فتوے چلانے والی توپوں کا رخ صرف اورصرف میلاد شریف کی طرف ہی ہوتا ہے۔باقی ایام میں ان کی تائیدی خاموشی کچھ اور ہی کہانی بتاتی ہے۔ بخاری شریف جلد دوم میں روایت ہے جس کا مفہوم ہے کہ ابو لھب نے حضرت عباسؓ کو خواب میں بتایا کہ اس نے کوئی خیر نہیں دیکھی سوائے اس کے کہ کلمہ کی انگلی سے سیراب کیا جاتا ہے جس سے اپنی لونڈی ثویبہ کو آزاد کیا تھا۔ ایک کافر کا بھی اللہ پاک نے نبی ؐ پاک کی آمد کی خوشی منانے کا اجر ضائع نہیں کیا۔حالانکہ اس نے اللہ کے رسولؐ کی نہیں بلکہ اپنے بھتیجے کی خوشی کی تھی لیکن ذات اقدس تو وہی تھی ناں تو اس کا اجر پایا۔ اب بتائیں اگر کوئی مومن مسلمان حالت ایمان میں نبیؐ پاک کی آمد کی خوشی منائے گا تو اللہ پاک کتنا اجر عطا فرمائے گا۔تصور سے بھی باہر ہے۔خود اللہ پاک نے تذکرہ فرمایا:”اور یاد کرو جب اللہ نے نبیوں سے عہد لیا کہ جو کچھ دیا میں نے تم کو کتاب اور حکمت سے اور پھر آئیں تمہارے پاس عظمتوں والے رسول ؐ،جو تصدیق کرنے والے ہوں اس کی جو تمہارے ساتھ ہے،تو ان پر ضرور ایمان لاؤ گے اور اس کی مدد ضرور کرو گے۔”اس میں اللہ پاک نے نبی ؐ پاک کی آمد کا تذکرہ خود فرمایا۔اور آمد کا ذکر کرنا ہی تو میلاد ہے۔ پھر عیسیٰ ؑ نے اپنی امت میں حضورؐ کی آمد کا ذکر یوں فرمایا:”اے لوگو! میں بشارت دیتا ہوں تم کو اس رسولؐ کی جو میرے بعد تشریف لانے والے ہیں۔جن کا نام مبارک احمد ؐ ہے۔”تذکرہ ولادت مصطفیؐ تو سنت انبیاء ہے تو اب اس کو بدعت کہنے والوں کے فتوے کہاں کہاں تک جائیں گے،خود سوچ لیں۔مشکوۃ شریف میں ہے کہ حضورؐ سے پیر کے دن روزہ رکھنے کے حوالے سے پوچھا گیاتو آپؐ نے یہ نہیں فرمایا کہ روزہ عبادت ہے،فضیلت والا عمل ہے یا کوئی اور وجہ ارشاد نہیں فرمائی بلکہ اس کی وجہ یہ بتائی کہ اس دن میری ولادت ہوئی اور اسی دن مجھ پر وحی نازل ہوئی۔تو گویا اپنی ولادت کی خوشی خود آقا کریمؐ نے بھی منائی۔اللہ پاک سمجھ کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
اویس خالد