اردو غزلیاتسرفراز آرششعر و شاعری

خیر اندیشی کرتے کرتے بے ایمانی آ جائے گی

سرفراز آرش کی ایک غزل

خیر اندیشی کرتے کرتے بے ایمانی آ جائے گی
جب تک پودا پیڑ بنے گا ناؤ بنانی آ جائے گی

ہم کو کیا معلوم تھا اک دن فوج ہمیں غدار کہے گی
ہم کو سانپ کی گالی دینے رات کی رانی آ جائے گی

کیلنڈر کی اک تاریخ پہ پھیر رہا ہوں پنسل کو میں
سوچ رہا ہوں چند دنوں میں پھر ویرانی آ جائے گی

میں جو دریا سے واپس آ کر گھر کا پانی پیتا ہوں
میرا گھر کو جانا سمجھو, پیاس جگانی آ جائے گی

وقت کے سارے پہلو آخر حیرت خانے ہی پہنچیں گے
نظر ثانی کر بھی لیں تو پھر حیرانی آ جائے گی

عشق شعوری کرنا ہے تو عذر کرو دانستہ اس سے
گیلی لکڑی سلگے گی تو آگ چرانی آ جائے گی

سرحد کوئی چیز نہیں ہے اور ضد اندھے کا چشمہ ہے
نادم ہونا سیکھو گے تو باڑ ہٹانی آ جائے گی

جن لوگوں کو ہتھکڑیوں میں بھی آزادی محسوس ہوئی
ان سے مارکس کی باتیں سننا ہیر سنانی آ جائے گی

صحن کی وسعت کم ہے آرش چھاؤں زیادہ لے آئے ہو
اس حکمت سے سورج کو بھی دھوپ بچانی آ جائے گی

سرفراز آرش

سائٹ ایڈمن

’’سلام اردو ‘‘،ادب ،معاشرت اور مذہب کے حوالے سے ایک بہترین ویب پیج ہے ،جہاں آپ کو کلاسک سے لے جدیدادب کا اعلیٰ ترین انتخاب پڑھنے کو ملے گا ،ساتھ ہی خصوصی گوشے اور ادبی تقریبات سے لے کر تحقیق وتنقید،تبصرے اور تجزیے کا عمیق مطالعہ ملے گا ۔ جہاں معاشرتی مسائل کو لے کر سنجیدہ گفتگو ملے گی ۔ جہاں بِنا کسی مسلکی تعصب اور فرقہ وارنہ کج بحثی کے بجائے علمی سطح پر مذہبی تجزیوں سے بہترین رہنمائی حاصل ہوگی ۔ تو آئیے اپنی تخلیقات سے سلام اردوکے ویب پیج کوسجائیے اور معاشرے میں پھیلی بے چینی اور انتشار کو دورکیجیے کہ معاشرے کو جہالت کی تاریکی سے نکالنا ہی سب سے افضل ترین جہاد ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

Back to top button