کوئی کلی ہے نہ غنچہ نہ گل برائے صبا
چمن میں کانٹے ہیں دامن بچا کے آئے صبا
نہ اب طلسم بہاراں نہ اب فسون جمال
وہ لمحے خواب ہوئے خواب بھول جائے صبا
کبھی فضاؤں میں خوشبو اڑائے پھرتی تھی
مگر یہ دن کہ بہاروں میں خاک اڑائے صبا
کلی ہے مہر بہ لب پھول ہے گریباں چاک
اجل کی دھوپ ہے پھرتی ہے سائے سائے صبا
نہ کچھ نشاں کی صدا ہے نہ آہٹوں کے نشاں
چمن میں ڈھونڈتے پھرتے ہیں نقش پائے صبا
گھٹن ہے ایسی کہ صرصر کو بھی ترستے ہیں
کسے پکاریں کہاں جائیں اے خدائے صبا
حریم غنچہ میں خوشبو سمٹ کے بیٹھی ہے
حجاب اٹھے جو صحن چمن میں آئے صبا
خبر نہیں مجھے کس سمت لے کے اڑ جائے
کئی دنوں سے مرے سر میں ہے ہوائے صبا
بھٹکتی پھرتی ہے صحرائے درد میں خاطرؔ
بچھڑ گیا ہو کوئی جیسے آشنائے صبا
خاطر غزنوی






