بہار میں لاک ڈاون
معذور ہیں
ہم بصارت سے معذور ہیں
رینگتے رینگتے ٹہنیوں کی جبینوں پہ گُل کِھل گئے
رنگ و بُو کے نئے معجزے
کم نگاہی مٹانے
سماوات میں چشمِ حیرت پہ اُترے
مگر بے تنفس ہیں آنکھیں ہماری
جو دستِ تمنا کی جھولی میں اتنی ہزیمت اُٹھائے
کہ مہکی دبازت سے دامن چُھڑائے
جو خود کو
کسی خوف کی بے کلی میں چُھپائے
غصیلے خُدا کے دروں پہ ہوں جیسے گنہگار سائے
کہ معذور ہیں
شہرِ دربند میں
اِس برس پُربہاری کے گھنگھرو چھنکتے رہیں
گنگ ہیں جوڑیاں پائوں کی
ہچکیوں کے وہ کانٹے گلے میں بھرے ہیں
توجہ کے دِیوے ہیں خود پر دھرے
قرمزی خال و خد کی حسیں تتلیو
ہانپتے ہانپتے کون پیچھا کرے؟
اب تمہاری ستائش میں خواہش کے اثقال سے
کوئی دُنیا بنے
موت کے ہاڑ میں
کیوں ابد خیز خوشبو کے آہنگ سے خود کو سینچا کرے
اوڑھنی سبز رُت کی مبارک ہو لیکن
دبے پاوں ٹیڑھا سا قامت لیے عرش پر جاو
دے دو دہائی
نہیں تو
کسی قبر پر
سوگواری کی صورت بھرو چارپائی
عرفان شہود