آپ کا سلاماردو غزلیاتشعر و شاعریعامر ابدال

دیےنے تھامی ہوئی تھی قلم دوات کی نبض

ایک غزل از عامر ابدال

دیےنے تھامی ہوئی تھی قلم دوات کی نبض
وگرنہ رکنے کو تھی زندگی کی رات کی نبض

کوئی جبینِ سحرتاب محوِ سجدہ ہے
رکی ہوئی ہے ابھی میری کائنات کی نبض

ابھی چراغ ، سرِ طاقِ طور روشن ہے
ابھی رواں رہے موسی کے معجزات کی نبض

کتابِ کُن فَیَکُوں کی سرِ سنانِ ازل
تلاوتوں سے رواں ہو گی ممکنات کی نبض

کلی کلی کی زباں پر ہے ایک اسم کا ورد
چمن میں رکتی ہے موسم کی مشکلات کی نبض

کمان ابرو ہیں اور تیر اس کی پلکیں ہیں
نشانہ خود کو سمجھتی ہے چاند رات کی نبض

ہمارا ظرفِ کشادہ کہ خندہ زن ہی ملے
تمھاری ہم نے بھی پا لی تھی التفات کی نبض

جہانِ وحشت و تنہائی ہے یہ دل ابدال
یہاں جو آئیں تو رک جائے حادثات کی نبض

عامر ابدال

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

Back to top button