کب تک بھلا بتائوگے یوں صبح و شام روز
آئو کہیں کہ رہتے ہیں رفتہ تمام روز
وہ سرکشی سے گو متوجہ نہ ہو ادھر
ہم عاجزانہ کرتے ہیں اس کو سلام روز
گہ رنج کھینچنے کو کہے گہ ہلاک کو
پہنچے ہے ہم کو اس سے نیا اک پیام روز
منظور بندگی نہیں میری تو کیا کروں
حاضر ہے اپنی اور سے یوں تو غلام روز
برسوں ہوئے کہ رات کو ٹک بیٹھتے نہیں
رہتے ہیں تم کو میر جی کیا ایسے کام روز
میر تقی میر