ہر اک بات پر یونہی اُلجھوں، لڑوں میں
کسی کو ترے ساتھ کب تک سہوں میں
ہُوا ہے کٹھن روکنا آنسوؤں کو
بہانہ کوئی تو ملے، رو سکوں مَیں
اگر وہ مرا ہے تو پھر کیوں کسی سے
وہ منسوب ہو، اور اُسے قرض لوں مَیں
گھنے پیڑ سے لپٹی ہوں بیل جیسی
ہوا سانس بھی لے تو لرزوں، ڈروں میں
کسی دسترس میں ہوں گڑیا کی مانند
کہے تو چلوں، وہ کہے تو رکوں میں
بدن کی گلی میں ہے اتنی خموشی
صدا ٹوٹتے پتّے کی بھی سنوں میں
وہ دریا نہیں ہے تو پھر کیوں شبانہ
ندی کی طرح اُس کی جانب بہوں میں
شبانہ یوسف