- Advertisement -

آخری ہدایت

عمیرہ احمد کے ناول پیرِ کامل سے اقتباس

لاہور کی حدود میں داخل ہوتے ہی امامہ نے اس سے کہا۔” اب تم مجھے کسی بھی اسٹاپ پر اتار دو۔۔۔۔۔ میں چلی جاؤں گی۔”
"تم جہاں جانا چاہتی ہو، میں تمہیں وہاں چھوڑ دیتا ہوں۔ اتنی دھند میں کسی ٹرانسپورٹ کا انتظار کرتے تمہیں بہت وقت لگے گا۔” سڑکیں اس وقت تقریباً ویران تھیں، حالانکہ صبح ہو چکی تھی مگر دھند نے ہر چیز کو لپیٹ میں لے رکھا تھا۔
"مجھے نہیں پتا، مجھے کہاں جانا ہے پھر تمہیں میں کس جگہ کا پتا بتاؤں ۔ ابھی تو شاید میں ہاسٹل جاؤں اور پھر وہاں۔۔۔۔۔” سالار نے اس کی بات کاٹ دی۔
"تو پھر میں تمہیں ہاسٹل چھوڑ دیتا ہوں۔” کچھ فاصلہ اسی طرح خاموشی سے طے ہوا پھر ہاسٹل سے کچھ فاصلے پر امامہ نے اس سے کہا۔
"بس تم یہاں گاڑی روک دو، میں یہاں سے خود چلی جاؤں گی۔۔۔۔۔ میں تمہارے ساتھ ہاسٹل نہیں جانا چاہتی۔” سالار نے سڑک کے کنارے گاڑی روک دی۔
"پچھلے کچھ ہفتوں میں تم نے میری بہت مدد کی ہے، میں اس کے لئے تمہارا شکریہ ادا کر نا چاہتی ہوں۔ تم میری مدد نہ کرتے تو آج میں یہاں نہ ہوتی۔” وہ ایک لمحہ کے لئے رکی۔ "تمہارا موبائل ابھی میرے پاس ہے، مگر مجھے ابھی اس کی ضرورت ہے، میں کچھ عرصہ بعد اسے واپس بھجوا دوں گی۔”
"اس کی ضرورت نہیں، تم اسے رکھ سکتی ہو۔”
"میں کچھ دنوں بعد تم سے دوبارہ رابطہ کروں گی پھر تم مجھے طلاق کے پیپرز بھجوا دینا۔” وہ رکی۔
"میں امید کرتی ہوں کہ تم میرے پیرنٹس کو کچھ نہیں بتاؤ گے۔”
"یہ کہنے کی ضرورت تھی؟” سالار نے بھنوئیں اچکاتے ہوئے کہا۔” مجھے کچھ بتانا ہوتا تو میں بہت پہلے بتا چکا ہوتا۔” سالار نے قدرے سردمہری سے کہا۔” تم مجھے بہت برا لڑکا سمجھتی تھیں، کیا ابھی بھی تمہاری میرے بارے میں وہی رائے ہے یا تم نے اپنی رائے میں کچھ تبدیلی کی ہے۔” سالار نے اچانک تیکھی مسکراہٹ کے ساتھ اس سے پوچھا۔
"تمہیں نہیں لگتا کہ میں دراصل بہت اچھا لڑکا ہوں۔”
"ہو سکتا ہے۔” امامہ نے مدھم آواز میں کہا۔ سالار کو اس کی بات پر جیسے شاک لگا۔
"ہو سکتا ہے۔” وہ بے یقینی سے مسکرایا۔”ابھی بھی ہو سکتا ہے، تم بہت ناشکری ہو امامہ، میں نے تمہارے لئے اتنا کچھ کیا ہے جو اس زمانے میں کوئی لڑکا نہیں کرے گا اور تم پھر بھی مجھے اچھا ماننے پر تیار نہیں۔”
"میں ناشکری نہیں ہوں۔ مجھے اعتراف ہیں کہ تم نے مجھ پر بہت احسان کئے ہیں اور شاید تمہاری جگہ کوئی دوسرا کبھی نہ کرتا۔۔۔۔۔”
سالار نے اس کی بات کاٹ دی۔” تو میں اچھا ہوا نا۔”
وہ کچھ نہیں بولی صرف اسے دیکھتی رہی۔
"نہیں، مجھے پتا ہے تم یہی کہنا چاہتی ہو، حالانکہ مشرقی لڑکی کی خاموشی اس کا اقرار ہوتی ہے مگر تمہاری خاموشی تمہارا انکار ہوتی ہے۔ ٹھیک کہہ رہا ہوں نا۔”
"ہم ایک فضول بحث کر رہے ہیں۔”
"ہو سکتا ہے۔” سالار نے کندھے اچکائے۔”مگر مجھے حیرانی ہے کہ تم۔۔۔۔۔”
اس بار امامہ نے اس کی بات کاٹ دی۔” تم نے میرے لئے یقیناً بہت کچھ کیا ہے۔۔۔۔۔ اور اگر میں تمہیں جانتی نہ ہوتی تو یقیناً میں تمہیں ایک بہت اچھا انسان سمجھتی اور کہہ بھی دیتی۔۔۔۔۔ مگر میں تمہیں اتنی اچھی طرح جانتی ہوں کہ میرے لئے یہ کہنا مشکل ہے کہ تم ایک اچھے انسان ہو۔۔۔۔۔”
وہ رکی۔ سالار پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھتا رہا۔
"جو آدمی خود کشی کی کوشش کرتا ہو، شراب پیتا ہو، جس نے اپنا کمرہ عورتوں کی برہنہ تصویروں سے بھر رکھا ہو۔۔۔۔۔ وہ اچھا آدمی تو نہیں ہو سکتا۔”امامہ نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
"تم کسی ایسے آدمی کے پاس جاتیں جو یہ تینوں کام نہ کرتا مگر تمہاری مدد بھی نہ کرتا تو کیا تمہارے لئے وہ اچھا آدمی ہوتا؟” سالار نے تیز آواز میں کہا۔” جیسے جلال انصر؟”
امامہ کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔”ہاں، اس نے میری مدد نہیں کی، مجھ سے شادی نہیں کی مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ برا ہو گیا ہے۔ وہ اچھا آدمی ہے۔۔۔۔۔ ابھی بھی میرے نزدیک اچھا آدمی ہے۔”
"اور میں نے تمہاری مدد کی۔۔۔۔۔ تم سے شادی کی مگر یقیناً اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں اچھا ہو گیا ہوں، میں برا آدمی ہوں۔” وہ عجیب سے انداز میں کہتے ہوئے مسکرایا۔”تمہارا خود اپنے بارے میں کیا خیال ہے امامہ۔۔۔۔۔ کیا تم اچھی لڑکی ہو؟”
اس نے اچانک چبھتے ہوئے انداز میں پوچھا اور پھر جواب کا انتظار کئے بغیر کہنے لگا۔
"میرے نزدیک تم بھی اچھی لڑکی نہیں ہو، تم بھی ایک لڑکے کے لئے اپنے گھر سے بھاگی ہو۔۔۔۔۔ اپنے منگیتر کو دھوکا دیا ہے تم نے۔۔۔۔۔ اپنی فیملی کی عزت کو خراب کیا ہے تم نے۔۔۔۔۔” سالار نے ہر لحاظ بالائے طاق رکھتے ہوئے صاف گوئی سے کہا۔
امامہ کی انکھو ں میں ہلکی سی نمی آ گئی۔”تم ٹھیک کہتے ہو، میں واقعی اچھی لڑکی نہیں ہوں۔ ابھی مجھے یہ جملہ بہت سے لوگوں سے سننا ہے۔”
"میں تمہیں بہت لمبی چوڑی وضاحت دے سکتی ہوں مگر اس کا کوئی فائدہ نہیں، تم ان چیزوں کو نہیں سمجھ سکتے۔”
"فرض کرو، میں تمہیں لاہور نہ لے کر آتا کہیں اور لے جاتا پھر۔۔۔۔۔ مگر میں تمہیں بحفاظت یہاں لے آیا۔۔۔۔۔ یہ میرا تم پر کتنا بڑا احسان ہے، تمہیں اندازہ ہے اس کا۔”
امامہ گردن موڑ کر اسے دیکھنے لگی۔
"مجھے یقین تھا تم مجھے کہیں اور نہیں لے جاؤ گے۔”
وہ اس کی بات پر ہنسا۔”مجھ پر یقین تھا ۔۔۔۔۔ کیوں؟ میں تو ایک برا لڑکا ہوں۔”
"مجھے تم پر یقین نہیں تھا۔۔۔۔۔ اللہ پر یقین تھا۔” سالار کے ماتھے پر کچھ بل پڑ گئے۔
"میں نے اللہ اور اپنے پیغمبر ﷺ کے لئے سب کچھ چھوڑ دیا ہے، یہ کبھی نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ مجھے تمہارے جیسے آدمی کے ہاتھوں رسوا کرتے، یہ ممکن ہی نہیں تھا۔”
"فرض کرو ایسا ہو جاتا۔” سالار مصر ہوا۔” میں ایسی بات کیوں فرض کروں جو نہیں ہوئی۔” وہ اپنی بات پر قائم تھی۔
"یعنی تم مجھے کسی قسم کا کوئی کریڈٹ نہیں دو گی۔” وہ مذاق اڑانے والے انداز میں مسکرایا۔
"اچھا فرض کرو میں اب تمہیں جانے نہیں دیتا تو تم کیا کرو گی۔ گاڑی کا دروازہ جب تک میں نہیں کھولوں گا، نہیں کھلے گا۔۔۔۔۔ یہ تم جانتی ہو۔۔۔۔۔ اب بتاؤ تم کیا کرو گی۔”
وہ یک ٹک اسے دیکھتی رہی۔” یا میں یہ کرتا ہوں۔”سالار نے ڈیش بورڈ پر پڑا ہوا اپنا موبائل اٹھایا اور اس پر ایک نمبر ڈائل کرنے لگا۔”کہ تمہارے گھر فون کر دیتا ہوں۔” اس نے موبائل کی سکرین کو اس کی آنکھوں کے سامنے لہرایا۔ اس پر امامہ کے گھر کا نمبر تھا۔
"میں انہیں تمہارے بارے میں بتاتا ہوں کہ تم کہاں ہو، کس کے ساتھ ہو۔۔۔۔۔ پھر یہاں سے تمہیں سیدھا پولیس اسٹیشن لے جا کر ان کی تحویل میں دے دیتا ہوں۔۔۔۔۔ تو پھر تمہارے اعتقاد اور اعتبار کا کیا ہوا۔” وہ مذاق اڑانے والے انداز میں کہہ رہا تھا۔
امامہ چپ چاپ اسے دیکھتی رہی۔ سالار کو بے حد خوشی محسوس ہوئی۔ سالار نے موبائل آف کرتے ہوئے ایک بار پھر اس کی آنکھوں کے سامنے لہرایا۔
"کتنا بڑا احسان کر رہا ہوں میں تم پر کہ ایسا نہیں کر رہا۔” اس نے موبائل کو دوبادہ ڈیش بورڈ پر رکھتے ہوئے کہا۔” حالانکہ تم بے بس ہو، کچھ بھی نہیں کر سکتیں، اسی طرح رات کو میں تمہیں کہیں اور لے جاتا تو تم کیا کر لیتیں۔”
"میں تمہیں شوٹ کر دیتی۔” سالار نے حیرانی سے اسے دیکھا پھر قہقہہ مار کر ہنسا۔
"کیا کر دیتیں۔ میں۔۔۔۔۔ تمہیں۔۔۔۔۔ شوٹ۔۔۔۔۔ کر ۔۔۔۔۔ دیتی۔”
اس نے اسی انداز میں رک رک کر اسے کہا۔ وہ اسٹیرئنگ پر دونوں ہاتھ رکھ کر کھلکھلا کر ہنسا۔
"کبھی زندگی میں پسٹل دیکھا بھی ہے تم نے۔” اس نے امامہ کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا۔
سالار نے اسے جھکتے اور اپنے پاؤں کی طرف ہاتھ بڑھاتے دیکھا۔ جب وہ سیدھی ہوئی تو اس نے سالار سے کہا۔” شاید اسے کہتے ہیں۔”
سالار ہنسنا بھول گیا۔ اس کے دائیں ہاتھ میں چھوٹے سائز کا ایک بہت خوبصورت اور قیمتی لیڈیز پستول تھا۔ سالار پستول پر اس کے ہاتھ کی گرفت دیکھ کر جان گیا تھا کہ وہ کسی اناڑی کے ہاتھ میں نہیں تھا۔ اس نے بے یقینی سے امامہ کو دیکھا۔
"تم مجھے شوٹ کر سکتی تھیں؟”
"ہاں، میں تمہیں شوٹ کر سکتی تھی مگر میں نے ایسا نہیں کیا کیونکہ تم نے مجھے کوئی دھوکا نہیں دیا۔”
اس نے مستحکم آواز میں کہا۔ اس نے پستول سالار کی طرف نہیں کیا تھا، صرف اپنے ہاتھ میں رکھا تھا۔
"گاڑی کا لاک۔۔۔۔۔ ” اس نے بات ادھوری چھوڑتے ہوئے سالار سے کہا۔ سالار نے غیر ارادی طور پر اپنی طرف موجود بٹن دبا کر لاک کھول دیا۔ امامہ نے دروازہ کھول دیا۔ وہ اب پستول اپنی گود میں موجود بیگ میں رکھ رہی تھی۔ دونوں کے درمیان مزید کوئی بات نہیں ہوئی۔ امامہ نے گاڑی سے باہر نکل کر اس کا دروازہ بند کر دیا۔ سالار نے اسے تیز قدموں کے ساتھ ایک قریب آتی ہوئی ویگن کی طرف جاتے اور پھر اس میں سوار ہوتے دیکھا۔
اس کی قوت مشاہدہ بہت تیز تھی۔۔۔۔۔ وہ کسی بھی شخص کے چہرے کو پڑھ سکتا تھا۔۔۔۔۔ اور اسے اس چیز پر بڑا زعم تھا۔۔۔۔۔ مگر وہاں اس دھندآ لود سڑک پر گاڑی پر بیٹھے ہوئے اس نے اعتراف کیا۔ وہ امامہ ہاشم کو نہیں جان سکا تھا۔۔۔۔۔ وہ اگلے کئی منٹ اسٹیرئنگ پر دونوں ہاتھ رکھے بے یقینی کے عالم میں وہیں بیٹھا رہا تھا۔ امامہ ہاشم کے لئے اس کی ناپسندیدگی میں کچھ اور اضافہ ہو گیا تھا۔
وہ واپسی پر دھند کی پرواہ کئے بغیر پوری رفتار سے گاڑی چلا کر آیا تھا۔ پورا رستہ اس کا ذہن اسی ادھیڑ بن میں لگا ہوا تھا کہ اس نے پستول آخر کہاں سے نکالا تھا۔ وہ پورے وثوق سے کہہ سکتا تھا کہ جس وقت وہ وضو کے لئے پاؤں دھو رہی تھی اس وقت وہ پستول اس کی پنڈل کے ساتھ نہیں تھا ورنہ وہ ضرور اسے دیکھ لیتا۔ بعد میں نماز پڑھنے کے دوران بھی وہ بغور اسے سر سے پاؤں تک دیکھتا رہا تھا، پستول تب بھی اس کی پنڈل کے ساتھ بندھا ہوا نہیں تھا۔ وہ برگر کھانے اور چائے پینے کے بعد گاڑی میں آ کر بیٹھ گئی تھی اور وہ کچھ دیر بعد گاڑی میں آیا تھا۔ وہ یقیناً گاڑی میں موجود اس کے بیگ میں ہی ہو گا۔ وہ اندازے لگاتا رہا۔
وہ جس وقت اپنے گھر پہنچا اس کا موڈ آف تھا۔ گیٹ سے گاڑی اندر لے جاتے ہوئے اس نے چوکیدار کو اپنی طرف بلایا۔”رات کو میں جس لڑکی کے ساتھ یہاں سے گیا تھا تم اس کے بارے میں کسی کو نہیں بتاؤ گے بلکہ میں رات کو کہیں نہیں گیا، سمجھ میں آیا۔” اس نے تحکمانہ انداز میں کہا۔
"جی۔۔۔۔۔ میں کسی کو نہیں بتاؤں گا۔” چوکیدار نے فرمانبرداری سے سر ہلایا۔ وہ احمق نہیں تھا کہ ایسی چیزوں کے بارے میں کسی کو بتاتا پھرتا۔
اپنے کمرے میں آ کر وہ اطمینان کے ساتھ سو گیا۔ اس کا اس دن کہیں جانے کا ارادہ نہیں تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

وہ اس وقت گہری نیند میں تھا، جب اس نے اچانک کسی کو اپنے کمرے کے دروازے کو زور زور سے بجاتے سنا۔ وہ یک دم اٹھ کر بیٹھ گیا۔ دروازہ واقعی بج رہا تھا۔ اس نے مندی ہوئی نظروں سے وال کلاک کو دیکھا جو چار بجا رہا تھا۔ اپنی آنکھوں کو رگڑتے ہوئے وہ اپنے بیڈ سے اٹھ کھڑا ہوا۔ اسے دروازہ بجانے والے پر شدید غصہ آ رہا تھا۔ اسی غصے کے عالم میں اس نے بڑبڑاتے ہوئے ایک جھٹکے کے ساتھ دروازہ کھول دیا۔ باہر ملازم کھڑا تھا۔
"کیا تکلیف ہے تمہیں۔۔۔۔۔ کیوں اس طرح دروازہ بجا رہے ہو؟ دروازہ توڑنا چاہتے ہو تم؟” وہ دروازہ کھولتے ہی ملازم پر چلایا۔
"سالارصاحب باہر پولیس کھڑی ہے۔” ملازم نے گھبرائے ہوئے انداز میں کہا۔ سالار کا غصہ اور نیند ایک منٹ میں غائب ہو گئے۔ ایک سیکنڈ سے بھی کم عرصے میں وہ پولیس کے وہاں آ جانے کی وجہ جان گیا تھا اور اس ان کی اور امامہ کے گھر والوں کی اس مستعدی پر حیرت ہوئی۔ آخر چند گھنٹوں میں سیدھے اس تک کیسے پہنچ گئے تھے۔
"کس لئے آئی ہے پولیس؟” اس نے اپنی آواز کو پرسکون رکھتے ہوئے بے تاثر چہرے کے ساتھ پوچھا۔
"یہ تو جی پتا نہیں، وہ بس کہہ رہے ہیں کہ آپ سے ملنا ہے،مگر چوکیدار نے گیٹ نہیں کھولا۔ اس نے ان سے کہہ دیا ہے کہ آپ گھر پر نہیں ہیں مگرا ن کے پاس آپ کے وارنٹ ہیں اور وہ کہہ رہے ہیں کہ اگر انہیں اندر نہیں آنے دیا گیا تو وہ زبردستی اندر آ جائیں گے اور تمام لوگوں کو گرفتار کر کے لے جائیں گے۔”
سالار نے بے اختیار اطمینان بھرا سانس لیا۔ چوکیدار نے واقعی بڑی عقل مندی کا مظاہرہ کیا تھا۔ اسے یقیناً یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ پولیس رات والی لڑکی کے معاملے میں ہی تفتیش کے لئے وہاں آئی تھی اس لئے اس نے نہ تو پولیس کو اندر آنے دیا نہ ہی انہیں یہ بتایا کہ سالار گھر پر موجود تھا۔
"تم فکر مت کرو۔ میں کچھ نہ کچھ کرتا ہوں۔”سالار نے ملازم سے کہا اور واپس اپنے بیڈ روم میں آگیا، وہ کسی عام شہری کا گھر ہوتا تو پولیس شاید دیواریں پھلانگ کر بھی اندر موجود ہوتی مگر اس وقت وارنٹ ہونے کے باوجود اس گھر کا سائز اور جس علاقے میں وہ واقع تھا انہیں خوف میں مبتلا کر رہے تھے۔ اگر امامہ کا خاندان بھی اثر ورسوخ والا نہیں ہوتا تو شاید اس وقت پولیس اس سیکٹر میں آنے اور خاص طور پر وارنٹ کے ساتھ آنے کی جرات ہی نہ کرتی مگر اس وقت پولیس کے سامنے آگے کنواں پیچھے کھائی والی صورت تھی۔
سالار نے بیڈ روم کے اندر آتے ہی فون اٹھا کر کراچی سکندر عثمان کو فون کیا۔
"پاپا! ایک چھوٹا سا پرابلم ہو گیا ہے۔” اس نے چھوٹتے ہی کہا۔
"یہاں ہمارے گھر کے باہر پولیس کھڑی ہے اور ان کے پاس میرے گرفتاری کے وارنٹ ہیں۔”
سکندر عثمان کے ہاتھ سے موبائل گرتے گرتے بچا۔
"کیوں۔۔۔۔۔؟”
"یہ تو نہیں پتا پاپا۔۔۔۔۔ میں سو رہا تھا، ملازم نے جگا کر مجھے بتایا، کیا میں جا کر پولیس والوں سے پوچھوں کہ وہ کس سلسلے میں مجھے گرفتار کرنا چاہتے ہیں؟” سالارنے بڑی فرمانبرداری اور معصومیت کے ساتھ سکندر عثمان سے پوچھا۔
"نہیں، باہر نکلنے یا پولیس کو اندر بلوانے کی ضرورت نہیں ہے۔ تم اپنے کمرے میں ہی رہو۔ میں تھوڑی دیر بعد تمہیں رنگ کرتا ہوں۔” سکندر عثمان نے عجلت کے عالم میں موبائل بند کر دیا۔ سالار نے مطمئن ہو کر فون رکھ دیا وہ جانتا تھا کہ اب کچھ دیر بعد پولیس وہاں نہیں ہو گی اور واقعی ایسا ہی ہوا تھا۔ دس پندرہ منٹ کے بعد ملازم نے آ کر اسے پولیس کے جانے کے بارے میں بتایا۔ ملازم ابھی اس سے بات کر ہی رہا تھا جب سکندر نے دوبارہ کال کی تھی۔
"پولیس چلی گئی ہے؟” سکندر نے اس کی آواز سنتے ہی کہا۔
"ہاں چلی گئی ہے۔” سالار نے بڑے اطمینان بھرے انداز میں کہا۔
"اب تم میری بات ٹھیک طرح سنو۔ میں اور تمہاری ممی رات کو کراچی سے اسلام آباد پہنچ رہے ہیں۔ تم تب تک گھر سے کہیں نہیں نکلو گے۔۔۔۔۔ سنا تم نے۔” سالار کو ان کے بات کرنے کا انداز بہت عجیب سا لگا۔ انہوں نے بہت اکھڑ انداز اور سرد مہری سے اس سے بات کی تھی۔
"سن لیا۔۔۔۔۔” وہ دوسری طرف سے فون بند کر چکے تھے۔
سالار ابھی فون بند کر رہا تھا جب اس کی نظر اپنے کمرے کے کارپٹ پر پڑی۔ وہاں جوتے کے نشانات تھے اور اس نے دیکھا کہ ملازم بھی قدرے حیرانی کے عالم میں ان نشانات کو دیکھ رہا تھا جو کھڑکی سے قطار کی صورت میں بڑھ رہے تھے۔
"جوتے کے ان نشانات کو صاف کر دو۔” سالار نے تحکمانہ انداز میں کہا۔
ملازم کمرے سے باہر چلا گیا۔ سالار اٹھ کر کھڑکی کی طرف آ گیا اور اس نے وہ سلائیڈنگ ونڈو پوری طرح کھول دی۔ اس کا اندازہ ٹھیک تھا۔ جوتے کے وہ مٹی والے نشانات باہر برآمدے میں بھی موجود تھے۔ امامہ اپنی کیاریوں سے گزر کر دیوار پھلانگ کر ان کی کیاریوں میں کودی تھی اور یہی وجہ تھی کہ اس کے جوتے کے تلے مٹی سے بھر گئے تھے۔ اوس کی وجہ سے وہ مٹی کم اور کیچڑ زیادہ تھی اور اس کے برآمدے کے سفید ماربل پر وہ نشانات بالکل ایک قطار کی صورت میں آ رہے تھے۔ وہ ایک گہری سانس لیتا ہوا اندر آ گیا، ملازم کمرے میں ان نشانات کو صاف کرنے میں مصروف تھا۔
"باہر برآمدے میں بھی پیروں کے کچھ نشانات ہیں انہیں بھی صاف کر دینا۔” سالار نے اس سے کہا۔
"یہ کس کے نشان ہیں؟” ملازم زیادہ دیر اپنے تجسس پر قابو نہیں رکھ سکا۔
"میرے۔۔۔۔۔” سالار نے اکھڑ لہجے میں کہا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

وہ رات کو کھانا کھانے میں مصروف تھا جب سکندر عثمان اور طیبہ آ گئے تھے۔ ان دونوں کے چہرے ستے ہوئے تھے۔ سالار اطمینان سے کھانا کھاتا رہا۔ وہ دونوں اسے مخاطب کئے بغیر اس کے پاس سے گزر کر چلے گئے تھے۔
"کھانا ختم کر کے میرے کمرے میں آؤ۔” سکندر عثمان نے جاتے جاتے اس سے کہا تھا۔ سالار نے جواب دینے کے بجائے فروٹ ٹرائفل اپنی پلیٹ میں نکال لی۔
پندرہ منٹ بعد وہ جب ان کے کمرے میں گیا تو اس نے سکندر کو کمرے میں ٹہلتے ہوئے پایا جب کہ طیبہ فکرمندی کے عالم میں صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی۔
"پاپا! آپ نے بلوایا تھا؟” سالار نے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا۔
"بیٹھو پھر تمہیں بتاتا ہوں کیوں بلایا ہے۔” سکندر عثمان نے اسے دیکھتے ہی ٹہلنا بند کر دیا۔ وہ بڑے اطمینان سے طیبہ کے برابر بیٹھ گیا۔
"امامہ کہاں ہے؟” سکندر نے لمحہ ضائع کئے بغیر پوچھا۔
"کون امامہ؟” اس کی جگہ کوئی اور ہوتا تو اس کے چہرے پر تھوڑی بہت گھبراہٹ ضرور ہوتی، مگر وہ اپنے نام کا ایک ہی تھا۔
سکندر کا چہرہ سرخ ہو گیا۔”تمہاری بہن۔۔۔۔۔” وہ غّرائے۔
"میری بہن کا نام انیتا ہے پاپا۔” سالار کے اطمینان میں کوئی کمی نہیں آئی۔
"تم مجھے صرف ایک بات بتاؤ۔ آخر تم مجھے اور کتنی بار اور کتنے طریقوں سے ذلیل کراؤ گے۔” اس بار سکندر عثمان دوسرے صوفے پر بیٹھ گئے۔
"آپ کیا کہہ رہے ہیں پاپا! میری سمجھ میں نہیں آ رہا۔” سالار نے حیرانی سے کہا۔” حالانکہ تمہاری سمجھ میں اب سب کچھ آ رہا ہے۔” انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا۔”دیکھو، مجھے آرام سے بتا دو کہ امامہ کہاں ہے۔ یہ معاملہ اتنا سیدھا نہیں ہے جتنا تم نے سمجھ لیا ہے۔”
"پاپا! آپ کس امامہ کی بات کر رہے ہیں۔ میں کسی امامہ کو نہیں جانتا۔”
"میں وسیم کی بہن کی بات کر رہا ہوں۔” سکندر عثمان اس بار غّرائے۔
"وسیم کی بہن؟” وہ کچھ سوچ میں پڑ گیا۔”اچھا۔۔۔۔۔ یاد آیا۔۔۔۔۔ وہ جس نے مجھے ٹریٹمنٹ دیا تھا لاسٹ ائیر۔”
"ہاں وہی۔۔۔۔۔ اب چونکہ تمہاری یاداشت واپس آ گئی ہے اس لئے مجھے یہ بھی بتا دو کہ وہ کہاں ہے۔”
"پاپا! وہ اپنے گھر میں ہو گی یا میڈیکل کالج کے ہاسٹل میں۔ میرا اس سے کیا تعلق؟”اس نے حیرانی سے سکندر سے کہا۔”اس کے باپ نے تمہارے خلاف اپنی بیٹی کے اغوا کا کیس کروا دیا ہے۔”
"میرے خلاف۔۔۔۔۔I don’t believe it میراا مامہ سے کیا تعلق ہے۔” اس نے پرسکون لہجے اور بے تاثر چہرے کے ساتھ کہا۔
"یہی تو میں جاننا چاہتا ہوں کہ تمہارا اس کے ساتھ کیا تعلق ہے؟”
"پاپا! میں اس کو جانتا تک نہیں ہوں۔ ایک دو بار کے علاوہ میں اس سےملا تک نہیں۔ پھر اس کے اغوا سے میرا کیا تعلق اور مجھے تو یہ بھی نہیں پتا کہ وہ اغوا ہو گئی ہے۔”
"سالار! اب یہ ایکٹنگ بند کرو۔ مجھے بتا دو کہ وہ بچی کہاں ہے۔ میں نے ہاشم مبین سے وعدہ کیا ہے کہ میں ان کی بیٹی کو ان تک پہنچاؤں گا۔”
"تو آپ اپنا وعدہ پورا کریں اگر ان کی بیٹی کو ان تک پہنچا سکتے ہیں تو ضرور پہنچائیے، مگر مجھے کیوں ڈسٹرب کر رہے ہیں۔” اس بار سالار نے ناگواری سے کہا۔
"دیکھو سالار! تمہاری اور امامہ کے درمیان اگر کسی بھی قسم کی انڈرسٹینڈنگ ہے تو ہم اس معاملے کو حل کر لیں گے۔ میں خود اس کے ساتھ تمہاری شادی کروا دو ں گا۔ تم فی الحال یہ بتاؤ کہ وہ کہاں ہے۔” سکندر عثمان نے اس بار اپنے لب و لہجے میں تبدیلی لاتے ہوئے کہا۔
"فارگاڈسیک پاپا۔۔۔۔۔ اسٹاپ اٹ۔۔۔۔۔ کون سی انڈرسٹینڈنگ، کیسی شادی۔۔۔۔۔ میری کسی کے ساتھ انڈرسٹینڈنگ ہوتی تو میں اسے اغوا کروں گا اور میں انڈرسٹینڈنگ ڈویلپ کروں گا امامہ جیسی لڑکی کے ساتھ۔۔۔۔۔وہ میری ٹائپ ہے؟” اس بار سالار نے بلند آواز میں کہا۔
"تو پھر وہ تم پر اس کے اغوا کا الزام کیوں لگا رہے ہیں؟”
"یہ آپ ان سے پوچھیں ، مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہیں؟” اس نے اسی ناگواری سے جواب دیا۔
"آج ہاشم مبین کہہ رہے ہیں کل کو کوئی اور آ کر کہے گا اور آپ پھر مجھ پر چلانا شروع کر دیں گے۔۔۔۔۔ میں نے آپ کو بتایا ہے میں سو رہا تھا جب پولیس آ کر باہر کھڑی ہو گئی اور اب آپ آ گئے ہیں اور آتے ہی مجھ پر۔۔۔۔۔ مجھے تو یہ تک نہیں پتا کہ وسیم کی بہن اغوا ہوئی ہے یا نہیں۔۔۔۔۔ آخر وہ لوگ مجھ پر الزام کیوں لگا رہے ہیں۔ کیا ثبوت ہے ان کے پاس کہ میں نے ان کی بیٹی کو اغوا کیا ہے اور بالفرض میں نے اغوا کیا بھی ہے تو کیا میں یہاں اپنے گھر بیٹھا رہوں گا۔ مجھے اس وقت اس لڑکی کے ساتھ ہونا چاہئیے۔” سالار تلخی سے بولتا رہا۔
"مجھے ایس پی سے تمہارے کیس کی تفصیلات کا پتا چلا ہے، پھر میں نے کراچی سے ہاشم مبین کو فون کیا، وہ مجھ سے بات کرنے پر تیار نہیں تھا۔ مجھے اس سے بات کرنے کے لئے منتیں کرنی پڑیں۔ اس نے مجھے تمہارے بارے میں بتایا ہے۔۔۔۔۔ اس کی بیٹی رات کو غائب ہوئی ہے۔۔۔۔۔ اور تم بھی رات کو گئے ہو اور صبح آئے ہو۔”
"تو پاپا! اس میں اغوا کہاں سے آ گیا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ میں رات کو کہیں نہیں گیا اور دوسری بات یہ ہے کہ اغوا کرنے کے لئے کسی کے گھر جا کر لڑکی کو زبردستی لے جانا ضروری ہے اور میں کسی کے گھر نہیں گیا۔”
"ہاشم مبین کے چوکیدار نے رات کو تمہیں جاتے اور اور صبح آتے دیکھا ہے۔”
"اس کا چوکیدار جھوٹا ہے۔” سالار نے بلند آواز میں کہا۔
"میرے چوکیدار نے تمہیں رات کو ایک لڑکی کو کار میں لے جاتے دیکھا ہے۔” سکندر نے دانت پیستے ہوئے کہا۔ سالار چند لمحے کچھ بول نہ سکا۔ سکندر یقیناً گھر آتے ہی چوکیدار سے بات کر چکے تھے۔
"وہ میری ایک فرینڈ تھی جسے میں گھر چھوڑنے گیا تھا۔” اس نے طیبہ کو دیکھتے ہوئے کہا۔
"کون ہے وہ فرینڈ؟ اس کا نام اور پتہ بتاؤ۔”
"سوری پاپا میں نہیں بتا سکتا۔It’s personal۔”
"یہاں اسلام آباد چھوڑنے گئے تھے؟”
"ہاں۔۔۔۔۔”
"تم اسے لاہور چھوڑ کر آئے ہو۔ ایس پی نے مجھے خود بتایا ہے۔ تم چار ناکوں سے گزرے ہو۔ چاروں پر تمہارا نمبر نوٹ کیا گیا ہے۔ راستے میں تم نے ایک سروس اسٹیشن پر رک کر گاڑی چیک کروائی ہے۔۔۔۔۔ اس لڑکی کے ساتھ وہاں کھانا کھایا ہے۔” سکندر نے اس سروس اسٹیشن اور ہوٹل کا نام بتاتے ہوئے کہا۔ سالار کچھ دیر سکندر کو دیکھتا رہا مگر اس نے کچھ بھی نہیں کہا۔” ایس پی نے مجھے یہ سب کچھ خود بتایا ہے۔ اس نے ابھی ہاشم مبین کو یہ سب کچھ نہیں بتایا۔ اس نے مجھ سے کہا ہے کہ میں تم سے بات کروں اور خاموشی کے ساتھ لڑکی کو واپس پہنچا دوں یا اس کے گھر والوں کو اس لڑکی کا پتا بتا دوں تاکہ یہ معاملہ خاموشی سے کسی مسئلے کے بغیر ختم ہو جائے مگر وہ کب تک ہاشم مبین کو نہیں بتائے گا۔ وہ دوستی کا لحاظ کر کے سب کچھ چھپا بھی گیا تب بھی ہاشم مبین کے اور بہت سے ذرائع ہیں۔ اسے وہاں سے پتا چل جائے گا اور پھر تمہاری پوری زندگی جیل میں گزرے گی۔”
سکندر نے اسے ڈرانے کی کوشش کی۔ وہ متاثر ہوئے بغیر انہیں دیکھتا رہا۔
"اب جھوٹ بولنا چھوڑ دو اور مجھے بتا دو کہ وہ لڑکی کہاں ہے۔”
"وہ لڑکی ریڈ لائٹ ایریا میں ہے۔” سکندر کو اس کی بات پر کرنٹ لگا۔
"واٹ۔۔۔۔۔؟”
"میں اسے وہاں سے لایا تھا، وہیں چھوڑ آیا ہوں۔”
وہ سفید چہرے کے ساتھ سالار کو دیکھتے رہے۔
"مگر وہ امامہ نہیں تھی، میں پرسوں لاہور گیا ہوا تھا وہاں سے میں رات گزارنے کے لئے اس لڑکی کو لایا تھا، آج میں اسے وہاں چھوڑ آیا۔ میرے پاس اس کا کوئی کانٹیکٹ نمبر تو نہیں ہے، مگر آپ میرے ساتھ لاہور چلیں تو میں آپ کو اس لڑکی کے پاس لے جاتا ہوں یا پتا بتا دیتا ہوں آپ خود یا پولیس کو کہیں کہ وہ اس لڑکی سے تصدیق کر لیں۔”
کمرے میں یک دم خاموشی چھا گئی۔ طیبہ اور سکندر بے یقینی سے سالار کو دیکھ رہے تھے جب کہ وہ بڑے مطمئن انداز میں کھڑکیوں سے باہر دیکھ رہا تھا۔
"مجھے یقین نہیں آتا کہ تم۔۔۔۔۔ تم اس طرح کی حرکت کر سکتے ہو۔ تم ایسی جگہ جا سکتے ہو؟” ایک لمبی خاموشی کے بعد سکندر نے کہا۔
"آئی ایم سوری پاپا! مگر میں جاتا ہوں۔۔۔۔۔ اور اس بات کا امامہ کے بھائی وسیم کو بھی پتا ہے۔ میں کئی بار ویک اینڈ پر اپنے دوستوں کے ساتھ وہاں جاتا رہا ہوں اور وسیم یہ بات جانتا ہے، آپ اس سے پوچھ لیں۔”
"ایڈریس دو اس لڑکی کا۔” وہ کچھ دیر بعد غّرائے۔
"میں اپنے کمرے سے لے کر آتا ہوں۔” اس نے اٹھتے ہوئے کہا۔
اپنے کمرے میں آ کر اس نے موبائل اٹھایا اور لاہور میں رہنے والے اپنے ایک دوست کو فون کرنے لگا۔ اسے ساری صورت ِحال بتانے کے بعد اس نے کہا۔
"اکمل! میں اپنے پاپا کو ریڈ لائٹ ایریا کے اس گھر کا پتا دے رہا ہوں جہاں ہم جاتے رہتے ہیں۔ تم وہاں کسی بھی ایسی لڑکی کو جو مجھے جانتی ہے اس کو اس بارے میں بتا دو، میں ابھی کچھ دیر تک تمہیں دوبارہ فون کرتا ہوں۔”
وہ کہتے ہوئے تیزی سے ایک چٹ پر ایک ایڈریس لکھنے لگا اور پھر اسے لے کر سکندر کے کمرے میں آ گیا۔ اس نے چٹ سکندر کے سامنے کر دی، جسے انہوں نے تقریباً چھین لیا۔ ایک نظر اس چٹ پر ڈال کر انہوں نے خشمگیں نظروں سے اسے دیکھا۔
"دفع ہو جاؤ یہاں سے۔” وہ اطمینان سے انداز میں وہاں سے آ گیا۔
اپنے کمرے میں آ کر اس نے اکمل کو دوبارہ فون کیا۔
"میں تمہیں وہاں پہنچ کر فون کرتا ہوں۔” اکمل نے اس سے کہا وہ بیڈ پر لیٹ کر اس کا انتظار کرنے لگا۔ پندرہ منٹ کے بعد اکمل نے اسے فون کیا۔
"سالار! میں نے سنعیہ کو تیار کیا ہے۔ اسے میں نے سارا معاملہ سمجھا دیا ہے۔” اکمل نے اسے بتایا وہ سنعیہ کو جانتا تھا۔
"اکمل! اب تم ایک کاغذا ور پینسل لو اور میں کچھ چیزیں لکھوا رہا ہوں اسے لکھو۔” اس نے اکمل سے کہا اور پھر اسےا پنے گھر کے بیرونی منظر اور لوکیشن کی تفصیلات لکھوانے لگا۔
"یہ کیا، میں نے دیکھا ہوا ہے تمہارا گھر۔۔۔۔۔” اکمل نے کچھ حیرانی سے اس سے پوچھا۔
"تم نے دیکھا نے سنعیہ نے تو نہیں دیکھا۔ یہ ساری تفصیلات میں سنعیہ کے لئے لکھوا رہا ہوں اگر پولیس اس کے پاس آئی تو وہ یہ ساری چیزیں اس سے پوچھے گی صرف یہ تصدیق کرنے کے لئے کہ کیا وہ واقعی میرے ساتھ یہاں اسلام آباد میں تھی۔ وہ گاڑی میں چھپ کر آئی تھی۔ اور رات کے وقت آئی تھی اس لئے اسے زیادہ تفصیل کا نہیں پتا، مگر گھر کے اندر داخل ہوتے ہوئے دائیں اور بائیں دونوں طرف لان ہے۔ میری گاڑی کا رنگ سرخ تھا۔ اسپورٹس کار اور نمبر۔۔۔۔۔” وہ اسے لکھواتا گیا۔
"ہم پولیس کے چار ناکوں سے گزرے تھے۔ اس نے سفید شلوار قمیص، سفید چادر اور سیاہ سویٹر پہنا ہوا تھا، رستے میں ہم اس نام کے سروس اسٹیشن پر بھی رکے تھے۔”سالار نے نام بتایا، سروس اسٹیشن اور ہوٹل، وہ دھند کی وجہ سے صحیح طرح نہیں دیکھ سکی۔” سالار یکے بعد دیگرے ہر چیز کی تفصیل لکھواتا گیا۔ سروس اسٹیشن پر گاڑی ٹھیک کرنے والے آدمی سے لے کر چائے بنانے والے لڑکے کے حلیے اور اس کمرے کی تفصیلات۔۔۔۔۔ انہوں نے کیا کھایا تھا، سالار اور لڑکے کے درمیان کیا گفتگو ہوئی تھی۔ اس نے چھوٹی چھوٹی تفصیلات اسے لکھوائی تھیں۔ اس نے اپنے گھر کے پورچ سے لے کر اپنے کمرے تک کے راستے اور اپنے کمرے کا تمام حلیہ بھی اسے نوٹ کروا دیا تھا۔
"سنعیہ سے کہو یہ سب کچھ رٹ لے۔” اس نے اکمل کو آخری ہدایت دی اور فون بند کر دیا۔ فون بند کر کے وہ بیڈ پر بیٹھا ابھی کچھ سوچ رہا تھا جب سکندر عثمان اچانک دروازہ کھول کر اس کے کمرے میں آئے۔
"اس لڑکی کا کیا نام ہے؟”
"سنعیہ!” سالار نے بے اختیار کہا۔ سکندر عثمان مزید کچھ کہے بغیر کمرے سے نکل گئے۔

عمیرہ احمد کے ناول پیرِ کامل سے اقتباس

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک اردو غزل از جلیل عالی