دکھ درد چھپائے رقص کیا
جذبات دبائے رقص کیا
اُس ابرو کی محرابوں سے
مہتاب چرائے رقص کیا
کچھ تارے گھولے ساغر میں
پھر جام لنڈھائے رقص کیا
خُوشبو میں لپٹے کاغذ تھے
جو رات جلائے رقص کیا
کچھ دیر تمہارے ساتھ ہنسے
پھر اشک بہائے رقص کیا
کرنوں نے تیرے ہونٹوں سے
کچھ رنگ چرائے رقص کیا
یوں نام کمایا مقتل میں
تلوار کے سائے رقص کیا
اک منظر آنکھ میں زندہ ہے
کوئی آئے جائے رقص کیا
کچھ دیر کیا موقوف سفر
اور دہر سرائے رقص کیا
بنیاد اٹھائی مسجد کی
اور مندر ڈھائے رقص کیا
کبھی ناچے تیری خواہش پر
کبھی رقص برائے رقص کیا
کچھ پنچھی کالی خواہش کے
کل رات اڑائے رقص کیا
ہم اپنے دیس کے رُسوا تھے
سو دیس پرائے رقص کیا
یوں ضبط کیا کہ ہونٹوں پر
ترا نام نہ لائے رقص کیا
یہ دنیا داری دکھلاوا
سو روپ بنائےرقص کیا
کل غیر کی محفل میں اُس نے
مرے شعر سنائے رقص کیا
افتخار شاھد