جو طوق اپنا بدلوایا گیا ہے
ہمی سے ہی وہ ڈھلوایا گیا ہے
رکے، جس جا ہمیں رکوائے رکھا
چلے، جس راہ چلوایا گیا ہے
وہ اپنوں ہی سے لگوائی گئی تھی
ہمیں جس آگ جلوایا گیا ہے
بہت کچھ ہم نے خود ٹالا ہے کل پر
بہت کچھ ہم سے ٹلوایا گیا ہے
جو کروایا گیا تھا سوچ باہر
وہ دل سے بھی نکلوایا گیا ہے
گنہ تھا جس کے بارے سوچنا بھی
ہمیں اُس پر عملوایا گیا ہے
گلی ملتی نہیں اک امن والی
دیارِ دل بھی بَلوایا گیا ہے
اور اب توجھوٹ ہی لگتا ہے سچ بھی
دروغ اتنا نگلوایا گیا ہے
کڑا ہے امتحاں تیری نگہ کا
یہ دل جیسے کچلوایا گیا ہے
جلیل عالی