صفحے پلٹ رہا ہوں میں شعر سنا رہا ہوں میں
اپنا یقین اس طرح خود کو دلا رہا ہوں میں
کھونا تھا جس کو کھو چکا رونا تھا جتنا رو چکا
خود سے مذاق کر کے اب خود کو ہنسا رہا ہوں میں
عمر گزر گئی مری ہجر کی تلخیوں میں دوست
پھر بھی کسی کو وصل کے خواب دکھا رہا ہوں میں
یہ بھی خبر نہیں مجھے کوزہ گری کے شوق میں
خود کو ہی توڑ توڑ کر کس کو بنا رہا ہوں میں
شہر بھی بس ہی جائے گا لوگ بھی آ ہی جائیں گے
چھاؤں بنانے کے لیے پیڑ اگا رہا ہوں میں
تیرا خیال آ گیا وقت وصال آ گیا
سو ترے انتظار میں گھر کو سجا رہا ہوں میں
جانے یہ کیسا خوف ہے جس کے سبب مرے ندیمؔ
یاد جسے نہیں کیا اس کو بھلا رہا ہوں میں