آنکھوں سے میری خواب کے نقشے مٹاۓ گا
دریا کا پھر وہاں سے وہ رستہ بناۓ گا
وہ جانتا ہے کوئی بھی شے میری حد نہیں
اس بار سو وہ عشق کا تیر آزماۓ گا
دل اس قدر کٹھور ہے کھا کر جگر پہ وار
کچھ صبر سا رچاۓ گا اور مسکراۓ گا
وہ سوچتا ہے میرے حسیں ہاتھ دیکھ کر
اک دن وہ ان کے واسطے گجرے بناۓ گا
کس کو ہے علم الفتوں کے اختتام کا
جو عشق سیکھ جاۓ گا وہ ہجر گاۓ گا
اؔیمان مجھ کو بجھنے تلک تھا یہی گماں
مجھ سے چراغ کو کوئی کیسے بجھاۓ گا
ایمان ندیم ملک