عاجزانہ مزاج رکھتے ہیں
ہم دلوں پر بھی راج رکھتے ہیں
سر بلندی ہو جس میں آبا کی
ایسے رسم و رواج رکھتے ہیں
مار دیتا ہے جرمِ الفت میں
ہم یہ کیسا سماج رکھتے ہیں
تذکرہ کرکے تیرا شعروں میں
ساتھ یوں تجھ کو آج رکھتے ہیں
دوسروں کو دکھا کے نیچا یاں
سر پہ عزت کا تاج رکھتے ہیں
دل زمانے سے اٹھ گیا اب تو
پھر بھی دنیا کی لاج رکھتے ہیں
عاصمہ فراز