اردو غزلیاتباقی صدیقیشعر و شاعری

مرحلہ دل کا نہ تسخیر ہوا

باقی صدیقی کی ایک اردو غزل

مرحلہ دل کا نہ تسخیر ہوا
تو کہاں آ کے عناں گیر ہوا

کام دنیا کا ہے تیر اندازی
ہم ہوئے یا کوئی نخچیر ہوا

سنگ بنیاد ہیں ہم اس گھر کا
جو کسی طرح نہ تعمیر ہوا

سفر شوق کا حاصل معلوم
راستہ پاؤں کی زنجیر ہوا

عمر بھر جس کی شکایت کی ہے
دل اسی آگ سے اکسیر ہوا

کس سے پوچھیں کہ وہ انداز نظر
کب تبسم ہوا کب تیر ہوا

کون اب داد سخن دے باقیؔ
جس نے دو شعر کہے میر ہوا

باقی صدیقی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button