صاحب کرامت
چوہدری موجو بوڑھے برگد کی گھنی چھاؤں کے نیچے کھری چارپائی پر بڑے اطمینان سے بیٹھا اپنا چموڑا پی رہا تھا۔ دھوئیں کے ہلکے ہلکے بقے اس کے منہ سے نکلتے تھے اور دوپہر کی ٹھہری ہوئی ہوا میں ہولے ہولے گم ہو جاتے تھے۔ وہ صبح سے اپنے چھوٹے سے کھیت میں ہل چلاتا رہا تھا اور اب تھک گیا تھا۔ دھوپ اس قدر تیز تھی کہ چیل بھی اپنا انڈا چھوڑ دے مگر اب وہ اطمینان سے بیٹھا اپنے چموڑے کا مزہ لے رہا تھا جو چٹکیوں میں اس کی تھکن دور کردیتا تھا۔ اس کا پسینہ خشک ہو گیا تھا۔ اس لیے ٹھہری ہوا اسے کوئی ٹھنڈک نہیں پہنچا رہی تھی مگر چموڑے کا ٹھنڈا ٹھنڈا لذیذ دھواں اس کے دل و دماغ میں ناقابل بیان سرور کی لہریں پیدا کررہا تھا۔ اب وقت ہو چکا تھا کہ گھر سے اس کی اکلوتی لڑکی جیناں روٹی لسی لے کر آجائے۔ وہ ٹھیک وقت پر پہنچ جاتی تھی۔ حالانکہ گھر میں اس کا ہاتھ بٹانے والا اور کوئی بھی نہیں تھا۔ اس کی ماں تھی جس کو دو سال ہوئے موجو نے ایک طویل جھگڑے کے بعد انتہائی غصے میں طلاق دے دی تھی۔ اس کی جوان اکلوتی بیٹی جیناں بڑی فرماں بردار لڑکی تھی۔ وہ اپنے باپ کا بہت خیال رکھتی تھی۔ گھر کا کاج جو اتنا زیادہ نہیں تھا۔ بڑی مستعدی سے کرتی تھی کہ جو خالی وقت ملے اس میں چرخہ چلائے اور پونیاں کاتے۔ یا اپنی سہیلیوں کے ساتھ جو گنتی کی تھیں ادھر ادھر کی خوش گپیوں میں گزاردے۔ چوہدری موجو کی زمین واجبی تھی مگر اس کے گزارے کے لیے کافی تھی۔ گاؤں بہت چھوٹا تھا۔ ایک دور افتادہ جگہ پر جہاں سے ریل کا گزر نہیں تھا۔ ایک کچی سڑک تھی جو اسے دورایک بڑے گاؤں کے ساتھ ملاتی تھی۔ چوہدری موجو ہر مہینے دو مرتبہ اپنی گھوڑی پر سوار ہو کر اس گاؤں میں جاتا تھا۔ جس میں دو تین دکانیں تھیں اور ضرورت کی چیزیں لے آتا تھا۔ پہلے وہ بہت خوش تھا۔ اس کو کوئی غم نہیں تھا۔ دو تین برس اس کو اس خیال نے البتہ ضرور ستایا تھا کہ اس کے کوئی نرینہ اولاد نہیں ہوتی، مگر پھر وہ یہ سوچ کر شاکر ہو گیا کہ جو اللہ کو منظو ہوتا ہے وہی ہوتا ہے۔ مگر اب جس دن سے اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے کر میکے رخصت کردیا تھا۔ اس کی زندگی سوکھا ہوا نیچہ سی بن کے رہ گئی تھی۔ ساری طراوت جیسے اس کی بیوی اپنے ساتھ لے گئی تھی۔ چوہدری موجو مذہبی آدمی تھا۔ حالانکہ اسے اپنے مذہب کے متعلق صرف دو تین چیزوں ہی کا پتہ تھا کہ خدا ایک ہے جس کی پرستش لازمی ہے۔ محمدؐ اس کے رسول ہیں۔ جن کے احکام ماننا فرض ہے اور قرآن پاک خدا کا کلام ہے جو محمدؐ پر نازل ہوا اور بس۔ نماز روزے سے وہ بے نیاز تھا۔ گاؤں بہت چھوٹا تھا جس میں کوئی مسجد نہیں تھی۔ دس پندرہ گھر تھے۔ وہ بھی ایک دوسرے سے دور دور۔ لوگ اللہ اللہ کرتے تھے۔ ان کے دل میں اس ذات پاک کا خوف تھا مگر اس سے زیادہ اور کچھ نہیں تھا۔ قریب قریب ہر گھر میں قرآن موجود تھا۔ مگر پڑھنا کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔ سب نے اسے احتراماً جزدان میں لپیٹ کر کسی اونچے طاق میں رکھ چھوڑا تھا۔ اس کی ضرورت صرف اسی وقت پیش آتی تھی۔ جب کسی سے کوئی سچی بات کہلوانی ہوتی تھی یا کسی کام کے لیے حلف اٹھانا ہوتا تھا۔ گاؤں میں مولوی کی شکل اسی وقت دکھائی دیتی تھی۔ جب کسی لڑکے یا لڑکی شادی ہوتی تھی۔ مرگ پر جنازہ وغیرہ وہ خود ہی پڑھ لیتے تھے۔ اپنی زبان میں۔ چوہدری موجو ایسے موقعوں پر زیادہ کام آتا تھا۔ اس کی زبان میں اثر تھا۔ جس انداز سے وہ مرحوم کی خوبیاں بیان کرتا تھا اور اس کی مغفرت کے لیے دعا کرتا تھا۔ وہ کچھ اسی کا حصہ تھا۔ پچھلے برس جب اس کے دوست دینو کا جوان لڑکا مر گیا تو اس کو قبر میں اتار کر اس نے بڑے موثر انداز میں یہ کہا تھا۔ ہائے، کیا شیں جوان لڑکا تھا۔ تھوک پھینکتا تھاتو بیس گز دور جاکے گرتی تھی۔ اس کی پیشاب کی دھار کا تو آس پاس کے کسی گاؤں کھیڑے میں بھی مقابلہ کرنے والا موجود نہیں تھا اور بینی پکڑنے میں تو جواب نہیں تھا اس کا۔ ہے گھسنی کا نعرہ مارنا اور دو انگلیوں سے یوں بینی کھولتا جیسے کرتے کا بٹن کھولتے ہیں۔ دینو یار، تجھ پر آج قیامت کا دن ہے۔ تو کبھی یہ صدمہ نہیں برداشت کرے گا۔ یارو اسے مر جانا چاہیے تھا۔ ایسا شیں جوان لڑکا۔ ایسا خوبصورت گبرو جوان۔ نیتی سنیاری جیسی سندر اور ہٹیلی ناری اس کو قابو کرنے کے لیے تعویذ دھاگے کراتی رہی۔ مگر بھئی مرحبا ہے دینو، تیرا لڑکا لنگوٹ کا پکا رہا۔ خدا کرے اس کو جنت میں سب سے خوبصورت حور ملے اور وہاں بھی لنگوٹ کا پکا رہے۔ اللہ میاں خوش ہو کر اس پر اپنی اور رحمتیں نازل کرے گا۔ آمین۔ ‘‘
یہ چھوٹی سی تقریر سن کر دس بیس آدمی جن میں دینو بھی شامل تھا۔ ڈھاریں مار مار کر رو پڑتے تھے۔ خود چوہدری موجو کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ مرجو نے جب اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہی تھی تو اس نے مولوی بلانے کی ضرورت نہیں سمجھی تھی۔ اس نے بڑے بوڑھوں سے سن رکھا تھا کہ تین مرتبہ طلاق، طلاق، طلاق کہہ دو تو قصہ ختم ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اس نے یہ قصہ اس طرخ ختم کیا تھا۔ مگر دوسرے ہی دن اس کو بہت افسوس ہوا تھا۔ بڑی ندامت ہوئی تھی کہ اس نے یہ کیا غلطی کی۔ میاں بیوی میں جھگڑے ہوتے ہی رہتے ہیں۔ مگر طلاق تک نوبت نہیں آتی۔ اس کو درگزر کرنا چاہیے تھا۔ پھاتاں اس کو پسند تھی۔ گو وہ اب جوان نہیں تھی، لیکن پھر بھی اس کو اس کا جسم پسند تھا۔ اس کی باتیں پسند تھیں۔ اور پھر وہ اس کی جیناں کی ماں تھی۔ مگر اب تیر کمان سے نکل چکا تھا جو واپس نہیں آسکتا تھا۔ چوہدری موجو جب بھی اس کے متعلق سوچتا تو اس کے چہیتے چموڑے کا دھواں اس کے حلق میں تلخ گھونٹ بن بن کے جانے لگتا۔ جیناں خوبصورت تھی۔ اپنی ماں کی طرح ان دو برسوں میں اس نے ایک دم بڑھنا شروع کردیا تھا اور دیکھتے دیکھتے جوان مٹیار بن گئی تھی جس کے انگ انگ سے جوانی پھوٹ پھوٹ کے نکل رہی تھی۔ چوہدری موجو کو اب اس کے ہاتھ پیلے کرنے کی فکر بھی تھی۔ یہاں پھر اس کی پھاتاں یاد آتی۔ یہ کام وہ کتنی آسان سے کرسکتی تھی۔ کھری کھاٹ پر چوہدری موجو نے اپنی نشست اور اپنا تہمد درست کرتے ہوئے چموڑے سے غیر معمولی لمبا کش لیا اور کھانسنے لگا۔ کھانسنے کے دوران میں کسی کی آواز آئی۔
’’السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ۔ ‘‘
چوہدری موجو نے پلٹ کر دیکھا تو اسے سفید کپڑوں میں ایک دراز ریش بزرگ نظر آئے۔ اس نے سلام کا جواب دیا اور سوچنے لگا کہ یہ شخص کہاں سے آگیا ہے۔ دراز ایش بزرگ کی آنکھیں بڑی بڑی اور با رعب تھیں جن میں سرمہ لگا ہوا تھا۔ لمبے لمبے پٹے تھے۔ ان اور داڑھی کے بال کھچڑی تھے۔ سفید زیادہ اور سیاہ کم۔ سر پر سفید عمامہ تھا۔ کاندھے پر ریشم کا کاڑھا ہوا بسنتی رومال۔ ہاتھ میں چاندی کی موٹھ والا موٹا عصا تھا۔ پاؤں میں لال کھال کا نرم ونازک جوتا۔ چوہدری موجو نے جب اس بزرگ کا سراپا غور سے دیکھا۔ تو اس کے دل میں فوراً ہی اس کا احترام پیدا ہو گیا۔ چارپائی پر سے جلدی جلدی اٹھ کر وہ اس سے مخاطب ہوا۔
’’آپ کہاں سے آئے؟ کب آئے؟‘‘
بزرگ کی کتری ہوئی شرعی لبوں میں مسکراہٹ پیدا ہوئی۔
’’فقیر کہاں سے آئیں گے۔ ان کا کوئی گھر نہیں ہوتا۔ ان کے آنے کا کوئی وقت مقرر نہیں۔ ان کے جانے کا کوئی وقت مقرر نہیں۔ اللہ تبارک تعالیٰ نے جدھر حکم دیا چل پڑے۔ جہاں ٹھہرنے کا حکم ہوا وہیں ٹھہر گئے۔ ‘‘
چوہدری موجو پر ان الفاظ کا بہت اثر ہوا۔ اس نے آگے بڑھ کر بزرگ کا ہاتھ بڑے احترام سے اپنے ہاتھوں میں لیا۔ چوما، آنکھوں سے لگایا۔
’’چوہدری موجو کا گھر آپ کا اپنا گھر ہے۔ ‘‘
بزرگ مسکرایا ہوا کھاٹ پر بیٹھ گیا اور اپنے چاندی کی موٹھ والے اعصا کو دونوں ہاتھوں میں تھام کر اس پر اپنا سر جھکا دیا
’’اللہ جل شانہ، کو جانے تیری کون سی ادا پسند آگئی کہ اپنے اس حقیر اور عاصی بندے کو تیرے پاس بھیج دیا۔ ‘‘
چوہدری موجو نے خوش ہو کر پوچھا۔
’’تو مولوی صاحب آپ اس کے حکم سے آئے ہیں؟‘‘
مولوی صاحب نے اپنا جھکا ہوا سر اٹھایا اور کسی قدر خشم آلود لہجے میں کہا۔
’’تو کیا ہم تیرے حکم سے آئے ہیں۔ ہم تیرے بندے ہیں یا اس کے جس کی عبادت میں ہم نے پورے چالیس برس گزار کر یہ تھوڑا بہت رتبہ حاصل کیا ہے۔ ‘‘
چوہدری موجو کانپ گیا۔ اپنے مخصوص گنوار لیکن پر خلوص انداز میں اس نے مولوی صاحب سے اپنی تقصیر معاف کرائی اور کہا۔
’’مولوی صاحب، ہم جیسے انسانوں سے جن کو نماز پڑھنی بھی نہیں آتی ایسی غلطیاں ہو جاتی ہیں۔ ہم گنہگار ہیں۔ ہمیں بخشوانا اور بخشنا آپ کا کام ہے۔ ‘‘
مولوی صاحب نے اپنی بڑی بڑی سرمہ لگی آنکھیں بند کیں اور کہا۔
’’ہم اسی لیے آئے ہیں۔ ‘‘
چوہدری موجو زمین پر بیٹھ گیا اور مولوی صاحب کے پاؤں دبانے لگا۔ اتنے میں اس کی لڑکی جیناں آگئی۔ اس نے مولوی صاحب کو دیکھا تو گھونگھٹ چھوڑ لیا۔ مولوی صاحب نے مندی آنکھوں سے پوچھا۔
’’کون ہے چوہدری موجو؟‘‘
’’میری بیٹی مولوی صاحب۔ جیناںٖ!‘‘
مولوی صاحب نے نیم وا آنکھوں سے جیناں کو دیکھا اور موجو سے کہا۔
’’ہم فقیروں سے کیا پردہ ہے۔ اس سے پوچھو۔ ‘‘
’’کوئی پردہ نہیں مولوی صاحب۔ پردہ کیسا ہو گا۔ ‘‘
پھرموجو جیناں سے مخاطب ہوا۔ ‘
’’یہ مولوی صاحب جیناں۔ اللہ کے خاص بندے۔ ان سے پردہ کیسا۔ اٹھا لے اپنا گھونگھٹ!‘‘
جیناں نے اپنا گھونگھٹ اٹھا لیا۔ مولوی صاحب نے اپنی سرمہ لگی نظریں بھر کے اس کی طرف دیکھا اور موجو سے کہا۔
’’تیری بیٹی خوبصورت ہے چوہدری موجو!‘‘
جیناں شرما گئی۔ موجو نے کہا۔
’’اپنی ماں پر ہے مولوی صاحب!‘‘
’’کہاں ہے اس کی ماں‘‘
مولوی صاحب نے ایک بار پھر جیناں کی جوانی کی طرف دیکھا۔ چوہدری موجو سٹپٹاگیا کہ جواب کیا دے۔ مولوی صاحب نے پھر پوچھا۔
’’اس کی ماں کہاں ہے چوہدری موجو۔ ‘‘
موجو نے جلدی سے کہا۔
’’مر چکی ہے جی!‘‘
مولوی صاحب کی نظریں جیناں پر گڑی تھیں۔ اس کا ردعمل بھانپ کر انھوں نے موجو سے کڑک کر کہا۔
’’تو جھوٹ بولتا ہے۔ ‘‘
موجو نے مولوی صاحب کے پاؤں پکڑ لیے اور ندامت بھری آواز میں کہا۔
’’جی ہاں۔ جی ہاں۔ میں نے جھوٹ بولا تھا۔ مجھے معاف کردیجیے۔ میں بڑا جھوٹا آدمی ہوں۔ میں نے اس کو طلاق دے دی تھی مولوی صاحب۔ ‘‘
مولوی صاحب نے ایک لمبی’ہوں‘ کی اور نظریں جیناں کی چدریا سے ہٹالیں اور موجو سے مخاطب ہوئے۔
’’تو بہت بڑا گناہگار ہے۔ کیا قصور تھا اس بے زبان کا؟‘‘
موجو ندامت میں غرق تھا۔
’’کچھ نہیں معلوم مولوی صاحب۔ معمولی سی بات تھی جو بڑھتے بڑھتے طلا ق تک پہنچ گئی۔ میں واقعی گنہگار ہوں۔ طلاق دینے کے دوسرے دن ہی میں نے سوچا تھا کہ موجو تو نے یہ کیا جھک ماری۔ پر اس وقت کیا ہو سکتا تھا۔ چڑیاں کھیت چگ چکی تھیں۔ پچھتاوے سے کیا ہوسکتا تھا مولوی صاحب۔ ‘‘
مولوی صاحب نے چاندی کی موٹھ والا عصا موجو کے کاندھے پر رکھ دیا۔
’’اللہ تبارک تعالیٰ کی ذات بہت بڑی ہے۔ وہ بڑا رحیم ہے، بڑا کریم ہے۔ وہ چاہے تو ہر بگڑی بنا سکتا ہے۔ اس کا حکم ہوا تویہ حقیر فقیر، ہی تیری نجات کے لیے کوئی راستہ ڈھونڈ نکالے گا۔ ‘‘
ممنون و تشکر چوہدری موجو مولوی صاحب کی ٹانگوں کے ساتھ لپٹ گیا اور رونے لگا۔ مولوی صاحب نے جیناں کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں سے بھی اشک رواں تھے۔
’’ادھر آلڑکی۔ ‘‘
مولوی صاحب کے لہجے میں ایسا تحکم تھا۔ جس کو رد کرنا جیناں کے لیے ناممکن تھا۔ روٹی اور لسی ایک طرف رکھ کر وہ کھاٹ کے پاس چلی گئی۔ مولوی صاحب نے اس کو بازو سے پکڑا اور کہا۔
’’بیٹھ جا۔ ‘‘
جیناں زمین پر بیٹھنے لگی تو مولوی صاحب نے اس کا بازو اوپر کھینچا۔
’’ادھر میرے پاس بیٹھ۔ ‘‘
جیناں سمٹ کر مولوی صاحب کے پاس بیٹھ گئی۔ مولوی صاحب نے اس کی کمر میں ہاتھ دے کر اس کو اپنے قریب کرلیا اور ذرا دبا کر پوچھا۔
’’کیا لائی ہے تو ہمارے کھانے کے لیے۔ ‘‘
جیناں نے ایک طرف ہٹنا چاہا مگر گرفت مضبوط تھی۔ اس کو جواب دینا پڑا۔
’’جی۔ جی روٹیاں ہیں۔ ساگ ہے اور لسی۔ ‘‘
مولوی صاحب نے جیناں کی پتلی مضبوط کمر اپنے ہاتھ سے ایک بار پھر دبائی
’’چل کھول کھانا اور ہمیں کھلا۔ ‘‘
جیناں اٹھ کر چلی گئی تو مولوی صاحب نے موجو کے کندھے سے اپنا چاندی کی موٹھ والا عصا ننھی سی ضرب کے بعد اٹھا لیا۔
’’اٹھ موجو۔ ہمارے ہاتھ دھلا۔ ‘‘
موجو فوراً اٹھا۔ پاس ہی کنواں تھا۔ پانی لایا اور مولوی صاحب کے ہاتھ بڑے مریدانہ طور پر دھلائے جیناں نے چارپائی پر کھانا رکھ دیا۔ مولوی صاحب سب کا سب کھا گئے اور جیناں کو حکم دیا کہ وہ ان کے ہاتھ دھلائے۔ جیناں عدول حکمی نہیں کرسکتی تھی۔ کیونکہ مولوی صاحب کی شکل و صورت اور ان کی گفتگو کا اندازہی کچھ ایسا تحکم بھرا تھا۔ مولوی صاحب نے ڈکار لے کر بڑے زور سے الحمدللہ کہا۔ داڑھی پر گیلا گیلا ہاتھ پھیرا۔ ایک اور ڈکار لی اور چارپائی پر لیٹ گئے اور ایک آنکھ بند کرکے دوسری آنکھ سے جیناں کی ڈھلکی ہوئی چدریا کی طرف دیکھتے رہے۔ اس نے جلدی جلدی برتن سمیٹے اور چلی گئی۔ مولوی صاحب نے آنکھ بند کی اور موجو سے کہا۔
’’چوہدری اب ہم سوئیں گے۔ ‘‘
چوہدری کچھ دیر ان کے پاؤں دابتا رہا۔ جب اس نے دیکھا کہ وہ سو گئے ہیں۔ تو ایک طرف جا کر اس نے اپلے سلگائے اور چلم میں تمباکو بھر کے بھوکے پیٹ چموڑا پینا شروع کردیا۔ مگر وہ خوش تھا۔ اس کو ایسا لگتا تھا کہ اس کی زندگی کا کوئی بہت بڑا بوجھ دورہو گیا ہے۔ اس نے دل ہی دل میں اپنے مخصوص گنوار مگر مخلص انداز میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا جس نے اپنی جناب سے مولوی صاحب کی شکل میں فرشتہ رحمت بھیج دیا۔ پہلے اس نے سوچا کہ مولوی صاحب کے پاس ہی بیٹھا رہے کہ شاید ان کو کسی خدمت کی ضرورت ہو، مگر جب دیر ہو گئی اور وہ سوتے رہے، تو وہ اٹھ کر اپنے کھیت میں چلا گیا اور اپنے کام میں مشغول ہو گیا۔ اس کو اس بات کا قطعاً خیال نہیں تھاکہ وہ بھوکا ہے۔ اس کو بلکہ اس بات کی بے حد مسرت تھی کہ اس کا کھانا مولوی صاحب نے کھایا اور اس کو اتنی بڑی سعادت ہوئی۔ شام سے پہلے پہلے جب وہ کھیت سے واپس آیا تو اس کو یہ دیکھ کر بڑا دکھ ہوا کہ مولوی صاحب موجود نہیں۔ اس نے خود کو بڑی لعنت ملامت کی کہ وہ کیوں چلا گیا۔ ان کے حضور بیٹھتا رہتا۔ شاید وہ ناراض ہو کر چلے گئے ہیں اور کوئی بددعا بھی دے گئی ہوں۔ جب چوہدری موجو نے یہ سوچا تو اس کی سادہ روح لرزگئی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اس نے ادھر ادھر مولوی صاحب کو تلاش کیا مگر وہ نہ ملے۔ گہری شام ہو گئی۔ پھر بھی ان کا کوئی سراغ نہ ملا۔ تھک ہار کر اپنے کو دل ہی دل میں کوستا اور لعنت ملامت کرتا۔ وہ گردن جھکائے گر کی طرف جارہا تھا کہ اسے دو جوان لڑکے گھبرائے ہوئے ملے۔ چوہدری موجو نے ان سے گھبراہٹ کی وجہ پوچھی تو انھوں نے پہلے تو ٹالنا چاہا، مگر پھر اصل بات بتادی کہ وہ گھرے میں دبا ہوا شراب کا گھڑا نکال کر پینے والے تھے کہ ایک نورانی صورت والے بزرگ ایک دم وہاں نمودار ہوئے اور بڑی غصب ناک نگاہوں سے ان کو دیکھ کر یہ پوچھا کہ وہ یہ کیا حرام کاری کررہے ہیں۔ جس چیز کو اللہ تبارک تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے وہ اسے پی کر اتنا بڑا گناہ کررہے ہیں جس کا کوئی کفارہ ہی نہیں ان لوگوں کو اتنی جرات نہ ہوئی کہ کچھ بولیں۔ بس سر پاؤں رکھ کے بھاگے اور یہاں آکے دم لیا۔ چوہدری موجو نے ان دونوں کو بتایا کہ وہ نورانی صورت والے واقعی اللہ کو پہنچے ہوئے بزرگ تھے۔ پھر اس نے اندیشہ ظاہر کیا کہ اب جانے اس گاؤں پر کیا قہرنازل ہو گا۔ ایک اس نے ان کو چھوڑ چلے جانے کی بُری حرکت کی، ایک انھوں نے کہ حرام شے نکال کر پی رہے تھے۔
’’اب اللہ ہی بچائے۔ اب اللہ ہی بچائے میرے بچو۔ ‘‘
یہ بڑبڑاتا چوہدری موجو گھر کی جانب روانہ ہوا۔ جیناں موجود تھی، پر اس نے اس سے کوئی بات نہ کی اور خاموش کھاٹ پر بیٹھ کر حقہ پینے لگا۔ اس کے دل و دماغ میں ایک طوفان برپا تھا۔ اس کو یقین تھا کہ اس پر اور گاؤں پر ضرور کوئی خدائی آفت آئے گی۔ شام کا کھانا تیار تھا، جیناں نے مولوی صاحب کے لیے بھی پکا رکھا تھا۔ جب اس نے اپنے باپ سے پوچھا کہ مولوی صاحب کہاں ہیں تو اس نے بڑے دکھ بھرے لہجے میں کہا۔
’’گئے۔ چلے گئے۔ ان کا ہم گنہگاروں کے ہاں کیا کام!‘‘
جیناں کو افسوس ہوا کیونکہ مولوی صاحب نے کہا تھا کہ وہ کوئی ایسا راستہ ڈھونڈنکالیں گے جس سے اس کی ماں واپس آجائے گی۔ پر وہ جا چکے تھے۔ اب وہ راستہ ڈھونڈے والا کون تھا۔ جیناں خاموشی سے پیڑھی پر بیٹھ گئی۔ کھانا ٹھنڈا ہوتا رہا۔ تھوڑی دیر کے بعد ڈیوڑھی میں آہٹ ہوئی۔ باپ بیٹی دونوں چونکے۔ موجو اٹھ کے باہر گیا اور چند لمحات میں مولوی صاحب اور وہ دونوں اندر صحن میں تھے۔ دیے کی دھندلی روشنی میں جیناں نے دیکھا کہ مولوی صاحب لڑکھڑا رہے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا مٹکا ہے۔ موجو نے ان کو سہارے دے کر چارپائی پر بٹھایا۔ مولوی صاحب نے گھڑا موجو کو دیا اور لکنت بھرے لہجے میں کہا۔
’’آج خدا نے ہمارا بہت کڑا امتحان لیا۔ تمہارے گاؤں کے دو لڑکے شراب کا گھڑا نکال کر پینے والے تھے کہ ہم پہنچ گئے۔ وہ ہمیں دیکھتے ہی بھاگ گئے۔ ہم کو بہت صدمہ ہوا کہ اتنی چھوٹی عمر اور اتنا بڑا گناہ۔ لیکن ہم نے سوچا کہ اسی عمر میں تو انسان رستے سے بھٹکتا ہے۔ چنانچہ ہم نے ان کے لیے اللہ تبارک تعالیٰ کے حضور میں گڑگڑا کر دعا مانگی کہ ان کا گناہ معاف کیا جائے۔ جواب ملا۔ جانتے ہو کیا جواب ملا؟‘‘
موجو نے لرزتے ہوئے کہا۔
’’جی نہیں!‘‘
’’جواب ملا۔ کیا تو ان کا گناہ اپنے سر لیتا ہے۔ میں نے عرض کی۔ ہاں باری تعالیٰ۔ آواز آئی، تو جا یہ سارا گھڑا شراب کا تو پی۔ ہم نے ان لڑکوں کو بخشا!‘‘
موجو ایک ایسی دنیا میں چلا گیا جو اس کے اپنے تخیل کی پیداوار تھی۔ اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔
’’تو آپ نے پی۔ ‘‘
مولوی صاحب کا لہجہ اور زیادہ لکنت بھرا ہو گیا۔
’’ہاں پی۔ پی۔ ان کا گناہ اپنے سرلینے کے لیے پی۔ رب العزت کی آنکھوں میں سرخرو ہونے کے لیے پی۔ گھڑے میں اور بھی پڑی ہے۔ یہ بھی ہمیں پینی ہے۔ رکھ دے اسے سنبھال کے اور اور دیکھ اس کی ایک بوند ادھر ادھر نہ ہو۔ ‘‘
موجو نے گھڑا اٹھا کر اندرکوٹھڑی میں رکھ دیا اور اس کے منہ پر کپڑا باندھ دیا۔ واپس صحن میں آیا تو مولوی صاحب جیناں سے اپنا سر دبوا رہے تھے اور اس سے کہہ رہے تھے۔
’’جو آدمی دوسروں کے لیے کچھ کرتا ہے، اللہ جل شانہ، اس سے بہت خوش ہوتا ہے۔ وہ اس وقت تجھ سے بھی خوش ہے۔ ہم بھی تجھ سے خوش ہیں۔ ‘‘
اور اسی خوشی میں مولوی صاحب نے جیناں کو اپنے پاس بٹھا کر اس کی پیشانی چوم لی۔ اس نے اٹھنا چاہا۔ مگر ان کی گرفت مضبوط تھی۔ مولوی صاحب نے اس کو اپنے گلے سے لگا لیا اور موجو سے کہا۔
’’چوہدری تیری بیٹی کا نصیبا جاگ اٹھا ہے۔ ‘‘
چوہدری سر تا پا ممنون و متشکر تھا۔
’’یہ سب آپ کی دعا ہے۔ آپ کی مہربانی ہے۔ ‘‘
مولوی صاحب نے جیناں کو ایک مرتبہ پھر اپنے سینے کے ساتھ بھنچا۔
’’اللہ مہربان سو کل مہربان۔ جیناں ہم تجھے ایک وظیفہ بتائیں گے۔ وہ پڑھا کرنا۔ اللہ ہمیشہ مہربان رہے گا۔ ‘‘
دوسرے دن مولوی صاحب بہت دیر سے اٹھے۔ موجو ڈر کے مارے کھیتوں پر نہ گیا۔ صحن میں ان کی چارپائی کے پاس بیٹھا رہا۔ جب وہ اٹھے تو ان کو مسواک، نہلایا دھلایا۔ اور ان کے ارشاد کے مطابق شراب کا گھڑا لا کران کے پاس رکھ دیا۔ مولوی صاحب نے کچھ پڑھا۔ گھڑے کا منہ کھول کر اس میں تین بار پھونکا اور دو تین کٹورے چڑھا گئے۔ اوپر آسمان کی طرف دیکھا۔ کچھ پڑھا اور بلند آواز میں کہا
’’ہم تیرے ہر امتحان میں پورے اتریں گے مولا۔ ‘‘
پھر وہ چوہدری سے مخاطب ہوئے
’’موجو جا۔ حکم ملا ہے ابھی جا اور اپنی بیوی کو لے آ۔ راستہ مل گیا ہے ہمیں۔ ‘‘
موجو بہت خوش ہوا۔ جلدی جلدی اس نے گھوڑی پر زین کسی اور کہا کہ وہ دوسرے روز صبح سویرے پہنچ جائے گا۔ پھر اس نے جیناں سے کہا کہ وہ مولوی صاحب کی ہر آسائش کا خیال رکھے اور خدمت گزاری میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھے۔ جیناں برتن مانجھنے میں مشغول ہو گئی۔ مولوی صاحب چارپائی پر بیٹھے اسے گھورتے اور شراب کے کٹورے پیتے رہے۔ اس کے بعد انھوں نے جیب سے موٹے موٹے دانوں والی تسبیح اٹھائی اور پھیرنا شروع کردی۔ جب جیناں کام سے فارغ ہو گئی تو انھوں نے اس سے کہا۔
’’جیناں دیکھو۔ وضو کرو۔ ‘‘
جیناں نے بڑے بھولپن سے جواب دیا۔
’’مجھے نہیں آتا مولوی جی۔ ‘‘
مولوی صاحب نے بڑے پیار سے اس کو سرزنش کی۔
’’وضو کرنا نہیں آتا۔ کیا جواب دے گی اللہ کو۔ ‘‘
یہ کہہ کر وہ اٹھے اور اس کو و ضو کرایا اور ساتھ ساتھ اس انداز سے سمجھاتے رہے کہ وہ اس کے بدن کے ایک ایک کونے کھدرے کو جھانک جھانک کر دیکھ سکیں۔ وضو کرانے کے بعد مولوی صاحب نے جا نماز مانگی۔ وہ نہ ملی تو پھر ڈانٹا، مگر اسی انداز میں۔ کھیس منگوایا اس کو اندر کی کوٹھڑی میں بچھایا اور جیناں سے کہا کہ باہر کی کنڈی لگا دے۔ جب کنڈی لگ گئی تو اس سے کہا کہ گھڑا اور کٹورا اٹھا کے اندر لے آئے۔ وہ لے آئی۔ مولوی صاحب نے آدھا کٹورا پیا اور آدھا اپنے سامنے رکھ لیا اور تسبیح پھیرنا شروع کردی جیناں ان کے پاس خاموش بیٹھی رہی۔ بہت دیر تک مولوی صاحب آنکھیں بند کیے اسی طرح وظیفہ کرتے رہے، پھر انھوں نے آنکھیں کھولیں۔ کٹورا جو آدھا بھرا تھا، اس میں تین پھونکیں ماریں اور جیناں کی طرف بڑھا دیا۔
’’پی جاؤ اسے۔ ‘‘
جیناں نے کٹورا پکڑ لیا مگر اس کے ہاتھ کانپنے لگے۔ مولوی صاحب نے بڑے جلال بھرے انداز میں اس کی طرف دیکھا۔
’’ہم کہتے ہیں، پی جاؤ۔ تمہارے سارے دلدر دور ہو جائیں گے۔ ‘‘
جیناں پی گئی، مولوی صاحب اپنی پتلی لبوں میں مسکرائے اور اس سے کہا
’’ہم پھر اپنا وظیفہ شروع کرتے ہیں۔ جب شہادت کی انگلی سے اشارہ کریں تو آدھا کٹورہ گھڑے سے نکال کر فوراً پی جانا۔ سمجھ گئیں۔ ‘‘
مولوی صاحب نے اس کو جواب کا موقعہ ہی نہ دیا اور آنکھیں بند کرکے مراقبے میں چلے گئے۔ جیناں کے منہ کا ذائقہ بے حد خراب ہو گیا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ سینے میں آگ سی لگ گئی ہے۔ وہ چاہتی تھی کہ اٹھ کر ٹھنڈا ٹھنڈا پانی پیے۔ پر وہ کیسے اٹھ سکتی تھی۔ جلن کو حلق اور سینے میں لیے دیر تک بیٹھی رہی۔ اس کے بعد ایک دم مولوی صاحب کی شہادت کی انگلی زور سے اٹھی۔ جیناں کو جیسے کسی نے ہپناٹزم کردیا تھا۔ فوراً اس نے آدھا کٹورا بھرا اور پی گئی۔ تھوکنا چاہا مگر اٹھ نہ سکی۔ مولوی صاحب اسی طرح آنکھیں بند کیے تسبیح کے دانے کھٹا کھٹ پھیرتے رہے۔ جیناں نے محسوس کیا کہ اس کا سر چکرا رہا ہے اور جیسے اس کو نیند آرہی ہے پھر اس نے نیم بے ہوشی کے عالم میں یوں محسوس کیا کہ وہ کسی بے داڑھی مونچھ والے جوان مرد کی گود میں ہے اور وہ اسے جنت دکھانے لے جارہا ہے۔ جیناں نے جب آنکھیں کھولیں تو وہ کھیس پر لیٹی تھی۔ اس نے نیم وا مخمور آنکھوں سے ادھر ادھر دیکھا۔ اور یہاں کیوں لیٹی تھی، کب لیٹی تھی کے متعلق سوچنا شروع کیا تو اسے سب کچھ دھند میں لپٹا نظر آیا۔ وہ پھر سونے لگی۔ لیکن ایک دم اٹھ بیٹھی۔ مولوی صاحب کہاں تھے؟۔ اور وہ جنت؟ کوئی بھی نہیں۔ وہ باہر صحن میں نکلی تو دیکھا کہ دن ڈھل رہا ہے اور مولوی صاحب کھرے کے پاس بیٹھے وضو کررہے ہیں۔ آہٹ سن کر انھوں نے پلٹ کر جیناں کی طرف دیکھا اور مسکرائے۔ جیناں واپس کوٹھڑی میں چلی گئی اور کھیس پر بیٹھ کر اپنی ماں کے متعلق سوچنے لگی۔ جس کو لانے اس کا باپ گیا ہوا تھا۔ پوری ایک رات باقی تھی۔ ان کی واپسی میں۔ اور سخت بھوک لگ رہی تھی۔ اس نے کچھ پکایا ریندھا نہیں تھا۔ اس کے چھوٹے سے مضطرب دماغ میں بے شمار باتیں آرہی تھیں۔ کچھ دیر کے بعد مولوی صاحب نمودار ہوئے اور یہ کہہ کرچلے گئے۔
’’مجھے تمہارے باپ کے لیے ایک وظیفہ کرنا ہے۔ ساری رات کسی قبر کے پاس بیٹھنا ہو گا۔ صبح آجاؤں گا۔ تمہارے لیے بھی دعا مانگوں گا۔ ‘‘
مولوی صاحب صبح سویرے نمودار ہوئے۔ ان کی بڑی بڑی آنکھیں جن میں سرمے کی تحریر غائب تھی بے حد سرخ تھیں۔ ان کے لہجے میں لکنت تھی اور قدموں میں لڑکھڑاہٹ۔ صحن میں آتے ہی انھوں نے مسکرا کر جیناں کی طرف دیکھا آگے بڑھ کر اس کو گلے سے لگایا۔ اس کو چوما اور چارپائی پر بیٹھ گئے۔ جیناں ایک طرف کونے میں پیڑھی پر بیٹھ گئی اور گزشتہ دھندلے واقعات کے متعلق سوچنے لگی۔ اس کو اپنے باپ کا بھی انتظار تھا۔ جس کو اس وقت تک پہنچ جانا چاہیے تھا۔ ماں سے بچھڑے ہوئے اس کو دو برس ہو چکے تھے۔ اور جنت۔ وہ جنت۔ کیسی تھی وہ جنت!!۔ کیا وہ مولوی صاحب تھے؟۔ مولوی صاحب تھوڑی دیر کے بعد اس سے مخاطب ہوئے۔
’’جیناں، ابھی تک موجو نہیں آیا۔ ‘‘
جیناں خاموش رہی۔ مولوی صاحب پھر اس سے مخاطب ہوئے۔
’’اور میں ساری رات ایک ٹوٹی پھوٹی قبر پر سرنیوڑھائے سنسنان رات میں اس کے لیے وظیفہ پڑھتا رہا۔ کب آئے گا وہ؟۔ کیا وہ لے آئے گا تمہاری ماں کو۔ ‘‘
جیناں نے صرف اس قدر کہا۔
’’جی معلوم نہیں۔ شاید آتے ہی ہوں۔ آجائیں گے۔ اماں بھی آجائے گی۔ پر ٹھیک پتا نہیں۔ ‘‘
اتنے میں آہٹ ہوئی۔ جیناں اٹھی۔ اس کی ماں نمودار ہوئی۔ وہ اسے دیکھتے ہی اس سے لپٹ گئی اور رونے لگی۔ موجو آیا تو اس نے مولوی صاحب کو بڑے ادب اور احترام کے ساتھ سلام کیا۔ پھر اس نے اپنی بیوی سے کہا۔
’’پھاتاں۔ سلام کرو مولوی صاحب کو۔ ‘‘
پھاتاں اپنی بیٹی سے الگ ہوئی۔ آنسو پونچھتے ہوئے آگے بڑھی اور مولوی صاحب کو سلام کیا۔ مولوی صاحب نے اپنی لال لال آنکھوں سے اس کو گھور کے دیکھا اورموجو سے کہا۔
’’ساری رات قبر کے پاس تمہارے لیے وظیفہ کرتا رہا۔ ابھی ابھی اٹھ کے آیا ہوں۔ اللہ نے میری سن لی ہے۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ‘‘
چوہدری موجو نے فرش پر بیٹھ کر مولوی صاحب کے پاؤں د ابنے شروع کردیے وہ اتنا ممنون و متشکر تھا کہ کچھ نہ کہہ سکا۔ البتہ بیوی سے مخاطب ہو کر اس نے آنسوؤں بھری آواز میں کہا۔
’’ادھر آ پھاتاں۔ تو ہی مولوی صاحب کا شکریہ ادا کر۔ مجھے تو نہیں آتا۔ ‘‘
پھاتاں اپنے خاوند کے پاس بیٹھ گئی۔ پر وہ صرف اتنا کہہ سکی۔
’’ہم غریب کیا ادا کرسکتے ہیں۔ ‘‘
مولوی صاحب نے غور سے پھاتاں کو دیکھا۔
’’موجو چوہدری، تم ٹھیک کہتے تھے۔ تمہاری بیوی خوبصورت ہے۔ اس عمر میں بھی جوان معلوم ہوتی ہے۔ بالکل دوسری جیناں۔ اس سے بھی اچھی۔ ہم سب ٹھیک کردیں گے پھاتاں۔ اللہ کا فضل و کرم ہو گیا ہے۔ ‘‘
میاں بیوی دونوں خاموش رہے۔ موجو مولوی صاحب کے پاؤں دباتا رہا۔ جیناں چولھا سلگانے میں مصروف ہو گئی تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد مولوی صاحب اٹھے۔ پھاتاں کے سر پر ہاتھ سے پیار کیا اور موجو سے مخاطب ہوئے۔
’’اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ جب کوئی آدمی اپنی بیوی کو طلاق دے اور پھر اس کو اپنے گھر بسانا چاہے تو اس کی سزا یہ ہے کہ پہلے وہ عورت کسی اور مرد سے شادی کرے۔ اس سے طلاق لے، پھر جائز ہے۔ ‘‘
موجو نے ہولے سے کہا۔
’’میں سن چکا ہوں مولوی صاحب۔ ‘‘
مولوی صاحب نے موجو کو اٹھایا اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
’’لیکن ہم نے خدا کے حضور گڑگڑا کر دعا مانگی کہ ایسی کڑی سزا نہ دی جائے غریب کو۔ اس سے بھول ہو گئی ہے۔ آواز آئی۔ ہم ہرروز سفارشیں کب تک سنیں گے تو اپنے لیے جو بھی مانگ ہم دینے کے لیے تیار ہیں۔ میں نے عرض کی، میرے شہنشاہ۔ بحروبر کے مالک۔ میں اپنے لیے کچھ نہیں مانگتا۔ تیرا دیا میرے پاس بہت کچھ ہے۔ موجو چوہدری کو اپنی بیوی سے محبت ہے۔ ارشاد ہوا۔ تو ہم اس کی محبت اور تیرے ایمان کا امتحان لینا چاہتے ہیں۔ ایک دن کے لیے تو اس سے نکاح کرلے۔ دوسرے دن طلاق دے کر موجو کے حوالے کردے۔ ہم تیرے لیے بس صرف یہی کرسکتے ہیں کہ تو نے چالیس برس دل سے ہماری عبادت کی ہے۔ ‘‘
موجو بہت خوش ہوا۔
’’مجھے منظور ہے مولوی صاحب۔ مجھے منظور ہے‘‘
اور پھاتاں کی طرف اس نے تمتمائی انکھوں سے دیکھا۔
’’کیوں پھاتاں؟‘‘
مگر اس نے پھاتاں کے جواب کا انتظار نہ کیا۔
’’ہم دونوں کو منظور ہے۔ ‘‘
مولوی صاحب نے آنکھیں بندکیں۔ کچھ پڑھا۔ دونوں کے پھونک ماری اور آسمان کی طرف نظریں اٹھائیں
’’اللہ تبارک تعالیٰ۔ ہم سب کو اس امتحان میں پورا اتارے۔ ‘‘
پھر وہ موجو سے مخاطب ہوا۔
’’اچھا موجو۔ میں اب چلتا ہوں۔ تم اور جیناں آج کی رات کہیں چلے جانا۔ صبح سویرے آجانا۔ ‘‘
یہ کہہ کر مولوی صاحب چلے گئے۔ جیناں اور موجو تیار تھے۔ جب شام کو مولوی صاحب واپس آئے تو انھوں نے ان سے بہت مختصر باتیں کیں۔ وہ کچھ پڑھ رہے تھے۔ آخر میں انھوں نے اشارہ کیا۔ جیناں اور موجو فوراً چلے گئے۔ مولوی صاحب نے کنڈی بند کردی اور پھاتاں سے کہا۔
’’تم آج کی رات میری بیوی ہو۔ جاؤ اندر سے بستر لاؤ اور چارپائی پر بچھاؤ۔ ہم سوئیں گے۔ ‘‘
پھاتاں نے اندر کوٹھڑی سے بستر لا کر چارپائی پر بڑے سلیقے سے لگا دیا۔ مولوی صاحب نے کہا۔
’’بی بی۔ تم بیٹھو۔ ہم ابھی آتے ہیں۔ ‘‘
یہ کہہ وہ کوٹھڑی میں چلے گئے۔ اندر دیا روشنی تھا۔ کونے میں برتنوں کے منارے کے پاس ان کا گھڑا رکھا تھا۔ انھوں نے اسے ہلا کر دیکھا۔ تھوڑی سی باقی تھی۔ گھڑے کے ساتھ ہی منہ لگا کر انھوں نے کئی بڑے بڑے گھونٹ پیے۔ کاندھے سے ریشمی پھولوں والا بسنتی رومال اتار کر مونچھیں اور ہونٹ صاف کیے اور دروازہ بھیڑ دیا۔ پھاتاں چارپائی پر بیٹھی تھی۔ کافی دیر کے بعد مولوی صاحب نکلے۔ ان کے ہاتھ میں کٹورا تھا۔ اس میں تین دفعہ پھونک کر انھوں نے پھاتاں کو پیش کیا۔
’’لو اسے پی جاؤ۔ ‘‘
پھاتاں پی گئی۔ قے آنے لگی تو مولوی صاحب نے اس کی پیٹھ تھپتھپائی اور کہا۔
’’ٹھیک ہو جاؤ گی فوراً۔ ‘‘
پھاتاں نے کوشش کی اور کسی قدر ٹھیک ہو گئی۔ مولوی صاحب لیٹ گئے۔ صبح سویرے جیناں اور موجو آئے تو انھوں نے دیکھا کہ صحن میں پھاتاں سورہی ہے مگر مولوی صاحب موجود نہیں۔ موجو نے سوچا۔ باہر گئے ہوں گے کھیتوں میں۔ اس نے پھاتاں کو جگایا۔ پھاتاں نے غوں غوں کرکے آہستہ آہستہ آنکھیں کھولیں۔ پھر بڑبڑائی۔
’’جنت۔ جنت۔ ‘‘
لیکن جب اس نے موجو کو دیکھا تو پوری آنکھیں کھول کر بستر میں بیٹھ گئی۔ موجو نے پوچھا۔
’’مولوی صاحب کہاں ہیں؟‘‘
پھاتاں ابھی تک پورے ہوش میں نہیں تھی۔
’’مولوی صاحب۔ کون مولوی صاحب۔ وہ تو۔ پتا نہیں کہاں گئے۔ یہاں نہیں ہیں؟‘‘
’’نہیں۔ ‘‘
موجو نے کہا۔
’’میں دیکھتا ہوں انھیں باہر۔ ‘‘
وہ جارہا تھا کہ اسے پھاتاں کی ہلکی سی چیخ سنائی دی۔ پلٹ کر اس نے دیکھا تکیے کے نیچے سے وہ کوئی کالی کالی چیز نکال رہی تھی۔ جب پوری نکل آئی تو اس نے کہا۔
’’یہ کیا ہے؟‘‘
موجو نے کہا۔
’’بال۔ ‘‘
پھاتاں نے بالوں کا وہ گچھا فرش پر پھینک دیا۔ موجو نے اسے اٹھا لیا اور غورسے دیکھا۔
’’داڑھی اور پٹے۔ ‘‘
جیناں پاس ہی کھڑی تھی۔ وہ بولی
’’مولوی صاحب کی داڑھی اور پٹے‘‘
پھاتاں نے وہیں چارپائی سے کہا۔
’’ہاں۔ مولوی صاحب کی داڑھی اور پٹے۔ ‘‘
موجو عجیب چکر میں پڑ گیا۔
’’اور مولوی صاحب کہاں ہیں؟‘‘
لیکن فوراً ہی اس کے سادہ اور بے لوث دماغ میں ایک خیال آیا۔
’’جیناں۔ پھاتاں، تم نہیں سمجھیں۔ وہ کوئی کرامات والے بزرگ تھے۔ ہمارا کام کرگئے اور یہ نشانی چھوڑ گئے۔ ‘‘
اس نے ان بالوں کو چوما۔ آنکھوں سے لگایا اور ان کوجیناں کے حوالے کرکے کہا۔
’’جاؤ، ان کو کسی صاف کپڑے میں لپیٹ کر بڑے صندوق میں رکھ دو۔ خدا کے حکم سے گھر میں برکت ہی برکت رہے گی۔ ‘‘
جیناں اندر کوٹھڑی میں گئی تو وہ پھاتاں کے پاس بیٹھ گیا اور بڑے پیار سے کہنے لگا۔
’’میں اب نماز پڑھنا سیکھوں گا اور اس بزرگ کے لیے دعا کیا کروں گا جس نے ہم دونوں کو پھر سے ملا دیا۔ ‘‘
پھاتاں خاموش رہی۔
سعادت حسن منٹو