- Advertisement -

عجیب دن ہیں

صدیق صائب کی ایک اردو نظم

عجیب دن ہیں

عجیب دن ہیں کہ جن دنوں میں
وصال زحمت سی بن گیا ہے
وبا نے پنجے ہیں ایسے گاڑھے
جہاں کا نقشہ بدل گیا ہے
گھروں میں دبکے ہیں لوگ سارے
نگر کا میلا اجڑ گیا ہے
قضا کا پہرہ ہے مو سموں پر
ہوا کے تیور بدل گئے ہیں
بغیر موسم کے بارشیں ہیں
بلند بے وقت کی اذانیں
غضب خدا کا ہوا ہے حاوی
بشر کا غصہ اتر گیا ہے
فصیل کعبے کے گرد اٹھی
نبی ﷺ کے در پہ قفل پڑا ہے
سبیل کوئی نہ مغفرت کی
نہ کوئی بخشش کا راستہ ہے
وبال اپنے گناہ کا آکر
سروں پہ سب کے لٹک رہا ہے
خدا کی رحمت سے ایسی دوری
فلک نے دیکھی کہاں تھی پہلے
خدا کا نائب زمیں پہ بے بس
ہوا تھا پہلے وہ خود سے بے حس
وہ اپنے جیسے بشر کے دکھ سے
جو لا تعلق سا ہو گیا تھا
تھا اس کی نظروں میں شام سارا
عیاں تھا وادی غزہ کا منظر
سلگتا کشمیر،جلتا برما
مگر وہ اپنی انا میں ڈو با
مفاد اپنا لیے تھا بیٹھا
تماشا اپنا تھا خود ہی دیکھا
تھا جلتے کٹتے سروں کو دیکھا
مہینوں قیدی گھروں کو دیکھا
کسی کے دل میں نہ لہر اٹھی
کسی کے کانوں پہ جوں نہ رینگی

بشر کی اس بے حسی پہ آخر
خدا کی غیرت پھی کھول اٹھی
سزا کی خاطر ہوا کو اس نے
دیا ہدف یہ جہان بھر میں
وہ خوف طاری قضا کا کردے
بشر کو اندھا وبا سے کردے

صدیق صائب

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک اردو غزل از ارشاد نیازی