آپ کا سلاماردو تحاریراردو کالمزیوسف صدیقی

سیاسی جماعتوں کی رسہ کشی

ایک اردو تحریر از یوسف صدیقی

سیاسی جماعتوں کی رسہ کشی: عوام کا نقصان

پاکستان کی سیاست میں اکثر یہ منظر دیکھنے کو ملتا ہے کہ مختلف سیاسی جماعتیں اقتدار کے حصول کی دوڑ میں اس قدر مصروف ہو جاتی ہیں کہ عوام کے مسائل پسِ منظر میں چلے جاتے ہیں۔ ہر روز میڈیا اور سوشل میڈیا پر سیاسی رہنما ایک دوسرے پر تنقید اور الزام تراشی کرتے ہیں، اپنی برتری کے دعوے کرتے ہیں اور مخالف جماعتوں کو نیچا دکھانے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ لیکن اصل نقصان وہ لوگ اٹھاتے ہیں جو اپنے گھروں کا چولہا جلانے، بچوں کی تعلیم کے انتظامات کرنے اور روزگار کے مواقع تلاش کرنے میں دن رات محنت کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ منظر ایک عام شہری کے لیے نہایت پریشان کن اور مایوس کن ہوتا ہے، کیونکہ وہ محسوس کرتا ہے کہ سیاست دان صرف طاقت کے کھیل میں مگن ہیں، عوامی بھلائی کسی کی ترجیح نہیں۔

سیاسی رسہ کشی کے اثرات عام آدمی کی روزمرہ زندگی پر براہِ راست مرتب ہوتے ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری، بجلی، گیس اور پانی کی قلت، اور بنیادی سہولیات کی ناقص فراہمی اس کے معمولاتِ زندگی کو مزید دشوار بنا دیتی ہیں۔ جب حکومتیں اور سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر الزام تراشی میں مصروف رہتی ہیں، تو ترقیاتی منصوبے رک جاتے ہیں، پالیسیاں ملتوی ہو جاتی ہیں اور عوامی مشکلات بدستور برقرار رہتی ہیں۔ شہری ہر روز اپنے بنیادی مسائل سے نبرد آزما رہتے ہیں، اور ایسے میں وہ حکومت اور سیاسی نظام سے مایوس ہو جاتے ہیں۔ بچوں کی تعلیم، صحت کی سہولیات، روزگار کے مواقع اور زندگی کی دیگر بنیادی ضروریات کی کمی ان کے ذہنی سکون کو بری طرح متاثر کرتی ہے۔

مزید براں، معاشی طور پر بھی سیاسی رسہ کشی کا نقصان نہایت گہرا ہے۔ غیر یقینی سیاسی حالات کی وجہ سے سرمایہ کار سرمایہ کاری سے گریز کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں کاروبار سست روی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری افراد اپنی محنت کے مطابق منافع حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ جب سرمایہ کاری رک جاتی ہے تو نہ صرف ترقی کی رفتار کم ہو جاتی ہے بلکہ روزگار کے مواقع بھی محدود ہو جاتے ہیں۔ نتیجتاً نوجوان نسل بے روزگاری کا شکار ہو جاتی ہے اور معیشت کی رفتار مزید سست پڑ جاتی ہے، جس سے ملک کے مجموعی سماجی و اقتصادی حالات متاثر ہوتے ہیں۔

سماجی سطح پر بھی سیاسی کشمکش کے اثرات نمایاں اور تشویشناک ہیں۔ لوگ اپنی روزمرہ مشکلات میں الجھے ہوئے سیاسی تنازعات سے اکتا جاتے ہیں اور ان کے دلوں میں مایوسی جنم لینے لگتی ہے۔ یہ مایوسی سماجی ہم آہنگی کو کمزور کرتی ہے۔ فرقہ وارانہ، علاقائی اور طبقاتی منافرت میں اضافہ ہوتا ہے اور معاشرتی تانے بانے میں دراڑیں پڑنے لگتی ہیں۔ عوام کے ذہنوں میں یہ احساس جڑ پکڑ لیتا ہے کہ سیاست صرف ذاتی یا جماعتی مفادات کے لیے کی جاتی ہے، عوامی خدمت اس کا مقصد نہیں۔ اس طرزِ سیاست کے نتیجے میں لوگ نہ صرف سیاسی عمل سے لاتعلق ہو جاتے ہیں بلکہ قومی یکجہتی بھی متاثر ہوتی ہے۔

سیاسی رسہ کشی کی جڑیں کئی عوامل میں پیوست ہیں۔ سب سے بڑی وجہ اقتدار کی ہوس اور ذاتی رنجشیں ہیں۔ اکثر اوقات سیاسی جماعتوں کے درمیان غیر ضروری مقابلہ بازی اور طاقت کی سیاست عوامی مفاد پر حاوی ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ، میڈیا پر غلط معلومات، افواہوں اور پروپیگنڈے کا پھیلاؤ بھی عوامی سوچ اور سیاسی ماحول کو منفی طور پر متاثر کرتا ہے۔ اگر یہ رسہ کشی اسی طرح جاری رہی تو عوام کی زندگی مزید مشکلات میں گھر جائے گی، کاروبار متاثر ہوں گے، روزگار کے مواقع کم ہوں گے اور بنیادی سہولیات کی فراہمی مزید دشوار ہو جائے گی۔

تاہم، اس صورتحال کا حل ناممکن نہیں۔ سیاسی جماعتوں کو اپنی ترجیحات پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ اختلافات کو بات چیت، مذاکرات اور مفاہمت کے ذریعے ختم کیا جا سکتا ہے۔ شفاف انتخابات، قانون کی بالادستی اور عوامی فلاح کو ترجیح دینے سے سیاسی کشمکش کے اثرات کم کیے جا سکتے ہیں۔ اگر جماعتیں ذاتی خواہشات اور جماعتی مفادات سے بالاتر ہو کر عوام کے حقیقی مسائل پر توجہ دیں تو ملک میں امن، ترقی اور استحکام ممکن ہے اور عوام کا سیاسی نظام پر اعتماد بحال ہو سکتا ہے۔

سیاسی رسہ کشی کے خاتمے کے لیے عوام کو بھی اپنی ذمہ داری سمجھنی چاہیے۔ شہریوں کو لازم ہے کہ وہ صرف پارٹی پسندیدگی یا ذاتی وابستگی کی بنیاد پر فیصلے نہ کریں بلکہ سیاسی جماعتوں کی کارکردگی، دیانت داری اور عوامی خدمت کے معیار پر غور کریں۔ عوامی شعور میں اضافہ اور تعلیم کا فروغ ہی وہ عناصر ہیں جو سیاسی ماحول کو مثبت رخ دے سکتے ہیں۔ جب عوام اپنے حقوق اور ذمہ داریوں سے آگاہ ہوں گے تو وہ سیاسی جماعتوں پر دباؤ ڈال سکیں گے کہ وہ ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر قومی خدمت کو ترجیح دیں۔

میری ذاتی رائے ہے کہ سیاسی رسہ کشی کا سب سے بڑا نقصان عام آدمی کو ہوتا ہے۔ اگر سیاست دان اپنی ذات اور جماعتی مفادات سے اوپر اٹھ کر عوام کی فلاح کو اولین ترجیح بنائیں تو ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ عوامی بھلائی، ایماندار سیاست اور شفاف حکمرانی ہی وہ راستے ہیں جو پاکستان کو مضبوط، مستحکم اور خوشحال بنا سکتے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنی رسہ کشی کو پسِ پشت ڈال کر عوامی مسائل کے حل کے لیے متحد ہوں، کیونکہ جب عوام مضبوط ہوں گے، تب ہی ملک حقیقی معنوں میں ترقی کی منازل طے کر سکے گا۔

یوسف صدیقی

یوسف صدیقی

میرا نام یوسف صدیقی ہے اور میں ایک تجربہ کار کالم نگار اور بلاگر ہوں۔ میں نے 2009 سے تحریری دنیا میں قدم رکھا اور مختلف پلیٹ فارمز پر اپنے خیالات عوام کے سامنے پیش کیے۔ میں نے روزنامہ دنیا میں مختصر کالم لکھے اور 2014 میں بہاولپور کے مقامی اخبار صادق الاخبار میں بھی مستقل لکھائی کا تجربہ حاصل کیا۔ اس کے علاوہ، میں نے ڈیجیٹل ویب سائٹ "نیا زمانہ" پر کالم شائع کیے اور موجودہ طور پر بڑی ویب سائٹ "ہم سب" پر فعال ہوں۔ میری دلچسپی کا مرکز سماجی مسائل، سیاست اور عمرانیات ہے، اور میں نوجوانوں اور معاشرتی تبدیلیوں کے موضوعات پر مؤثر اور معلوماتی تحریریں پیش کرنے کے لیے کوشاں ہوں۔ بلاگ نویسی کا تجربہ: میں تقریباً 15 سال سے مختلف پلیٹ فارمز پر لکھ رہا ہوں۔ میری تحریریں عوامی، سیاسی اور سماجی موضوعات پر مبنی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button