- Advertisement -

آلنا

ایک اردو افسانہ از اسماء حسن

شام کے سائے گہرے ہوئے تو خنکی بڑھ گئی اور چہل پہل میں کمی ہو گئی۔قدیم شہر کی تنگ و تاریک گلی کی نکڑ پر بوسیدہ حال مکان کی چھت سے بارش کا پانی ٹِپ ٹِپ برس رہا تھا ۔گلی کے بائیں جانب پتلی سی نالی غلاظت سے بھری پڑی تھی ۔ اکہرے بدن کا پچاس سالہ شخص گندگی سے بچتا بچاتا،چَھپ چَھپ کرتا ہوا سبزی فروش کی ریڑھی کو تقریبا گراتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔۔ سبزی فروشں،ریڑھی کو بارش سے بچانے کی تگ و دو میں موٹی موٹی گالیاں دینا بھول گیا۔۔بجلی کی تاریں کھمبوں سے یوں جُدا تھیں جیسے کوئی خواہش،نارسائی کی چبھن سے تنگ آ کر مسکن چھوڑ دے۔۔ چند گام دور غبارے بیچنے والا لڑکا گھر کی طرف تیز تیز قدم بڑھا رہا تھا۔۔چھریرے بدن والے نے بھاگتے بھاگتے ڈنڈے سے تین غبارے توڑے اور منظر سے غائب ہو گیا۔۔ لڑکے نے منہ بھر کر گالی دی جو بارش کے شور میں وقعت کھو بیٹھی ۔

گلی کی نکڑ پر شکستہ مکان حالتِ زار پر نوحہ کناں تھا ۔۔ بوسیدہ دروازے کی زنگ آلودہ کنڈی ہوا کے زور پر تھرتھراتی تو چوب بُرادہ اکھڑ کر صحن کی اونچی نیچی،جگہ جگہ سے اُکھڑی اینٹوں میں ضم ہو جاتا ۔۔وہی اینٹیں جوسرخ،نارنجی رنگ کی ہوتی ہیں مگر یہاں ان کی تقدیر پر کائی جم گئی تھی ۔۔ایک طرف کُنڈی ہوا کے حکم پر لرز سی جاتی تو دوسری طرف گھر میں موجود عورت کی نگاہیں بے تاب اور دل زور زورسے دھڑکنے لگتا۔۔داخلی دروازے کے ساتھ ہی ایک باتھ روم تھا جس پر ہرے کپڑے کی مدد سے اطراف میں اینٹیں رکھ کر چھت بنا دی گئی تھی۔۔

جاڑے کی یخ بستہ راتوں میں گھر کی جان کھاتی خاموشی سے خائف ہوا پیلو کا درخت صحن کے کونے میں منہ بسورے کھڑا تھا۔۔اس کی ہری بھری شاخیں کب کی بانجھ ہو چکی تھیں۔۔خزاں کو صحن میں اترے اکیس سال ہو گئے تھے ۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آلنے میں موجود تین بچے عین پیلو کے درخت کی پچھلی دیوار کے سوراخوں میں سے ایک سوراخ میں بیٹھے سارا دن چیں چیں کرتے۔دیوار میں موجود چھوٹے چھوٹے سوراخوں میں جگہ جگہ تعویذ اور گانٹھیں باندھی گئی تھیں ۔کالے،پیلے،ہرے،نیلے دھاگے جانے کس منت کو پورا کرنے کے لیے گانٹھ رکھےتھے ؟ بھلا گھروں کی درزوں میں بھی کوئی ایسا کرتا ہے؟

تینوں بچے دانہ دنکا کھانے کی لالچ میں پیٹ کے بل آگے بڑھتے تو چڑی انہیں چونچ مار کرپیچھے ہٹاتی اور باری باری ان کے منہ میں دانہ ڈالتی۔۔آلنا بڑی مہارت سے بنایا گیا تھا جس تک طوفانی بارش کی پہنچ ناممکن تھی۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بارش کا زور ٹوٹا تو گھر میں موجود عورت،نم ہوئی لکڑیوں کو جلانے کی کوشش کر نے لگی۔۔

” کتنی تیز بارش تھی اگر بھاگ کر بالن پکڑا دیتی تو اب تک کھانا بن چکا ہوتا،لکن میٹی کھیلنے سے جان چھوٹے تو ماں کا ھاتھ بٹائے”وہ منمناتے ہوئے بیٹی کو ڈانٹنے لگی اور زور زور سے لکڑیوں کو چولہے میں ٹھونستی جاتی۔ اسی اثنا میں ایک شخص تیزی سے گھر میں داخل ہوا،غباروں کو چارپائیوں کے ساتھ باندھا اورچارپائیوں کو گھسیٹ کر ورانڈے کی طرف لے گیا ۔بدن پر ڈالی چادر اتاری،سلوکے کے اندر ھاتھ ڈال کر بھیگے ہوئے دو لال نوٹ نکالے اورسُکھانے کے لیے رکھ دیئے۔۔

سردیوں کی جمی راتوں کے گُھپ اندھیرے میں کچھ بھی صاف دکھائی نہیں دے رہا تھا۔۔اندازے ہی سے اس نےگارے سے لُتھڑے پاؤں کُھرے میں لگی ٹونٹی کے نیچے رکھ کر ٹونٹی کھولی،پاؤں دھوئے اور پیڑی لے کر چولہے کے پاس بیٹھ گیا۔۔عورت نے پاس پڑے تھیلے سے چند کوئلے اٹھائے،چولہے میں پھونکے تو شعلے بھڑک اٹھے اور چہرے واضح ہونے لگے۔۔ لپکتے شعلے کبھی ایک،کبھی دوسرے نفس پر روشنی ڈالتے تو روشنی بھی انکے ملول چہرے دیکھ کر سہم جاتی اور ناگن کی طرح لہراتی ہوئی دوسری جانب مڑ جاتی۔

عورت نے روٹی پر اچار رکھ کر شوہر کو دیا۔جب وہ لکڑی کی مدد سے جلتے ہوئے کوئلوں کو ادھر ادھر کرتی تو چھوٹے چھوٹے ذرات اس کے چہرے سے مس ہوتے ہوئے برآمدے کی ٹین گارڈر سے بنی چھت پر جا ٹکراتے..

۔

بارش تھم چکی تھی مگر ٹھٹرتی رات ظلم ڈھانے لگی ۔۔شوہر نے کھانا کھایا،دیوار سے اوپلے اتار کر تسلے میں ڈالے،آگ جلائی اور چارپائی پر بیٹھ کر ھاتھ سینکنے لگا۔۔وہ ایک نظر چارپائیوں پر ڈالتا اور پھر چولہے کے پاس بیٹھی عورت کو دیکھ کر منہ نیچےکر لیتا۔۔چولہے کی آگ دھیمی ہونے لگی مگر عورت کا وجود تپنے لگا۔۔گالوں پر آنسو بہے،ایک قطرہ آگ میں گرا اور”سی سی سی”کی آواز کے ساتھ دم توڑ گیا۔۔ شوہر نے”سی”کی آواز سن لی تھی مگر جان کر بھی انجان بن گیا۔

“ماں!میرے دل میں ایک خیال آیا ہے اگر میں باہر کے ملک چلا جاؤں تو ہمارے حالات بدل سکتے ہیں؟”

اسے بڑے بیٹے کی بات یاد آئی”ہاں بدل سکتے ہیں مگر تو یہ سوچنا بھی مت۔

ماں نے بڑے سادہ جملے بولے تھے مگر سادہ جملے بے وقعت ٹھہرے، جنہوں نےجانا ہوتا ہے وہ چلے جاتے ہیں۔۔وہ چلا گیا اورماں کو یکسر بھلا بیٹھا۔

“کتنا ظالم ہے، تجھے بالکل خیال نہ آیا کہ تیرے جانے کے بعد ماں باپ اور بہن بھائی کا کیا بنے گا؟”

وہ بڑبڑائی اور پھونکنی کی مدد سے کوئلوں کو ہوا دینے لگی۔۔ٹھنڈ نے اس کے ھاتھوں کو آگ جیسا سرخ کر دیا تھا۔۔خاوند کھانا کھا چکا تو عورت نے چائے کے پانی کو جوش دیتے ہوئے چارپائیوں کو دیکھا اور چولہے کے اوپربنی لکڑی کی چھیج سے چائے کی پیالیاں اتار کر نیچے رکھ لیں۔۔وہ پیالیوں کے کناروں پر پیار سے ھاتھ پھیرتے ہوئے بچوں کے ہونٹوں کی چُسکیاں محسوس کرنےلگی تو ٹوٹی ہوئی پیالی کا کنارا شہادت کی انگلی کو لہولہان کر گیا ۔چھینٹے آگ پر گرے مگر کوئی چنگاری پیدا نہ ہوئی۔

خاوند نے آنکھیں چراتے ہوئے بیوی کو دیکھا اور پائینتی کی طرف پڑے،پیوندلگے کمبل اور کھیس ٹھیک کرنے لگا۔۔بچوں کو سردی تو نہیں لگ رہی یہ سوچ کر اس پر کپکپی طاری ہو گئی۔تسلا اٹھا کر چارپائیوں کے پاس دھرا اور ایک ٹوٹا پھوٹا میز لا کر اس کے ساتھ رکھ دیا ۔۔اسٹیل کا ایک گلاس اور پانی سے بھرا جگ میز پر رکھا اور سر سے صافہ اتار کر چوتھی چارپائی پر لیٹ گیا۔

بارش کسی نئے مسکن کی تلاش میں کب کی آگے بڑھ گئی تھی۔۔رات گہری ہوئی اور چاند تارے آسمانِ دنیا پرجلوہ گر ہونے لگے۔۔چھوٹے سے گھر میں اس کی چارپائی ورانڈے سے باہر نکل کر کھلے صحن کی طرف چلی جاتی تھی۔۔چاند کے برہنہ سینے پر دہکتے داغ دیکھے تو دل پر لگے اولاد کے زخم ستانے لگے۔۔

ایک دن شام ڈھلے گھر لوٹ رہا تھا تو منہ چھپاتے سورج اور آسمان پر چڑھتے چاند کو دیکھا تو بپھر گیا ۔ھاتھ کی ہتھیلی کو پورا کھولا اور “لخ دی لعنت” کہہ کرمٹھی بھینچ لی” کُل عالم کو روشن کرنے والے ماہتاب و آفتاب میرے کس کام کے؟میرا آنگن تو گور کی طرح خاموش اور کالا سیاہ ہے یہ کہہ کر اس نے ھاتھ میں پکڑا بیلچہ آسمان کی طرف اچھال دیا ۔لوگ اسے پاگل کہہ کر پیچھے بھاگے۔لوگوں کو کیا معلوم کہ اس کے حصے کے چاند تاروں پر تو اماوس نے پہرے بٹھا رکھے ہیں ۔

بتی بند تھی۔۔ چارپائیوں سے ہلکی ہلکی غوں غوں کی آوازیں آتیں تو وہ سوچتا “اگر بتی بند بھی رہے تو کیا فرق پڑتا ہے۔۔کون سا کسی کو ٹھوکر لگنی ہے”

گھر پر عجب وحشت طاری تھی،سنسان راتوں کی وہ وحشت جس میں ہواؤں کی سرسراہٹ بھی طوفان جیسی معلوم ہو ۔

بلب جل اٹھا تو احساس ہوا کہ بتی آگئی ہے۔عورت نے ایک نظر بلب پر ڈالتے ہوئے سوئچ بند کر دیا اور چائے کی پیالی شوہر کے آگے رکھ دی۔

” بچے شایدسو گئے ہیں۔۔آنکھ کھلے گی تو چائے پی لیں گے ۔۔یہ دونوں رات کے آخری پہر نظر چرا کر ہانڈی سے کچھ نہ کچھ کھانے کی کوشش میں رہتے ہیں۔۔کتنا سمجھاتی ہوں کہ جو کھانا ہو پہلے کھا لیا کرو مگر میری سنتا ہی کون ہے؟”

عورت قدرے اونچی آواز میں بڑبڑائی تو تھکے ماندے شوہر نے بے بسی کے عالم میں آنکھیں موند لیں۔۔آگ کی ہلکی ہلکی روشنی سُونے آنگن میں دیے کی لو جیسی تھی ۔

غبارے،گھٹن زدہ ماحول سے گھبرا کر آسمان کی طرف پرواز کر گئے۔۔عورت، ٹھوڑی گھٹنوں پر رکھے،چمٹے کی مدد سے دہکتے کوئلوں کو ادھر ادھر کرنے لگی۔۔اسے خیال آیا کہ عید پروہ نسرین کو گوٹے والا سوٹ سلوا کر دے گی بالکل ویسا جیسا بچپن میں وہ اپنی گڈی کو پہنایا کرتی تھی۔۔سرخ دوپٹہ، چوڑی دار پائجامہ اور ہری قمیض۔۔اسے یاد آیا کہ پچھلی عید پر نسرین کو ماسی کریماں کی پوتی جیسا سوٹ چاہیئے تھا تو کتنی لڑائی کی تھی؟بار بار گردن اٹھا کر ان کے گھر میں جھانکتی اور زمین پرپیر مار کر کہتی کہ ماں مجھے ہوبہو ویسا جوڑا چاہیئے ۔۔

تب اس کے پاس پیسے نہیں تھے۔اتنی دیر میں نسرین اٹھی اور آنکھیں ملتی ہوئی چولہے کے پاس آن بیٹھی۔۔

“دیکھ اماں،میری اچھی اماں اس بارعید پر مجھے لال جوڑا لے دے گی ناں؟یہ لمبا ااااااااادوپٹہ پیروں تک اور ساتھ پازیب چھن چھن چھنا چھن”یہ کہتے ہوئے اٹھ کر وہ ناچنے لگی”اور ہاں سرخ،ہری چوڑیاں بھی”وہ چولہے کے اوپر گرنے والی تھی کہ ماں نے زور سے بازو پر چمٹا مارتے ہوئے پیچھے ہٹایا۔

” اٹھارہ سال کی ہو گئی ہے اور ابھی تک تیری حرکتیں بچوں والی ہیں۔۔کون شادی کرے گا تجھ سے؟ “ہائے اماں کر ہی لے گاکوئی۔۔ ایک شہزادہ گھوڑی پر آئے گا اور مجھے لے جائے گا “عورت کی آنکھوں میں بجلی کوند گئی اور وہ بیٹی کو دلہن کے روپ میں دیکھنے لگی۔۔ماں نے گلے میں حمائل بیٹی کے بازو چوم لیے۔۔

باپ نے یہ منظر دیکھا تو دھیمی سی مسکان لیے سانس اندر کی طرف کھینچ لی۔

“جا۔ بھائی کو بھی اٹھا لے۔ساری ساری رات جاگوں،دو گھڑی سکون نہیں لینے دیتے “

وہ بولتی جارہی تھی۔۔چھوٹے بیٹے نے اس کے ھاتھوں کو اپنے ھاتھ میں لیا ۔۔

وہ ناراض سا منہ بنائے ہانڈی میں سے سالن نکالنے لگی۔جب ماں کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیلی تو دونوں کی ہنسی چھوٹ گئی۔۔ماں کی آنکھوں میں آنسو اُمڈ آئے۔۔

” کیا تجھے بھائی یاد آرہا ہے؟”بیٹے نے ماں کی گردن میں بازو ڈالے پوچھا تو عورت کا من چاہا کہ زمین و آسمان میں کوئی نیا رستہ بن جائے یا پھر رحمت کا فرشتہ ، جن، پری،دروازہ کھول کر اسے ایسی دنیا میں بھیج دے جو سراب نہ ہو۔۔

رات سرک رہی تھی۔۔بچے اپنے اپنے بستر میں جا گھسے۔۔اس نے پھونکنی دوبارہ اٹھائی اور بچوں کو سردی نہ لگے اس لیے آگ تیز کرنے لگی۔

“آجا!دو گھڑی سو جا کملیے”

شوہر نے گہری سوچ میں گم بیوی کو جگانا چاہا مگر وہ بے سُدھ،ھاتھ سینکتی لمحوں کی قید میں جکڑی بیٹھی تھی۔۔وہی لمحے جو اس کے دماغ کی شریانوں میں گھس کر جانےکون سا منتر پھونک رہے تھے کہ جیسے تخت بلقیس اسے بازار مصر لے جائے گا جہاں اس کا کھویا ہوا بیٹا مل جائے گا یا چارپائی پر لیٹے،غربت میں پسے ناتواں وجود موسی کے کہنے پر من و سلوی سے نواز دیے جائیں گے اور ۔۔۔اور عیسی،دست مبارک کی کرامت دکھا کرمسیحا بن جائے گا۔۔کیا ایسا ہو پائے گا؟”

اسی سوچ میں غلطاں تھی کہ اسے یاد آیا بڑے بیٹے کو کرکٹ کھیلنے کا بہت شوق تھا ۔وہ گلی کے لڑکوں سے روز لڑتا اور گھر آکر چھوٹے بہن بھائیوں کو خوب مارتا۔۔

“بھاگو ۔۔ بھاگ جاؤ مردودو ۔۔میرے آؤٹ ہونے پر تالیاں کیوں بجائیں؟”وہ چھوٹے بہن بھائی کے کان پر ایک دو تین تھپڑ لگاتا چلا جاتا۔

ماں اس کا ھاتھ پکڑ لیتی۔۔جیسے وہ اس کا ھاتھ پکڑتی تھی اس نے دہکتا کوئلہ اٹھا لیا تھا۔”سی سی”کی آواز پر شوہر نے گردن موڑتے ہوئے دوبارہ دیکھا ۔وہ بھی بے بس تھا،قسمت کے پھیر کو روک سکتا تھا نہ ہی ماں کے دل کو بدلنے کی التجا کرسکتا تھا ۔کچھ دیر اسے دیکھتا رہا اور پھر کروٹ لے کر سو گیا۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چیں چیں کرتی آوازوں میں نمایاں کمی آگئی اور چڑی کی بھاگ دوڑ میں تیزی۔۔وہ روز محنت کرتی مگر آلنے میں پڑے گم صم بچے سوائے چھوٹا سا منہ کھولنے کے کوئی حرکت نہ کرتے۔۔ چڑی کی پھڑپڑاہٹ میں اضافہ ہوتا چلا جارہا تھا۔تینوں بچے ہلکی ہلکی سانسیں لے رہے تھے۔۔بچوں کی سانسیں تھمنے سے پہلے ماں کا دم نکل گیا۔۔بچے بدنصیب تھے جو اڑان بھر کر آخری بار ماں کا منہ بھی نہ چوم سکے کہ قدرت نے انہیں اس صلاحیت سے محروم رکھا تھا۔۔وہ پیلو کے درخت سے گری اور اس کے نیچے بنے مٹی کے گول دائرے میں ہمیشہ کے لیے سو گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات گھٹ کر چاند کی پہلی تاریخ جتنی رہ گئی۔۔سردی سے عورت پر کپکپاہٹ طاری ہوئی ۔پژمردہ آنکھیں کبھی بند ہوتیں کبھی کھلتیں۔ شعلوں نے ہار مان لی۔۔تاریکی اور خاموشی دونوں خوف کھا گئے۔

“ماں۔۔۔ماں مجھے چوڑیاں چاہیئں۔۔۔دیکھ ماں میری مہندی مت بھولنا۔۔اماں بازار جائے تو میرا بلا لے آنا اور کرکٹ کا سوٹ بھی۔۔۔تیسرے کی فرمائش پر وہ کانوں پر ھاتھ رکھ کر انہیں کوسنے لگتی۔۔دیکھ اماں تو ان دونوں کا خیال رکھتی ہے، میں کب سے کہہ رہا ہوں مجھے سائیکل لے دے۔۔۔۔ابا سے سفارش کر دے ناں”

الفاظ خلط ملط ہونے لگے..اکیس سالہ صبر دھمال ڈالنے لگا تو سینے میں جکڑن محسوس ہوئی..عورت نے ایک نظر آلنے پر ڈالی،دوسری چارپائیوں پر اور پیڑی گھسیٹ کر دیوار کے ساتھ ٹیک لگا لی۔۔تڑکا ہونے کو تھا۔۔شوہر اٹھا تو بیوی کو اسی حالت میں پا کر اس کے پاس آن بیٹھا۔ڈھارس دینے کے لیے کندھے پر ھاتھ رکھا تو کندھا لڑھک گیا۔۔

ماں کے عالمِ تمثال سے بے خبر تین ذہنی،جسمانی مفلوج وجود چارپائیوں پر بے سُدھ پڑے تھے مگر پیلو کے درخت پر آئی خزاں اور سیلن زدہ دیواریں چیخ اٹھیں تھیں

اسماء حسن

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک اردو افسانہ از قاضی عبد الستار