خامشی اپنی سُخن آثار کرنے کے لیے
میں جلاتا ہوں دِیے اظہار کرنے کے لیے
اس قدر عُجلت میں رہتا ہوں کہ میرے ہاتھ میں
وقت بچتا ہی نہیں بے کار کرنے کے لیے
پہلے بے مقصد خلا کو گُھورتے تھے شش جِہات
پھر مجھے آنکھیں ملیں دو چار کرنے کے لیے
بادبان_خواب کی بخئیہ گری کرتے رہے
نیند کا منہ زور دریا پار کرنے کے لیے
مجھ کو بے منزل مسافر جانتے ہیں رِہ نورد
چل رہا ہوں راستہ ہموار کرنے کے لیے
سن رہا ہوں پست قد گھر کے بڑوں کا فیصلہ
گفتگو ہے صحن میں دیوار کرنے کے لیے
سعد ضؔیغم