پائل کبھی پہنے کبھی کنگن اسے کہنا
لے آئے محبت میں نیا پن اسے کہنا
میکش کبھی آنکھوں کے بھروسے نہیں رہتے
شبنم کبھی بھرتی نہیں برتن اسے کہنا
اک پل سے زیادہ نہیں دنیا کی مسہری
اک شب سے زیادہ نہیں دلہن اسے کہنا
گھر بار بھلا دیتی ہے دریا کی محبت
کشتی میں گزار آیا ہوں جیون اسے کہنا
رہ رہ کے دہک اٹھتی ہے یہ آتش ِ وحشت
دیوانے ہیں صحراؤں کا ایندھن اسے کہنا
اس حبس میں ورنہ تو ہوا تک نہیں آتی
یہ تو ہے دریچوں کا بڑا پن اسے کہنا
کچھ لوگ کبھی لوٹ کے گاؤں نہیں آتے
کچھ لوگ بھلا دیتے ہیں بچپن اسے کہنا
تہذیب حافی