کربِ آگہی
پھر وہی آواز وہی انداز
جیسے ابھی کوئی کہے گا ، تم میری روشنی ہو
وہی آواز
جو دل میں اترتی ہے یا سانسوں کو روکتی ہے
وہی آواز
جس نے محبت سے نفرت کرنا سکھایا
جس نے باور کرایا کہ جسم کی تو کوئی حقیقت ہی نہیں
آدمی سے آدمی کا رشتہ کبھی بھی بے معانی ہوسکتاہے
تب کسی بیتے ہوئے بکھرے لمحے میں دی گئی آواز ڈوب جاتی ہے
مگر اب کی بار آواز سے آواز تک کے سفر نے جو نام پکارا
تو معلوم ہوا
کہ من میں کہیں ٹوٹی ہوئی چوڑی کا ٹکڑا رہ گیا تھا
جو اب اُس آواز کی لے پہ بار بار چھُبتاہے
انجلاء ہمیش