ماں
بڑا محروم موسم ہے تمہاری یاد کا اے ماں
نجانے کس نگر کو چھوڑ کر چل دی ہو مجھ کو ماں!
شفق چہروں میں اکثر ڈھونڈتی رہتی ہوں ، میں تم کو
کسی کا ہاتھ سر پہ ہو ،تو لگتا ہے تم آئی ہو
کوئی تو ہو ، جو پوچھے ،کیوں ترے اندر اداسی ہے
مرے دل کے گھروندے کی صراحی کتنی پیاسی ہے
مجھے جادوئی لگتی ہیں تمہاری، قربتیں اب تو
مری یادوں میں رہتی ہیں تمہاری شفقتیں اب تو
کبھی لگتا ہے ،خوشبو کی طرح مجھ سے لپٹتی ہو
کبھی لگتا ہے یوں، ماتھے پہ بوسے ثبت کر تی ہو
کوئی لہجہ، ترے جیسا، مرے من میں اتر جائے
کوئی آواز، میری تشنگی کی گود ،بھر جائے
کوئی ایسے دعائیں دے کہ جیسے تان لہرائے
کسی کی آنکھ میں ، آنسو لرزتے ہوں ، مری خاطر
مجھے پردیس بھی بھیجے ، لڑے بھی وہ مری خاطر
مگر جب لوٹتی ہوں ساری یادیں لے کے آنچل میں
تو سایہ تک نہیں ملتا کسی گنجان بادل میں
کوئی لوری نہیں سنتی ہوں میں اب دل کی ہلچل میں
تمہاری فرقتوں کا درد بھر لیتی ہوں کاجل میں
کہیں سے بھی دعاؤں کی نہیں آتی مجھے خوشبو
مری خاطر کسی کی آنکھ میں، اترے نہیں آنسو
محبت پاش نظروں سے مجھے تم بھی تکا کرتیں
مدرز ڈے پر کسی تحفے کی مجھ سے آرزو کرتیں
سجا کر طشت میں چاندی کے تم کو ناشتہ دیتی
بہت سے پھول گلدانوں میں،لا کر میں سجا دیتی
کوئی موہوم سا بھی سلسلہ، باقی کہاں باہم
کہ اب برسیں مرے نیناں تمہاری دید کو چھم چھم
دلاؤں ایک ٹوٹے دل سے چاہت کا یقیں کیسے
مری ماں آسمانوں سے تجھے لاؤں یہاں کیسے
نجانے کون سی دنیا میں جا کے بس گئی ہو ماں
بڑا محروم موسم ہے تمہاری یاد کا،
اے ماں۔۔۔!!