ایسا تو یہاں کچھ بھی نہیں حد نظر تک
ہم کو تو پہنچنا تھا کسی خواب نگر تک
اب پاؤں نہیں راہ میں دل تھکنے لگا ہے
لیکن ہمیں چلنا تو ہے انجام سفر تک
ہم شور بھی سنتے ہیں سماعت سے بہت کم
آواز بھی جاتی ہے تو بس حد نظر تک
ممکن ہے میں اب صبر کا یہ پیڑ گرا دوں
جب ہاتھ پہنچتا ہی نہیں شاخ ثمر تک
ہم اپنے ہی موسم سے پرکھتے ہیں جہاں کو
ماحول کا لیتے ہی نہیں کوئی اثر تک
میں اپنے ہی اندر کی طرف چیخ رہا ہوں
اب دیکھیے جاتی ہے یہ آواز کدھر تک
نعیم سمیر