علامہ اقبالؒ : خودی، نوجوان اور فکری بیداری کی تجلی
نو نومبر وہ مبارک دن ہے جس نے انسانیت کو ایک ایسے مفکر اور شاعر سے معمور کیا، جس نے روحِ فرد اور ملت دونوں کی فکری بیداری کے لیے نہایت ژرف اور عمیق پیغام چھوڑا۔ علامہ اقبالؒ کی زندگی اور فکر ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ہر دور کا انسان اپنی معرفتِ نفس اور مقصدیتِ حیات کی جھلک دیکھ سکتا ہے۔ آج جب ہم ان کے فلسفہ پر غور کرتے ہیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نظریات محض تاریخی حوالوں تک محدود نہیں بلکہ عصرِ حاضر اور آنے والی نسلوں کے لیے رہنمائی کی لازوال مشعل ہیں۔
شاعر مشرق، علامہ اقبالؒ کے نزدیک انسان کی سب سے عظیم کامیابی اپنی ذات کے بنیادی جوہر کی پہچان میں مضمر ہے۔ وہ خودی کو صرف غرور یا انا کی صورت میں نہیں دیکھتے، بلکہ اسے انسان کی نفسیاتی اور روحانی طاقت، عزتِ نفس اور ہدفیت کا لازمی عنصر قرار دیتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ کی نظر میں، جو شخص اپنی خودی کے حقیقی جوہر سے واقف ہوتا ہے، وہ اپنی ذات تک محدود نہیں رہتا بلکہ اپنے اعمال کے ذریعے قوم اور امت دونوں کے لیے شعاعِ امید بن جاتا ہے۔ ان کی شاعری میں یہ تصورات بارہا جلوہ گر ہوتے ہیں، مثلاً: "خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے، خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے۔” یہ محض ایک شعری اظہار نہیں بلکہ عملی زندگی کے لیے رہنمائی اور فلسفیانہ درس ہے۔
حکیم الامت، علامہ اقبالؒ نے نوجوانوں کی تربیت کو امت کی توانائی اور مستقبل کی بنیاد کے طور پر دیکھا۔ ان کے نزدیک نوجوان کی فکری اور اخلاقی تربیت، اس کی بصیرت اور جذبہ، قوم کی تقدیر کے معمار ہیں۔ انہوں نے نوجوانوں کو علم و دانش، ہمت و استقلال اور اپنے مقصد کی طرف غیر متزلزل قدم بڑھانے کی تلقین کی۔ علامہ اقبالؒ چاہتے تھے کہ نوجوان اپنی نفسی قوتوں کو پہچانیں، ہر قسم کے خوف و ہراس سے آزاد ہوں، اور اپنی منزل کی جانب بلاخوف و خطر بڑھیں۔ ان کے نزدیک اگر نوجوان مسلسل محنت اور جذبے کے ساتھ آگے بڑھیں تو وہ نہ صرف اپنی ذات کی تقدیر بدل سکتے ہیں بلکہ پوری امت کے لیے مشعلِ راہ بن سکتے ہیں۔
فلسفی و مفکر، علامہ اقبالؒ نے مذہب کو صرف عبادت یا رسم و رواج کی حد تک محدود نہیں سمجھا بلکہ اسے انسان کی اخلاقی، فکری اور عملی تربیت کا جامع ذریعہ قرار دیا۔
ان کے نزدیک دین وہ متعالیٰ ضابطہ ہے جو انسان کو سماجی برائیوں سے محفوظ رکھتا، انصاف، مساوات اور انسانی اقدار کی پاسداری کرتا اور فرد کو روحانی بلندی عطا کرتا ہے۔ اسی فکری بنیاد پر انہوں نے بین المذاہب ہم آہنگی اور معاشرتی بھائی چارے کی تلقین کی تاکہ انسانیت میں محبت، تعاون اور ہم آہنگی کا شعور عام ہو۔ علامہ اقبالؒ چاہتے تھے کہ ہر انسان اپنے اعمال میں دین کی روشنی پیدا کرے، اور دوسروں کے ایمان و عقائد کا احترام کر کے معاشرت میں امن قائم رکھے۔
علامہ اقبالؒ کی فلسفیانہ فکر میں فرد اور امت دونوں کی ترقی کی ہم اہنگی واضح ہے۔ انہوں نے انسان کو فکری آزادی، مقصدیت اور خوداعتمادی کے محور پر روشنی ڈالنے کی دعوت دی۔ ان کے نزدیک زندگی کی کامیابی صرف مادی مفادات یا دنیاوی مقاصد کے حصول میں نہیں بلکہ روحانی، اخلاقی اور فکری کمال تک پہنچنے میں مضمر ہے۔ یہی سبب ہے کہ ان کی تعلیمات آج بھی نوجوانوں اور دانشوروں کے لیے مشعل راہ ہیں اور ہر نسل کے انسان کو اپنی صلاحیتوں اور حدود کو پہچان کر معاشرتی اور اخلاقی بلندی کے لیے سرگرم عمل رہنے کی ترغیب دیتی ہیں۔
علامہ اقبالؒ ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ حقیقی ترقی و کامیابی علم کے حصول سے ہی نہیں بلکہ معرفتِ نفس، مقصدیتِ حیات اور اخلاقی شعور کے امتزاج سے حاصل ہوتی ہے۔ انہوں نے یہ باور کرایا کہ انسان اگر اپنے اندر خودی کی روشنی پیدا کر لے، تو نہ صرف اپنے حالات پر حاکم ہوتا ہے بلکہ اپنی ذات اور امت کی تقدیر کو بھی بدل سکتا ہے۔ علامہ اقبالؒ کی شاعری اور فلسفہ ہر فرد کے لیے مشعل راہ ہیں، جو انسان کو اپنی ذات کی پہچان، نوجوانی کے جوش و جذبے اور دین کی اخلاقی روشنی کے ذریعے معاشرت میں امن اور روشن خیالی پھیلانے کی ترغیب دیتے ہیں۔
علامہ اقبالؒ کی زندگی اور تعلیمات ہر انسان کے لیے ایک لازوال مشعل ہیں جو فکری بیداری، خودی کی پہچان، مقصدیت اور انسانی ترقی کی راہ دکھاتی ہیں۔ ان کا پیغام آج بھی ہر دور کے انسان کے لیے قابلِ تقلید ہے، اور ہر فرد کو دعوت دیتا ہے کہ وہ اپنے اندر مضمر قوتوں کو پہچانے، خوابوں کی تکمیل کے لیے محنت کرے اور معاشرت میں فکری و اخلاقی روشنی قائم کرے۔
یوسف صدیقی






