آپ کا سلاماردو تحاریراردو کالمزاسلامی گوشہ

من و سلوی کیا ہے ؟

از محمد یوسف میاں برکاتی

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب

میں نے اپنی کئی تحریروں میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ انسان کو اچھی صحبت سے فائدہ اور بری صحبت سے ہمیشہ نقصان ہوتا ہے اسی طرح اللہ کے نیک اور مقرب لوگوں کی صحبت سے ان کے وسیلے سے اور ان سے نسبت قائم کرکے انسان ہمیشہ فائدے میں رہا ہے ” من و سلوی ” کا نام تو آپ لوگوں نے سن رکھا ہوگا اس کا بنیادی موضوع رزق حلال یے یہ بنی اسرائیل کی قوم کو اللہ تعالیٰ کے مقرب اور محبوب نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے توسط سے ملنے والی اللہ تعالیٰ کی ایک بڑی نعمت تھی اور آپ لوگوں کو یہ معلوم ہوگا کہ اس کا ذکر قرآن مجید فرقان حمید کی سورہ البقرہ میں بڑی تفصیل کے ساتھ آیا ہے قرآن مجید کی اور بھی کئی سورہ میں اس کا ذکر موجود ہے اب یہ من و سلوی کیا ہے ؟

میرے واجب الاحترام پڑھنے والو

قرآن مجید کی سورہ البقرہ کی آیت 57 میں ارشاد باری تعالی ہے کہ
وَ ظَلَّلْنَا عَلَیْكُمُ الْغَمَامَ وَ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمُ الْمَنَّ وَ السَّلْوٰىؕ-كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْؕ-وَ مَا ظَلَمُوْنَا وَ لٰـكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ(57)

ترجمعہ کنزالایمان ::
اور ہم نے ابر کو تمہارا سائبان کیا اور تم پرمن اورسلوی اتارا کھاؤ ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں اور انہوں نے کچھ ہمارا نہ بگاڑا ہاں اپنی ہی جانوں کا بگاڑ کرتے تھے۔
دراصل جب فرعون دریائے نِیل میں غَرْق ہوگیا تو اللہ عَزّوجَلّ نے بنی اسرائیل کو حکم فرمایا کہ ’’قومِ عَمالِقہ‘‘ سے جنگ کر کے ’’ملکِ شام‘‘کو آزاد کروائو چونکہ  یہ قوم نہایت ظالِم  اور جنگ کی ماہِر تھی، اس لئےاُن چھ لاکھ بنی اِسرائیلیوں نے جنگ سے اِنکار کردیا۔ تب اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کی اِس نافرمانی کی یہ سزا دی کہ وہ 40 سال تک 27 میل کے رقبے پر مشتمل ایک میدان میں بھٹکتے رہے، یہ لوگ سامان اُٹھا کر سارا دن چلنے کے بعد رات میں کسی جگہ ٹھہر جاتےاور جب صبْح ہوتی تو وہیں موجود ہوتے جہاں سے چلے تھے۔ اِس جگہ کو ’’میدانِ تِیْہ‘‘  (یعنی بھٹکتے پھرنے کی جگہ) کہا جاتا ہے حضرتِ  سیدنا موسیٰ عَلیْہ السّلام بھی اِسی میدان میں  تشریف فرماں تھے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے پیارے نبی کی دعا کے وسیلے سے ان نافرمانوں پر ایسی جگہ پر بھی کیا کیا عنایتیں فرمائیں یعنی کھانے میں ہفتہ کا دن چھوڑ کر روزانہ آسمان سے دو کھانے یعنی ” من” اور
” سلوی” اترتے ہفتہ کا دن ان کے لئے ایک بڑے دن کی حیثیت رکھتا تھا وہ اس دن رات عبادات کرتے تھے اس کے علاوہ ” کوہ طور ” کا ایک سفید پتھر ان کے پاس تھا جب بھی پانی کی ضرورت ہوتی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی ” جنتی لاٹھی ” اس پر مارتے تو بنی اسرائیل کے 12 قبیلوں کے لئے 12 چشمے جاری ہو جاتے سخت دھوپ سے بچنے کے لئے ایک بڑا سا بادل ان پر پورا دن سایہ کرتا اندھیری رات میں ایک نورانی ستون بیچ میدان میں اترتا جس کی روشنی میں یہ لوگ کام کرتے ان بال کبھی نہیں بڑھتے تھے جبکہ ناخنوں میں بھی اضافہ نہ ہوتا ان کے کپڑے نہ کبھی پھٹتے اور نہ کبھی میلے ہوتے تھے پیدا ہونے والے ہر بچے کے جسم پر قدرتی طور لباس ہوتا جو ان کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ بڑا ہوتا رہتا کھانے میں ” من” شبنمی شریں گوند کی طرح ایک چیز تھی، جو درختوں کے پتوں پر بکثرت جم جاتی جس کو یہ لوگ جمع کرلیتے جبکہ ” سلوی” دوسری چیز تھی یعنی بٹیر جو کثرت سے آتیں جنکو یہ لوگ پکڑ لیتے اور خوشگوار غذا کے طور پر استعمال کرتے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ’’مَنّ‘‘ ایک میٹھی چیز تھی جو فَجْر کے وَقْت سے سورج نکلنے تک ہر شخص کے لئے تقریبًا 4 کلو اُترتی تھی، جب بنی اِسرائیل یہ میٹھی چیز کھا کھا کر اُکتاگئے تو اُنہوں نے آپ عَلیْہ السّلام کی بارگاہ میں شِکایت کی، جس کے بعد اُن کے لئے ’’سَلْوٰی‘‘ اُتارا گیا، جو ایک بُھنا ہوا چھوٹاپرندہ تھا۔ ’’مَنّ ‘‘و ’’سَلْوٰی‘‘ قبض کرتا تھا نہ دَسْت لاتا تھا، رنگ، خوشبو اور ذائقے میں بے مثال تھا، ہر طبیعت ومِزاج کو مُوافِق آتا تھا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کا حکم تھا کہ جو کھانا تمہیں روز ملتا ہے وہ اسی طرح روز ملتا رہے گا لہذہ اس کھانے کو بچانے کی ضرورت نہیں روز کا کھانا روز ختم کرنا ہوگا لیکن ان لوگوں کو آپ علیہ السلام کی بات پر یقین نہ تھا اور وہ سوچنے لگے کہ اگر کسی دن یہ کھانا آسمان سے نہ اترا تو ہم تو بھوکے مرجائیں گے لہذہ آپ علیہ السلام کی نافرمانی کرتے ہوئے انہوں نےکھانے کو ذخیرہ کرنا شروع کردیا اور ان کی اس نافرمانی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوگیا لہذہ جو کھانا وہ ذخیرہ کرتے وہ خراب ہوجاتا سڑ جاتا اور اللہ تعالی کی طرف سے آسمان سے نازل ہونے والی نعمت یعنی ” من و سلوی” بھی اترنا بند ہوگئی
(ماخوذ از عجائب القراٰن،ص24۔31۔33)۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں صحیح البخاری کی ایک حدیث کے مطابق سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ ” اگر بنی اسرائیل نہ ہوتے تو نہ کبھی کھانا خراب ہوتا اور نہ ہی کبھی گوشت سڑتا ” یعنی ہمارے یہاں اکثر کھنا خراب ہوجاتا ہے اور گوشت جیسی چیز سر بھی جاتی ہے تو اس کی ابتدا وہاں سے ہی ہوئی اس سے پہلے نہ کھانا کبھی خراب ہوتا تھا اور نہ ہی سڑتا تھا اس پورے واقعہ کو جب ہم قرآن کی تفسیر میں جاکر پڑھتے ہیں یا سنتے ہیں تو ہمیں جو باتیں واضح ہوتی ہیں وہ یہ کہ اگر ہم اللہ تعالیٰ کے کسی بھی مقرب اور بندے کا وسیلہ اپنے رب سے مانگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اپنے اس بندے کے صدقہ وطفیل ہماری نہ صرف پریشانی کو دور کرتا ہے بلکہ اس کی برکت سے ہمیں نعمتوں سے سرفراز بھی فرماتا ہے اب چاہے وہ بنی اسرائیل کے اس نافرمان قوم کی طرح ہی کیوں نہ ہو کیونکہ یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر جو جو نعمتیں اتری وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی برکت سے تھی جب یہ لوگ یہ کھانا کھا کھا کر تھک گئے تو انہوں نے زمینی رزق کا مطالبہ کردیا یعنی ایک طرح کا کھانا کھانے کی بجائے اب وہ طرح طرح کے مختلف کھانے کھانا چاہتے تھے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آگ ہم بڑے غور سے اس واقعہ کو پڑھتے ہیں اور سمجھتے ہیں تو ایک بات بڑی واضح طور پر نظر آتی ہے چونکہ یہ ” من و سلوی” ایک طرح کا رزق حلال تھا لہذہ ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اس ” من و سلوی ” کا ہمارے رزق حلال سے بڑا گہرا تعلق ہے ان کے لئے وہ ایک
” پاکیزہ کھانا تھا ” اور ہمارا رزق حلال بھی سادہ رزق ہے دونوں کا حصول بہت آسان ہے مگر بنی اسرائیل کا من و سلوی ہر انحصار اس وقت اور ہمارا رزق حلال پر جینا آج کے معاشرے میں مشکل نظر آتا ہے وہ بنی اسرائیل کی سوچ تھی اور یہ ہماری سوچ ہے وہ ” من و سلوی ” سے ناخوش تھے اور اس کی مذاق بھی اڑاتے تھے یعنی ناشکری کرتے تھے جبکہ ہمیں رزق حلال پسند نہیں اور یہاں لوگ اسے پسند نہیں کرتے انہیں زمین سے اگنے والے انواع و اقسام کے رزق کی خواہش تھی جبکہ ہمیں شارٹ کٹ کے ذریعے بہت سارا پیسہ چاہیے وہ بھی کم وقت میں بنی اسرائیل کی قوم کہتی تھی کہ موسی کا رب کنجوس ہے (نعوذباللہ) کیونکہ اس کے ” من و سلوی ” کے علاوہ کچھ بھی نہیں جبکہ ہمارے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ رزق حلال میں ہمارے لئے برکت نہیں جب تک ہم دوسرے ذرایع استعمال نہ کریں بنی اسرائیل کی اللہ کی ناشکری کے سبب مغضوب ہوئی اور ہم تباہی اور بربادی کی طرف گامزن ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یقیناً ہم مغضوب ہونا نہیں چاہتے بنی اسرائیل کے ساتھ اس ” من و سلوی” کے معاملے میں نظر آنے والی یہ مماثلت انتہائی افسوس ناک ہے ، شرمناک ہے یا ہولناک اس بات کا فیصلہ ہم سب اپنی اپنی جگہ رہ کر بخوبی کرسکتے ہیں بس فرق یہ ہے کہ بنی اسرائیل کی قوم حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم تھی اور ہم لوگ حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے امتی جس کی وجہ سے ہم پر اجتمائی عذاب نہ ہوا اور نہ ہی ہوگا لیکن ہمیں رب تعالیٰ کچھ نہ کچھ جھٹکوں سے سمجھانے اور سنبھلنے کے لئے خبردار کرتا رہتا ہے اور بچنے کی تلقین بھی کرتا رہتا ہے اور یہ سب سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے امتی ہونے کے سبب ہوتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں تفسیر ابن کثیر میں ” من و سلوی ” کے بارے میں کچھ یوں تحریر ہے کہ من درختوں پر اترتا تھا وہ ایک گوند کی قسم کا حلوہ تھا جو صبح صبح وہ لوگ توڑ کر اپنی ضرورت کے مطابق کھالیا کرتے تھے کچھ لوگوں نے اسے شبنم کی وضع کا کہا یہ دودھ سے زیادہ سفید جبکہ شہد سے زیادہ میٹھا تھا یہ ہر روز صبح صادق سے نکل کر طلوع آفتاب تک اترتا رہتا پورے دن کے استعمال کے حساب سے بنی اسرائیل اس کو جمع کرلیتے جبکہ اگر بچانے کی کوشش کرتے تو وہ خراب ہوجاتا ربیع بن انس
کہتے ہیں کہ یہ پانی میں ملا کر پیا بھی جاتا تھا اور ایسے ہی روکھا کھایا بھی جاتا تھا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ” سلوی” کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایک پرندہ ہے جو چڑیا سے کچھ بڑا سرخی مائل ہوتا ہے جیسے بٹیر جب جنوبی ہوائوں میں تیزی ہوتی تو یہ اڑ کر یہاں آجاتے تھے بنی اسرائیل انہیں پکڑ کر ذبح کرتے اور اپنی ضرورت کے مطابق کھاتے اور اگر بچانے کی کوشش کرتے تو وہ سڑ جاتا جمع کے دن دو دن کا کھانا جمع کرلیتے کیونکہ ہفتہ کا دن ان کے عبادت کا دن تھا اور اس دن شکار کرنے کی ممانعت ہوتی تھی ایک روایت کے مطابق یہ پرندے یعنی بٹیر باقاعدہ پکے ہوئے اترتے تھے جو اپنی ضرورت کے مطابق کھایا جاتا تھا یہ ساری نعمتیں بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کہنے پر عطا کیں جو ان کی کئے رزق حلال تھا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں قرآن مجید میں موجود تمام واقعات میں آنے والی امتوں کے لئے کوئی نہ کوئی پیغام اور اہم ہدایات پوشیدہ ہوتی ہیں شرط یہ ہے کہ قرآن مجید کو اس کے معنی اور تفاسیر کے ساتھ مطالعہ کیا جائے اس میں موجود اللہ تعالیٰ کے دئیے گئے احکامات کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کی جائے میدان تیہ میں وقوع پزیر ہونے والے بنی اسرائیل کے اس واقعہ میں بھی ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے جیسے اللہ والوں سے مدد مانگنا اور ان کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا نزول ہونا جبکہ زندگی میں تھوڑا ہی سہی لیکن رزق حلال کا حصول زیادہ اور حرام چیزوں سے بچنا اللہ اور اس کے مقرب بندوں کے حکم کی پیروی کرنا اور اللہ تعالی کی فرمانبرداری کرنا اس رب کی نافرمانی کے سبب ملنے والی سزا سے سبق حاصل کرنا وغیرہ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں مصیبت اور پریشانی میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے رہنا اور اس کا دامن اپنے ہاتھ سے کبھی نہ چھوڑنا ہمارے انبیاء علیہم السلام ، صحابہ کرام علیہم الرضوان ،تابعی بزرگ ، اولیاء کرام اور بزرگان دین کا معمول رہا ہے رزق حلال کمانا اور رزق حلال کھانا بھی اللہ تعالیٰ کے ان مقرب بندوں کے معمولات میں شامل تھے ہر حال میں صبر کرنے اور ہر نعمت پر اپنے رب کا شکر ادا کرنا سیکھ لیجئے جو اس رب نے اپنی رحمت سے عطا کیا ہے اس پر اس کا شکر ادا کرنا اور جو نہ مل سکا اسے اللہ تعالی کی مصلحت اور مرضی سمجھ کر چپ رہنا اور یہ سوچنا کہ نہ ملنے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لئے بھلائی کا ہونا اور جتنی کوشش ، محنت ، بھاگ دوڑ اور جستجو کرنی ہے وہ صرف رزق حلال کے لئے کرنی ہے اگر یہ سارے کام صدق دل سے کرکے باقی سب کچھ اپنے رب تعالیٰ پر چھوڑ دیا جائے تو پھر یہ دنیاوی زندگی بڑی آرام دہ اور پُرسکون ہو جائے گی اور آخرت میں بھی ہماری صرف نجات ہی ہو گی ان شاءاللہ ۔اللہ سے دعا ہے کہ اللہ کریم ہمیں اپنے اور اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے صرف رزق حلال کے حصول میں ہماری رہنمائی فرمائے دنیا اور آخرت کی وہ تمام نعمتیں ہمیں عطا فرمائے جو ہمارے لئے بہتر ہوں اور ان چیزوں سے ہمیں دور رکھے جس میں اس کی مصلحت کے تحت ہمارے لئے کوئی فائدہ نہیں صبر اور شکر کی دولت سے ہمیں مالامال کردے آمین آمین بجاالنبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ۔

محمد یوسف میاں برکاتی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

Back to top button