آپ کا سلاماردو غزلیاترشید حسرتشعر و شاعری

بے دم سا ترا لے کے میں احسان پڑا ہوں

ایک اردو غزل از رشید حسرت

بے دم سا (ترا لے کے میں احسان) پڑا ہوں
بے جان (بڑا سہہ کے میں اپمان) پڑا ہوں

تقدیر صحیفے نے ہدف مجھ کو بنایا
بے نام کبھی تھا ابھی بے نان پڑا ہوں

جو جتنا اٹھا پائے کوئی ٹوک نہیں ہے
ہوں مالِ غنیمت، کوئی سامان پڑا ہوں

کیوں آ کے کوئی دشت کو سیراب کرے گا؟
تنہائی میں بے آب بیانان پڑا ہوں

جو ساتھ چلے برق روی لے اڑی ہے
ششدر سا ہوں دو راہے حیران پڑا ہوں

جادو کی چھڑی کب تھی مرے پاس، گھماتا
ہونا تھا یہ انجام سو بے جان بڑا ہوں

حسرتؔ ہے مجھے گھر میں بڑی قدر و فضیلت
جیسے ہو کسی کونے میں گلدان، پڑا ہوں

رشِید حسرتؔ

۱۵ مئی ۲۰۲۵، شب ۰۱ بج کر تیرہ منٹ پر غزل مکمل کی گئی۔

رشید حسرت

رشید حسرت نے 1981 سے باقاعدہ شاعری کا آغاز کیا۔ ان کی شاعری اخبارات، ادبی رسائل اور کل پاکستان و کل پاک و ہند مشاعروں میں شائع اور پیش ہوتی رہی۔ پی ٹی وی کوئٹہ کے مشاعروں میں ان کی شرکت ان کی تخلیقی شناخت کا آغاز تھی، مگر بعد میں انہوں نے اجارہ داریوں اور غیر منصفانہ رویّوں سے تنگ آ کر اس نظام سے علیحدگی اختیار کی۔ ان کے پانچ شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ سب کے سب اپنی ذاتی جیب سے، جو ان کے خلوص اور ادب سے والہانہ لگاؤ کی علامت ہیں۔ رشید حسرت اس طبقے کے نمائندہ شاعر ہیں جنہوں نے ادب کو کاروبار نہیں بلکہ عبادت سمجھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button