رات بارہ بجےکےقریب میٹنگ سےجب وہ گھرآئےتو اُنھوں نےشاکرہ کو بےچینی سےڈرائنگ روم میں ٹہلتا ہوا پایا ۔ اُس کی حالت دیکھ کر اُن کا دِل دھک سےرہ گیا اور ذہن میں ہزاروں طرح کےوسوسےسر اُٹھانےلگے۔ شاکرہ کی بےچینی سےاُنھوں نےاندازہ لگایا تھا کہ کچھ نہ کچھ ہوا ہےجس کی وجہ سےشاکرہ اِتنی بےچین ہے۔
وہ کمرےمیں داخل ہوتےتو شاکرہ نےسر اُٹھا کر اُن کو دیکھا‘ اُس کےہونٹوں پر ایک پھیکی سی مسکراہٹ اُبھری اور پھر اُس نےاپنا سر جھکا لیا ۔
جیسےوہ بہت کچھ اُن سےچھپانا چاہتی ہو ۔ اگر نظریں مل گئیں تو اُسےڈر ہےکہ وہ اُس کی آنکھوں سےسب کچھ پڑھ لیں گے۔
” کیا بات ہے‘ تم ابھی تک سوئی نہیں ؟ “ اُنھوں نےشاکرہ سےپوچھا ۔
” نہیں ‘ نیند نہیں آرہی ہے۔“ شاکرہ نےجواب دیا ۔
”سب ٹھیک تو ہے؟ “ اُنھوں نےاپنےدِل پر جبر کرکےپوچھا ۔
” عادل کی حالت بگڑتی جارہی ہی۔ “ شاکرہ نےایک ایک لفظ کو چبا کر کہا ۔ ”مسلسل دو گھنٹےسےچیخ چیخ کر اُس نےسارےبنگلےکو سر پر اُٹھا لیا تھا ۔ پڑوس کےبنگلوں تک اُس کی چیخیں جارہی تھیں اور وہ لوگ بھی انکوائری کےلئےآرہےتھے۔ کمرےکی ہر چیز کو اُس نےتہس نہس کردیا ہے۔ مجبوراً ڈاکٹر کو بلا کر اُسےنیند کا انجکشن دینا پڑا ‘ لیکن ڈاکٹر کہتا ہےاِس انجکشن سےمضبوط سےمضبوط آدمی دس گھنٹوں تک سویا رہتا ہے‘ لیکن عادل کی جو حالت ہے‘ وہ جس اسٹیج میں ہے‘مجھےڈر ہےکہ دو گھنٹےبعد ہی اِس انجکشن کا اثر ختم ہوجائےگا اور اِس کی حالت پھر اُسی طرح سےہوجائےگی ۔ میرا مشورہ ہےکہ اب اس پر اور زیادہ جبر نہ کیا جائے۔ وہ جو ڈوز لیتا ہےاسےدےدیا جائےاسی سےوہ نارمل ہوسکتا ہےایسی حالت میں زیادہ دِنوں تک رہنےسےاُس کی جان کو خطرہ پیدا ہوسکتا ہی“
شاکرہ کی باتیں سن کر اُن کا دِل ڈوبنےلگا ۔ اُنھوں نےشاکرہ کو کوئی جواب نہیں دیا اور بےاِختیار عادل کےکمرےکی طرف بڑھ گئے۔
عادل پلنگ پر بےخبر سورہا تھا ۔
اُس کی اور کمرےکی حالت دیکھ کر وہ کانپ اُٹھے۔
کمرےمیں کوئی بھی چیز ٹھکانےپر نہیں تھی ۔ ہر چیز بکھری یا ٹوٹی ہوئی تھی ۔ عادل کےسر کےبال نچےہوئےتھےاُس کےچہرےاور جسم پر کئی مقام پر زخموں کےنشانات تھے۔
اُنھیں پتہ تھا جنون کےعالم میں عادل نےاپنےآپ کو ہی زخمی کیا ہوگا ۔ ایسی حالت میں خود کو اذیّت پہنچانےسےہی اُسےسکون ملتا ہے۔
زیادہ دیر وہ اور عادل کو دیکھ نہیں سکےاور تیزی سےکمرےکےباہر آگئے۔ شاکرہ کےضبط کا باندھ ٹوٹ گیا تھا ۔ اچانک وہ پھوٹ پھوٹ کر رونےلگی ۔ اُس نےاپنےدونوں ہاتھوں سےاپنا چہرہ چھپا لیا تھا ۔
” خداکےلئےاب عادل پر اور کوئی جبر مت کیجئے۔ وہ جس حالت میں جیتا ہےاُسےاُسی حالت میں زندہ رہنےدیجئے۔ کم سےکم وہ ہماری آنکھوں کےسامنےتو رہےگا ۔ ورنہ ایسی حالت میں وہ ایک دِن مرجائےگا ۔ اگر اُسےکچھ ہوگیا تو میرا کیا ہوگا ؟ میری ایک ہی تو اولاد ہے۔ یہ ہماری زمین ، جائداد ، دھن ، دولت سب عادل ہی کا تو ہے۔ وہ اکیلا ہی اِن سب کا وارث ہے‘ جب وہی نہیں ہوگا تو پھر اِن چیزوں کا کیا فائدہ ؟ آپ نےکس کےلئےیہ سب کمایا ہے‘ عادل کےلئےہی نا ؟ پھر عادل کی زندگی کےدُشمن کیوں بن رہےہیں ، وہ جو چاہتا ہےاُسےدےدیجئے۔ “
” تم مجھےعادل کی زندگی کا دُشمن کہہ رہی ہو ؟ “
شاکرہ کی بات سن کر اُن کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
” عادل میری اکلوتی اولاد ہے۔ یہ سب کچھ میں نےاُسی کےلئےتو کمایا ہے۔مجھ سےاپنی اولاد کا پل پل مرنا دیکھا نہیں جاتا ۔ اُس کی پل پل موت میرےلئےاِتنی بڑی سزا ہےجسےمیںبیان نہیں کرسکتا ۔ مجھ سےاِس کی تڑپ دیکھی نہیںجاتی اور بس اِسی لئےاپنےآپ پر جبر کرتا ہوں ‘ باپ ہوں نا۔سوچتا ہوں وہ اسی طرح تِل تِل مرنےکےبجائےایک بار مر جائےتو اسےبھی اس عذاب سےنجات مل جائےاورہم بھی صبر کرلیں گے۔ “
” آپ ایسا کیوں سوچتےہیں ؟ خدا ہمارےبچےکو شفا دےگا ۔ “
اُن کی بات سن کر شاکرہ تڑپ اُٹھی ۔
” اگر خدا ہمارےبچےکو کوئی بیماری دیتاتو اُس کی ذات سےہمیں شفا یابی کی اُمید ہوتی ۔ لیکن یہ روگ تو ہمارےبیٹےنےخود پالا ہےاور میں سمجھتا ہوں ‘ اِس کا ذمہ دار ہےتمہارا بےجا لا ڈ و پیار اور میری کاروباری مصروفیات
میرےکاروبار نےمجھےاِتنا وقت نہیں دیا کہ میں اپنےکاروبار کےساتھ ساتھ اپنی توجہ اپنےبیٹےپر بھی دےسکوں اور تمہارےلئےتو وہ تمہاری اکلوتی اولاد تھی ۔ اُس کی ہر جائز ، ناجائز فرمائش تمہارےسر آنکھوں پر تھی ۔ بس یہی زہر تھا جو اُس کی شریانوں میں بہتا گیا اور اُس کےوجود کا ایک حصّہ بن گیا ۔ “
شاکرہ نےکوئی جواب نہیں دیا وہ سسکتی رہی ۔
اُنھوں نےاندازہ لگالیا تھا عادل کی کیا حالت ہوگی ۔
ڈوز کا وقت پورا ہوگیا تھا اور اُسےاس کی سخت ضرورت تھی ۔
وہ ٹال رہےتھے‘چاہ رہےتھےکہ عادل خود میں قوتِ اِرادی پیدا کرےاور وہ اس نشےکی گرفت سےباہر نکلنےکی کوشش کرے۔
دو دِن سےعادل اُن کےسامنےگڑگڑا رہا تھا ۔
”ڈیڈی ! مجھےپیسےچاہیے، مجھےپانچ ہزار روپیوں کی سخت ضرورت ہے۔ پلیز مجھےپانچ ہزار روپےدےدیجئے، میں آپ سےوعدہ کرتا ہوں ، میں مہینہ بھر آپ سےپیسہ نہیں مانگوں گا ۔ “
لیکن اُنھوں نےپیسہ نہیں دیا ۔
اِس بار اُنھوں نےاِس بات کا بھی خاص خیال رکھا تھا کہ عادل کےپاس کوئی قیمتی چیز نہ رہے، جسےفروخت کرکےوہ پانچ ہزار روپےحاصل کرلےاور اُس سےاپنی من چاہی مراد حاصل کرلے۔
اُنھوں نےشاکرہ کو بھی سخت تاکید دےرکھی تھی ۔
” خبردار ! اگر تم نےاُسےپیسےدئےتو ۔ اگر مجھےپتہ چلا کہ تم نےاُسےپیسےدئےتو میں تمہیں گھر میں نہیں رکھوں گا ۔ “
وہ دیکھنا چاہتےتھےکہ عادل اِس زہر کےبنا کتنےدِنوں تک رہ سکتا ہے۔
لیکن ایک دِن میں ہی عادل کی وہ حالت ہوگئی تھی کہ اُسےدیکھ کروہ خود بھی گھبرا گئےتھے۔
اُنھوں نےڈاکٹر کو فون کرکےاِس سلسلےمیں گفتگو کی ۔
” باقر صاحب ! آپ کی کوشش بےکار ہے، عادل آخری حدوں کو پار کرچکا ہے۔ اب وہ زہر ہی اُسےزندہ رکھےگا ۔ آپ اپنےبیٹےکی زندگی چاہتےہیں تو اسےوہ زہر دےدیجئے۔ اُس کی زندگی بڑھ جائےگی۔ آپ جتنےدِنوں تک اُسےاس زہر سےدُور رکھیں گے‘ اُس کی زندگی کم سےکم ہوتی جائےگی ۔ “
” ڈاکٹر ! قیمتی سےقیمتی نشہ آور شراب ، گرد ، چرس ، افیم اور اسمیک ’ کیا کسی سےبھی کام نہیں چل پائےگا ؟ “
” باقر صاحب ! ناگ کےزہر میں جو نشہ ہوتا ہےوہ ایک ہزار شراب کی بوتلوں میں بھی نہیں ہوتا۔ اور جو شخص ناگ کےزہر کےنشےکا عادی ہو آپ اُسےشراب کی بوتل سےبہلانےکی کوشش کررہےہیں ؟ آپ کی یہ کوشش بےکار ہےباقر صاحب ! اپنےبیٹےکی زندگی سےمت کھیلئے۔ اگر آپ اُسےزندہ دیکھنا چاہتےہیں تو اُسےزہر دیجئے زہر ناگ کا زہر ! “
عادل کےلئےاُنھوں نےدُنیا کےبڑےبڑےڈاکٹروں سےرابطہ قائم کیا تھا ۔
لیکن اُنھیں ہر طرف مایوسی ہی ملی تھی ۔ ایک دو ڈاکٹروں نےدِلاسہ دیا تھا مگر اِس بات کی اُمید نہیں دِلائی تھی کہ عادل اچھا ہوجائےگا۔
اپنےکمرےمیں آنےکےبعد وہ کمرےمیں ٹہلنےلگے۔
نیند اُن کی آنکھوں سےکوسوں دُور تھی ۔ شاکرہ بستر پر لیٹی تھی ، نیند اُس کی آنکھوں میں بھی نہیں تھی ۔
اُنھیں پتا تھا سوکر کوئی فائدہ نہیں ۔
تھوڑی دیر بعد ہی اُنھیں اُٹھنا پڑےگا ۔
نیند سےجاگنےکےبعد عادل وہ ہنگامہ مچائےگا کہ سارا محلہ جاگ جائےگا ۔
سب کچھ کیسےہوگیا۔ اب سوچتےہیں تو کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا۔ڈاکٹروں کاکہنا ہےکہ عادل کو ٢١ ، ٥١ سال کی عمر سےنشہ کی لت ہے۔
وہ باقاعدگی سےاسکول اور کالج جاتا تھا ۔ دِن ، دِن بھر گھر سےغائب رہتا تھا اور رات دیر سےگھر آتا تھا ، ماں پوچھتی تو بتادیتا تھا کہ اس دوست کےساتھ تھا یا اُس دوست کےساتھ تھا ۔ شاکرہ عادل کی یہ آوارگیاں اُن سےچھپاتی رہتی تھی ۔
عادل کو خرچ کےلئےوہ بھی پیسےدیتےتھےاور شاکرہ بھی ۔بس ان ہی پیسوں کی وجہ سےوہ غلط صحبت میں پڑ گیا ۔
پہلےدوستوں نےاُسےبیئر پلائی پھر وہسکی ۔
پھر اسےچرس ، افیون ، گانجا ، اسمیک اور گرد کا چسکہ لگایا ۔ ایل ۔ ایس ۔ ڈی اور دُوسری نشہ آور چیزوں کےٹیکےوہ لینےلگا ۔
اور انھیں اِس کا پتہ ہی نہیں چل سکا ۔
اسکول میں کبھی فیل ہوتا تو کبھی ان کےرسوخ ، وسیلےسےپاس ہوجاتا ۔
کالج میں بھی یہی حال تھا ۔ اُنھوں نےاُسےکوئی ٹیکنیکل یا بڑےکورس میں داخل نہیں کیا تھا ۔
وہ اُس کی ذہنی سطح سےاچھی طرح واقف تھے۔
اِن کا خیال تھا اگر عادل گریجویشن بھی کرلےاور اُن کا کاروبار اگر سنبھال نہ سکےتو کم از کم اس میں اُن کاہاتھ ہی بٹائےتو کافی ہے۔ اُنھوں نےاُسےاچھےکالج میں داخل کیاتھا ۔
لیکن اس کی کارکردگی مایوس کن ہی رہی ۔ ایک ہی کلاس میں دو دو تین تین سالوں کا قیام اس کا معمول بن گیا ۔
جب وہ اُس کےبارےمیں اپنےدوستوں سےبات کرتےتو دوست اُسےتسلّی دیتےتھے۔
” بچوں میں جب تک ذمہ داری کا احساس نہ ہو وہ دِل سےکوئی کام نہیں کرپاتےہیں ۔ ہمارےبچوں کو پتہ ہےکہ پڑھنےکےبعد کچھ کرکےہی وہ اپنا اور ہمارا پیٹ بھر پائیں گے۔ اِس لئےوہ پڑھائی میں دھیان لگاتےہیں ۔ عادل کےساتھ ایسا کچھ نہیں ہے، اُسےپتہ ہےکہ اُس کےباپ نےاُس کےلئےاتنا کمایا ہےکہ اُس کی سات پشتیں بھی بیٹھ کر کھائیں گی ۔ اس لئےلاپرواہ ہوگیاہے۔پڑھائی میں دھیان نہیں دیتا ۔ کاروبار میں لگادو سب ٹھیک ہوجائےگا ۔
لیکن اُنھیں عادل کو کاروبار میں لگانےکی نوبت نہیں آسکی ۔
اِس دوران اُنھیں پتا چلا کہ عادل ڈرگس لیتا ہےاور نشےکا عادی ہوگیا ہے۔
کئی بار نشےکی وجہ سےیا نشہ نہ ملنےکی وجہ سےاس کی حالت خراب ہوئی ۔
ڈاکٹروں کو بتایا گیا ۔ کئی بار اسےاسپتال میں داخل کیا گیا تھا ۔ لیکن ڈاکٹروں نےصاف جواب دےدیا تھا ۔
” عادل نشےکی آخری حد پار کرچکا ہے‘ اُس سےنشہ چھڑانا بہت مشکل ہے۔ اب اگر یہ کوشش کی گئی تو اُس کی زندگی کو خطرہ پیداہوسکتا ہے۔
ایک دوبار مہنگےاسپتالوں میں رکھ کر عادل کےنشےکی لت چھڑانےکی کوشش کی گئی ۔
جب تک وہ اسپتال میں رہا ،نشےسےدُور رہا ‘ لیکن گھر آتےہی سب کی نظریں بچاکر آخر نشےکےاڈّےپر وہ پہنچ ہی گیا اور سارےکئےکرائےپر پانی پھیر گیا ۔
وہ بڑی اُلجھن میں تھے۔
عادل پر توجہ دیتےتو کاروبار بدنظمی کا شکار ہوتا ۔
کاروبار پر توجہ دیتےتو عادل کی حالت بگڑتی جاتی تھی ۔
شاکرہ کو تو وہ بالکل خاطر میں نہیں لاتا تھا ۔ کئی بار وہ اُس پر ہاتھ اُٹھا کر جانوروں کی طرح مار چکا تھا ۔ یہ بات شاکرہ نےاُن سےچھپائی تھی ۔ نشےمیں اُسےکچھ ہوش نہیں رہتا تھا ۔ کہ سامنےاُس کی ماں ہےیا باپ ہے۔ اور نشہ نہ ملنےپر بھی وہ پاگل ساہوجاتا تھا ۔
شاکرہ سےوہ نشہ کےلئےپیسہ لیا کرتا تھا ۔شاکرہ بھی ترس کھاکر اُس کو پیسےدےدیتی تھی ۔ کم سےکم نشےمیں تو وہ سکون سےرہے، لیکن آخر وہ نشےکی آخری حد کو پہونچ گیا ۔
نشہ حاصل کرنےکےلئےوہ اپنےآپ کو ناگ سےڈسوانےلگا ۔
ناگ سےڈسوانےکےبعد ایک ماہ تک وہ بالکل نارمل رہتا ۔ ناگ کےزہر کا نشہ ایک ماہ تک اُسےمسرور رکھتا ہےلیکن زہر کا اثر ختم ہوتےہی اُس کی حالت پاگلوں سی ہونےلگتی اور جب تک وہ اپنےآپ کو ناگ سےڈسوا نہیں لیتا اُسےسکون نہیں ملتا تھا ۔
اور خود کو ناگ سےڈسوانےکےلئےوہ پانچ پانچ ہزار روپیہ تک دیتا تھا ۔
پچھلی بار اُس نےجب خود کو ناگ سےڈسوایا ہوگا اُسےشاید ایک ماہ ہوگیا ہوگا ۔ نشہ اُتر گیا تھا اِس لئےاُس کی حالت پاگلوں سی ہورہی تھی
دو گھنٹےبعد انجکشن کا اثر ختم ہوگیا تھا ۔
عادل پھر جاگ اُٹھا تھا اور اُس نےہنگامہ کھڑا کردیا تھا ۔
اُنھوں نےاُسےکمرےمیں ہی بند کرکےرکھا ۔
وہ جانتےتھےکہ اکیلا کمرےمیں بند ہونےپر وہ اپنےآپ کو مار مار کر زخمی کرلےگا ۔
لیکن اُسےکھلا چھوڑنا اُس سےبھی زیادہ خطرناک ہوگا ۔ وہ سویرا ہونےکی راہ دیکھنےلگے۔
دِن نکلتےہی جیسےہی اُنھوں نےعادل کےکمرےکا دروازہ کھولا ‘ عادل اُن کا گلا دبانےکےلئےدوڑا ۔
” عادل ! چلو میں تمھیں ناگ سےڈسوانےلےچلتا ہوں ۔ “
یہ سنتےہی عادل کا سارا غصہ ، جوش ٹھنڈا پڑگیا ۔
وہ اُسےکار میں بٹھا کر چل پڑے۔ عادل اُنھیں راستہ بتاتا رہا ۔
ایک جھونپڑپٹّی کےپاس تنگ و تاریک گلیوں سےہوکر وہ ایک ٹوٹےجھونپڑےکےپاس پہونچے۔
” ارےعادل سیٹھ ! اِس بار لیٹ ہوگیا ؟ “
” چلو جلدی لاو
! مجھ سےبرداشت نہیں ہورہا ہے۔ “ عادل چیخا ۔
” پہلےمال نکال ! “ وہ آدمی بولا ۔ عادل نےاُن کی طرف دیکھا ۔ اُنھوں نےپانچ ہزار روپےاُس آدمی کی طرف بڑھادئے۔
وہ آدمی اندر گیا ‘ واپس آیا تو اُس کےہاتھ میں ایک سانپ کی پٹاری تھی ۔ عادل زبان باہر نکال کر کھڑا ہوگیا ۔
اُس آدمی نےپٹاری کا ڈھکن کھولا ۔اُس میں سےایک کالےناگ نےپھن اُٹھایا ‘ اُس نےچاروں طرف دیکھا اور پھر عادل کی زُبان پر ڈس لیا ۔
اُن کےمنہ سےچیخ نکل گئی ۔
عادل کےمنہ سےبھی چیخ نکلی مگر یہ مسرت اور لذت بھری چیخ تھی ‘ وہ سر سےپیر تک پسینےمیں نہاگیا اور پھر لہراتا ہوا اُن کےساتھ چل دیا ۔
اُنھوں نےجاتےہوئےمڑ کر اُس آدمی اور پٹاری کےناگ کو دیکھا ۔
جس کا زہر اُن کےبیٹےکےلئےتریاق تھا ۔
ایم مبین