- Advertisement -

جمود فکر پر تازیانہ برساتے اختصارئیے

پروفیسر محسن خالد محسنؔ

زندگی حاصلِ حیات کا نام نہیں ہے۔یہ ایک تشنہ آرزوؤں کا مے کدہ ہے جہاں چلو بھر میسر آجائے تو نشہ سَوا ہو جاتا ہے۔ زندگی ایک رنگین کتاب ہے جس کا ہر صفحہ متحیر کُن ہے اور سابق سے ماورا کردینے کی طلسمی کیفیت لیے ہوئے ہے۔ ہر روز نیا اور ہر رات نویلی محسوس ہوتی ہے۔ زندگی کا تانا بانا ہی کچھ ایسا قدرت نے بُنا ہے کہ سب کچھ پالینے کے باوجود کچھ نہ حاصل کر پانے کی کسک رہتی ہے۔ سب کچھ کھو دینے کے بعد مزید تج دینے کی جستجو کا کیا کیجیے صاحب!زندگی حصول و عدم حصول کا نام ہے۔یہاں شائد کچھ بھی اپنا نہیں ہے اور شائد سب کچھ اپنا ہی ہے۔ دعویٰ کا اختیار کرنے والے مردود اور دربار سے نکالے سے مسند کے مستحق۔ عجب گورکھ دھندہ ہے یہ کائنات ۔ انسان یہاں آتا ہے ،دیکھتا ہے،حیران ہوتا ہے اور سرتاپا حیرانی لیے عدم کو کوچ کر جاتا ہے ۔ظفر اقبال نے بجا کہا :
؎ یاں کسی کو بھی کچھ حسبِ آرزو نہ ملا کسی کو ہم نہ ملے اور ہم کو تو نہ ملا
اس”تو” کو ڈھونڈنے کی کوشش میں ہم نے سالہا سال آوارگی کی ۔اس آوارگی میں جو کچھ اس دُنیا کے نظامِ کُل نے ہمیں دیا ؛وہ ذہنی غذا اور شعوری دوا کا کام کرتا ہے۔آپ بھی جمود فکر پر تازیانہ برساتے ذیلی اختصارئیے پڑھئیے ، حظ اُٹھائیے اور رائے دیجیے۔

٭…..بات یہ ہے کہ بہت سی خواشہیں پیدا ہوجاتی ہیں، اور بہت سی ختم ہوجاتی ہے، لوگ بدل جاتے ہیں، مکان بدل جاتے ہیں، پروفیشن بدل جاتے ہیں، انسان کے جذبات اور خیالات بدل جاتے ہیں،لیکن ایک چیز نہیں بدلتی،محبت کی خواہش، چاہے جانے کی خوشی۔اگر یہ خواہش زور پکڑ لے،اور بندہ دوسرے حقائق کو نظر انداز کر دے، تو شادی روکھی پھیکی اور بد مزہ اور لائف پارٹنر محض ویسٹ اور ٹریش نظر آنے لگتا ہے۔ اس مقام پر سنبھلنے کی ضرورت ہوتی ہے بہت زیادہ۔
٭…..کسی انسان کے ساتھ دن رات گزارنا، ایک لمبے عرصے تک گزارنا بڑا عجیب سا تجربہ ہوتا ہے، اس کی محبت،محبت نہیں لگتی، اس کی عقل،عقل نہیں لگتی، اس کی پاکیزگی، پاکیزگی نہیں لگتی،وہ ہر لحاظ سے ایک عام انسان بن جاتا ہے ہمارے لیے۔
٭…..جہالت یہ نہیں ہوتی کہ لوگ پڑھے لکھے نہیں ہوتے، سمجھدار نہیں ہوتے، بس وہ سوچ اور عمل کو دو علاحدہ چیزیں سمجھنے لگتے ہیں،ایمان اور تجربے میں فرق کرنے لگتے ہیں۔جہالت یہ نہیں ہوتی کہ لوگ پڑھے لکھے نہیں ہوتے، سمجھدار نہیں ہوتے، بس وہ سوچنے کا کام کہیں اور سے کرانے لگتے ہیں،کسی پچھلی نسل کا کیا ہوا استعمال کرنے لگتے ہیں، اور اپنے نام عمل کا سہرا سجانے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں۔جہالت یہ نہیں ہوتی کہ لوگ پڑھے لکھے نہیں ہوتے،سمجھدار نہیں ہوتے،جہالت یہ ہوتی ہے کہ لوگ نئے علم اور نئی آگاہی کو قبول نہیں کرتے۔
٭…..تہذیب، تمدن،ثقافت، بذات خوب کچھ نہیں ہیں، یہ گھر اور گھر سے باہر، شادی، مرگ، پیدائش وغیرہ کے مواقع پر،مردوں کے عورتوں سے رویوں کا نام ہے۔سلوک کا نام ہے۔ ان مواقع پر عورتوں سے مردوں کے سلوک اور رویوں کو بدل دیں، آپ دیکھیں گے،ایک نئی تہذیب اُبھر رہی ہے۔
٭…..خوشی کا حصول اور غم سے چھٹکارا؛دو ایسی خواہشیں ہیں جو ہر تہذیب،ہر تمدن، ہر ثقافت کی بنیاد رکھنے والی ہیں۔مذہب اور توہمات ایسی قویں تھیں،جو ان خواہشوں کی راہ متعین کرتی تھیں۔ شادی،مرگ،پیدائش،جنگ،کاروبار وغیرہ کے مواقع پر شروع ہونے والی توہمات رسم و رواج کا درجہ اختیار کر چکی ہیں،اور بعد میں انسانی نفسیات کا۔ موجودہ دور میں ان رسم و رواج کا دفاع کسی بھی طریقے سے ممکن نہیں ہے، انسان توہمات سے نکل کر سائنسی طرز فکر اختیار کر چکا ہے ور ان رسم و رواج پر پہچان بنانے کی کوشش، ایک سعی لاحاصل کے علادہ کچھ ثابت نہیں ہونے والی۔

 

محسن خالد محسنؔ

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک افسانہ از ایم مبین