اردو افسانےاردو تحاریرایم مبین

جلاوطن

ایک افسانہ از ایم مبین

ٹرین کےاس خصوصی ڈبےمیں سو کےقریب افراد تھے۔ ان میںعورتیں بھی تھیں اور بچےبھی ‘ نوجوان بھی اور بوڑھےبھی ۔ کچھ لوگوں کا سارا خاندان اس ڈبہ میں تھا ۔ کچھ لوگوں کا خاندان تقسیم ہوگیا تھا۔
خاندان کےکچھ افراد اس ڈبےمیں مقیّد سفر کررہےتھے۔ ایک انجانی منزل کی طرف ۔ کچھ افراد بمبئی میں ہی رہ گئےتھے۔
وہ اکیلا اس ڈبےمیں تھا ۔
اس کی سکینہ اور ببلو بمبئی میں ہی رہ گئےتھے۔ پتہ نہیں اس وقت وہ کیا کررہےہوں گے؟
جب پولس اسےلےجارہی تھی تب سکینہ کتنی رو رہی تھی گڑ گڑارہی تھی ۔ ایک سال کا ببلو سکینہ کو روتا دیکھ کر بےتحاشہ رونےلگا تھا ۔ سکینہ پولس والوں کےہاتھ پیر پڑ رہی تھی رو رہی تھی ‘ رحم کی بھیک مانگ رہی تھی اور کہہ رہی تھی ۔
” میرےآدمی کو چھوڑ دو ‘ میرےآدمی کو مجھ سےجدا مت کرو ۔ میں اس کےبنا نہیں رہ سکتی ۔ “ لیکن پولس نےاس کی ایک نہ سنی ۔ آخر میں وہ اس وقت اس سےملنےریلوےاسٹیشن پر آئی تھی جب اسےمعلوم ہوا تھا کہ اسےبنگلہ دیش لےجایا جا رہا ہے۔ اس وقت اسےڈبےمیں بند کردیا گیا تھا ۔
ڈبےکےدروازوں پر پانچ مسلح پولس پہرا دےرہےتھے۔ ڈبےمیں بھی سات آٹھ مسلح پولس تھی ۔ وہ کھڑکی کےپاس بیٹھا تھا ۔ اور سکینہ کھڑکی کی سلاخ پکڑ کر دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھی ۔
” رحمن ! تم کہاں جا رہےہو ۔ مجھےچھوڑ کر کہاں جا رہےہو ‘ میں تمہارےبنا نہیں رہ سکتی مجھےچھوڑ کر مت جاو¿ ‘ ببلو تمہارےبنا کس طرح رہےگا ۔ چھوڑدو ظالموں میرےشوہر کو چھوڑ دو …….. ! یہ بنگلہ دیشی نہیں ہے۔ یہ ہندوستانی ہےاس نےہندوستان میں جنم لیا ہے۔ “
اس پر ڈبےکےپاس پہرہ دیتےایک سپاہی نےاسےایک زور دار دھکا دیا تھا اور سکینہ پلیٹ فارم پر جا گری تھی ۔
اس کا خون کھول اٹھا تھا ۔
” تیری تو …….. ! “ اس کی آواز اس کےحلق میں ہی گھٹ کر رہ گئی تھی ۔ کیونکہ ڈبےمیں پہرہ دینےوالےایک سپاہی کی بندوق کی نال اس کی کنپٹی سےلگی ہوئی تھی ۔ ” چپ چاپ بیٹھ جا ۔ زیادہ ہشیاری نہیں کرنےکا ‘ سالا زیادہ ہشیاری کیا تو اڑا دےگا کیا؟چیالا ! سوَتا لا دادا سمجھتوئے۔“ (خود کو دادا سمجھتا ہے) اور وہ چپ چاپ اپنی سیٹ پر بیٹھ کر حسرت سےسکینہ کو دیکھنےلگا ۔ سکینہ پلیٹ فارم پر بیٹھی دھاڑیں مار مار کر رورہی تھی ۔
پھر گاڑی نےسیٹی دی اور پلیٹ فارم پر دوڑنےلگی ۔
سکینہ چونکی اور پھر اٹھ کر گاڑی کےپیچھےدوڑی ۔
” ببلو کےابا مجھےچھوڑ کر مت جاو¿ ۔ ببلو کےابا مجھےچھوڑ کر مت جا و¿ ۔ “
لمحہ بہ لمحہ وہ اس سےدور بہت دور ہوتی جارہی تھی ۔ گاڑی رفتار پکڑ رہی تھی اور پھر وہ اس کی نظروں سےاوجھل ہوگئی ۔ اس کا ایک انجان منزل کی طرف سفر ہوگیا ۔وہ کہاں جارہےہیں انہیں اس بات کا بھی علم نہیں تھا ۔ انہیں صرف اتنا پتہ چلا کہ انہیں اس ٹرین کےذریعہ کلکتہ لےجایا جا رہا ہے۔ کلکتہ لےجا کر انہیں کلکتہ پولس کےحوالےکر دیا جائےگا اور پولس انہیں بنگلہ دیش کی سرحد میں ڈھکیل دےگی۔
یا پھر یہ بھی ممکن تھا انہیں کلکتہ پولس کےحوالےنہ کیا جائےاور ایک خصوصی بس کےذریعہ بنگلہ دیش کی سرحد تک لےجا کر انہیں سرحد میں دھکیل دیا جائے۔ ڈبہ میں جو سپاہی تھےان کی باتوں سےپتہ چلا کہ ہوسکتا ہےکلکتہ پہونچ کر طریقہ کار بدل دیا جائے۔
” ابھی تک ہم تم بنگلہ دیشی لوگوں کو کلکتہ پولس کےحوالےکردیتےتھےاور وہ آگےکا کام کرتی تھی ۔ مگر پتہ چلا ہےکہ کلکتہ پولس بھی تم لوگوں سےملی ہوئی ہےجیوتی باسو تم لوگوں کا ہمدرد ہے۔ وہ لوگ جھوٹ جھوٹ پولس کو بتاتےہیں کہ ہم بھارتی ہیں ہمیں بنگلہ زبان بولنےکی بنیاد پر بنگلہ دیشی قرار دےکر بمبئی سےنکالا گیا ہےتو وہ انہیں چھوڑ دیتی تھی ۔ اور تم لوگ واپس بھی آجاتےتھے۔ لیکن اس بار ہم تم لوگوں کو بنگلہ دیش کی سرحد میں دھکیل کر ہی واپس آئیں گےتاکہ تم لوگ پھر کبھی بمبئی واپس نہ آسکو ۔ اگر بھارت کی سرحد میں داخل ہونےکی کوشش کرو تو بی ۔ ایس ۔ ایف کی گولی کا نشانہ بن جاو¿ ۔
اسےبنگلہ دیش بھیجا جارہا تھا ۔ ایک ایسےملک میں جسےاس نےآج تک نہیں دیکھا تھا ۔ اسےاس ملک کا باشندہ قرار دےکر وہاں بھیجا جارہا تھا ۔
کیا وہ وہاں رہ پائےگا ؟ کیا وہ ملک اسےقبول کرپائےگا ؟ جبکہ اس کا اس ملک سےکوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ جب اسےاپنےہم وطن غیر ملکی قرار دےرہےہیں تو ایک غیر ملک کےلوگ اسےکیسےاپنا ہم وطن سمجھ سکتےہیں ۔
اس کا قصور کیا ہے؟
اس کا قصور یہ ہےکہ اس کی مادری زبان بنگلہ ہے۔
اس کا قصور یہ ہےکہ وہ مسلمان ہے۔
اس کا قصور یہ ہےکہ وہ مغربی بنگال میں پیدا ہوا پلا بڑھا ہے۔
اس کا قصور یہ ہےکہ وہ اپنےآپ کو ہندوستانی ثابت نہیں کر پایا ہے۔ اس کی بدقسمتی یہ ہےکہ اس نےاپنےہندوستانی ہونےکےجتنےثبوت دئےانہیں قبول نہیں کیا گیا ۔
وہ ایک ایسی منزل کی طرف بڑھ رہا تھا جو اس کی اپنی نہیں تھی ۔ اس کےبارےمیں اسےکچھ بھی نہیں معلوم تھا ۔ اس منزل کےبارےمیں تو اس نےخواب میں بھی نہیں سوچا تھا ۔ اس منزل اور اس منزل کےبعد کےمستقبل سےوہ بالکل انجان تھا ۔
وہ صرف اپنےماضی کو جانتا تھا ۔
اور اس کی نظروں کےسامنےاپنےماضی کا ایک ایک لمحہ گھوم رہا تھا ۔
دیناج پور سےبمبئی کےچیتا کیمپ تک زندگی کا ایک ایک لمحہ اسےیاد آرہا تھا ۔اس نےہوش سنبھالا تو خود کو مغربی بنگال کےچوبیس پرگنہ کےایک چھوٹےسےگاو¿ں دیناج پور میں پایا ۔
اس نےصرف اپنی ماں کو دیکھا تھا ۔ اس کی ماں کھیتوں میں کام کرتی تھی اور اس سےجو حاصل ہوتا تھا اس سےاپنا اور اس کا پیٹ پالتی تھی ۔
گاو¿ں کےکنارےان کی ایک چھوٹی سی جھونپڑی تھی وہ اس جھونپڑی میں رہتےتھے۔ اس کی ماں کی خواہش تھی کہ وہ پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بنےاور ان کےاچھےدن آئیں اس لئےوہ اسےباقاعدگی سےاسکول بھیجتی تھی ۔
وہ اسکول جاتا تھا ۔ پڑھنےلکھنےمیں بہت ہوشیار تھا اس کا بھی دل چاہتا تھا کہ وہ خوب پڑھے اور پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بنے۔
گاو¿ں میں ساتویں تک ہی اسکول تھا ۔ اس کی ماں کہتی تھی اگر وہ ساتویں کا امتحان پاس کرلےگا تو وہ اسےپڑھنےکےلئےشہر بھیجےگی ۔
لیکن اس کی ماں کا خواب پورا نہیں ہوسکا اور اس کی بدقسمتی کا آغاز ہوگیا ۔ ایک دن اس کی ماں کو سخت بخار آیا ۔ دو دن تک اس کی ماں بخار سےلڑتی رہی اور تیسرےدن اس نےدم توڑ دیا اور وہ دنیا میں اکیلا رہ گیا ۔
اس وقت وہ ساتویں جماعت میں تھا ۔ اس کا دنیا میں کوئی نہیں تھا ۔ جب سےاس نےہوش سنبھالا تھا اسےباپ کی صورت دکھائی نہیں دی تھی ۔ اس نےگاو¿ں والوں سےسنا تھا ۔ جب وہ تین سال کا تھا تب اس کا باپ مرگیا تھا ۔ اس کےباپ کا اس گاو¿ں میں کوئی رشتہ دار نہیں تھا ۔ پتہ نہیں وہ کہاں سےآیا تھا اور اس گاو¿ں میں بس گیا تھا ۔ ایک دن شہر گیا تو اپنےساتھ اس کی ماں کو لےآیا اور گاو¿ں والوں سےکہنےلگا کہ یہ اس کی بیوی ہےاس نےاس کےساتھ شہر میں بیاہ کیا ہے۔
پھر وہ پیدا ہوا اور جب تین سال کا ہوا تو اس کےباپ کا انتقال ہوگیا اور اب ماں کا ۔ اس طرح وہ اپنےکسی رشتہ دار کےبارےمیں کچھ نہیں جانتا تھا ۔
وہ دنیامیں اکیلا رہ گیا تھا ۔ اب اسےاپنی زندگی اکیلےہی خود ہی کاٹنی تھی ۔ زندہ رہنےکےلئےروٹی بہت ضروری تھی اور روٹی حاصل کرنےکےلئےکام کرنا بہت ضروری تھا ۔ اس لئےوہ کام کرنےلگا اور کام کرنےکےلئےاسےاسکول کی پڑھائی چھوڑنی پڑی ۔ وہ ماں کی طرح کھیتوں میں کام کرکےاپنا گذر بسر کرتا تھا لیکن کھیتوں کا کام سال بھر کہاں چلتا ہے۔
چھ مہینےکام ہےتو چھ مہینےنہیں ۔
چھ مہینےجب کام نہیںملتا تو بھوکوں مرنےکی نوبت آجاتی ۔ اس لئےجھنجلا کر اس نےسوچا کہ کوئی دوسرا کام کرنا چاہیئے۔ دوسرا کام گاو¿ں میں ملنا مشکل تھا ۔ اس لئےوہ دوسرےکام کی تلاش میں شہر آیا ۔
وہ کوئی دوسرا کام تو جانتا نہیں تھا اس لئےوہ کام سیکھنےلگا ۔
اسےایک موٹر گیریج میں کام مل گیا ۔
وہ گیریج میں کام سیکھتا بھی تھا کام کرتا بھی تھا ۔
اسےگیریج کا مالک دو وقت کا کھانا دیتا تھا اور خرچ کےلئےتھوڑےپیسےبھی ۔ سونےکےلئےگیریج اتنا بڑا تھا کہ کسی بھی کونےمیں اپنا بستر بچھا کر سوجاتا تھا ۔
چار پانچ سالوں میں وہ بہت اچھا مکینک بن گیا ۔
ایک دن اس کا گیریج کےمالک سےجھگڑا ہوگیا ۔ گیریج کا مالک اس کی تنخواہ نہیں بڑھا رہا تھا اس لئےوہ اس سےالجھ گیا تھا ۔
جھگڑےکےبعد اس نےوہ گیریج چھوڑ دیا اور کلکتہ چلا آیا ۔
کلکتہ میں اس کی جان پہچان کا کوئی نہیں تھا ۔ اس لئےدو چار دن یوں ہی اِدھر اُدھر بھٹکتا رہا
پھر آخر اسےایک گیریج میں کام مل گیا ۔
کلکتہ میں اس نےدو تین سال نکالے۔ اس نےسنا تھا کہ بمبئی میں بہت کام ہےاور بہت پیسہ بھی ہے۔ اچھےکاریگروں کی وہاں بہت قدر ہےاور اچھا پیسہ بھی مل سکتا ہے۔
اس لئےاس نےبمبئی جانےکی ٹھانی ۔
اس کےایک دو دوست اور بمبئی جارہےتھے۔
وہ ان کےساتھ بمبئی چلا آیا ۔
بمبئی کلکتہ جیسا ہی بڑا شہر تھا لیکن کلکتہ سےزیادہ گنجان ۔ اسےبمبئی میں بھی آسانی سےکام مل گیا ۔ کیونکہ وہ اس درمیان بہت اچھا مکینک بن گیا تھا ۔
وہ گیریج میں رہنےلگا اور پیسےبھی جمع کرنےلگا ۔ اس کےپاس کچھ سالوں میں اچھےخاصےپیسےجمع ہوگئے۔ اس نےان پیسوں سےچیتا کیمپ میں ایک جھونپڑا لےلیا ۔
وہ جھونپڑا کس کی ملکیت ہےقانونی ہےیا غیر قانونی ہےاس نےاس کےبارےمیں نہیں سوچا تھا ۔ وہ تو صرف اتنا جانتا تھا کہ جو شخص اس جھونپڑےمیں اب تک رہتا ہےوہ اسےفروخت کررہا تھا اس اس لئےاس نےاسےخرید لیا ۔ جھونپڑا خریدنےکےبعد دل میں ایک ہی خواہش ہوتی ۔
” اب شادی کرلینی چاہیئے۔ کیونکہ اب تو گھر ہوگیا ہے۔ بمبئی میں شادی آسانی سےہوجاتی ہےمگر گھر آسانی سےنہیں ملتا لیکن اس کےپاس تواب گھر تھا ۔
اور پھر اس کی سکینہ سےشادی ہوگئی ۔
سکینہ کا باپ بھی اس کی طرح کسی گیریج میں کام کرتا تھا ۔ اس کےایک دوست نے سکینہ کےباپ سےاس کےرشتےکی بات کی سکینہ کےباپ نےدیکھا کہ لڑکا اچھا ہے‘ کماتا ہے۔ رہنےکےلئےگھر بھی ہے۔ ایسےلڑکےآج کل اتنی آسانی سےکہاں ملتےہیں ۔
اس نےجھٹ ہاں کردی اور ان کی شادی ہوگئی ۔
کچھ دنوں میں ہی سکینہ اس کےدل میں اتر گئی ۔
سکینہ بس ہنستی رہتی تھی اور اسےسکینہ کا ہنسنا بہت پسند تھا ۔
اور سکینہ تو اس کی ہر بات پر ہنستی رہتی تھی ۔
سکینہ خاص طور پر اس کی زبان پر بہت ہنستی تھی ۔
سکینہ ناسک کی رہنےوالی تھی اور ساتویں تک پڑھی بھی تھی ۔ اس لئےاس کی اردو بہت اچھی تھی اور اردو کےاخبارات و رسائل پڑھ بھی لیتی تھی ۔
اس کو اردو بالکل نہیں آتی تھی ۔
بمبئی میں آنےکےبعد اس نےٹوٹی پھوٹی اردو بولنا سیکھی تھی۔
وہ جب تک کلکتہ میں تھا اسےاردو کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی تھی ۔ اس کی ماں بنگلہ بولتی تھی ۔ اس کےلئےاس کی مادری زبان بنگلہ ہوگئی تھی ۔
اسکول میں بھی وہ بنگلہ ہی پڑھا ۔
کلکتہ میں جہاں اس نےکام کیا یا اس سےپہلےجہاں جہاں کام کیا اس کےسارےساتھی بنگلہ بھاشی ہی تھے۔
اسےبنگلہ زبان سےبہت محبت تھی ۔
بنگلہ پڑھنا وہ جانتا تھا اس لئےفرصت ملنےپر اکثر بنگلہ اخبارات اور رسالےپڑھا کرتا تھا ۔
اس کو ٹیگور اور قاضی نذرالسلام کےکئی گیت یاد تھے۔
اس نےشرت چندر چٹرجی کےکئی ناول پڑھےتھےاور مہا شویتا دیوی ورما سےسنیل گنگوپادھیائےکی کتابیں پڑھ چکا تھا ۔
لیکن بمبئی میں آنےکےبعد ماحول بدل گیا تھا ۔
جہاں اسےکام ملا تھا وہاں کوئی بھی بنگلہ نہیں جانتا تھا اس لئےٹوٹی پھوٹی ہندوستانی سیکھنےلگا اور کام چلاو¿ زبان سیکھ بھی گیا ۔
سکینہ سےبات کرنےمیں کبھی کبھی بڑا مسئلہ کھڑا ہوجاتا تھا ۔
سکینہ کبھی کبھی اردو کا ایسا لفظ بول دیتی تھی کہ وہ اس لفظ کا مطلب ہی نہیں سمجھ پاتا تھا ۔ یا سکینہ سےبات کرتےکرتےاس کےمنہ سےکوئی ایسا بنگلہ لفظ نکل جاتا تھا کہ اس لفظ کا مطلب اسےسکینہ کو سمجھانا دشوار ہوجاتا تھا ۔
سکینہ اکثر اس سےکہتی تھی ۔
” رحمن یہ بنگلہ چھوڑو اور تم اردو پڑھنا لکھنا سیکھ جاو¿ ۔ میں تمہیں اردو سکھا دوں گی ۔ “
” کیوں بنگلہ میں کیا برائی ہے۔ “
” اردو ہماری زبان ہےمسلمانوں کی زبان اسلام کا سارا مذہبی سرمایہ اس زبان میں ہے۔ “
” مسلمان بنگلہ بھی تو بولتےہیں ۔ مغربی بنگال کےزیادہ تر مسلمانوں کی مادری زبان بنگلہ ہےاور سارےبنگلہ دیش کےمسلمانوں کی زبان تو بنگلہ ہی ہے۔
اسےبنگلہ سےپیار تھا ۔
اسےبمبئی میں بنگلہ رسالےاور اخبارات نہیں ملتےتھے۔ کبھی کبھی وہ صرف بنگلہ اخبار آنند بازار پتر یکا اور رسالہ دیش خریدنےوی ٹی آتا تھا ۔ کیونکہ وہاں ملتےتھی۔
چیتا کیمپ میں بہت سےبنگالی تھے۔ ان میں سےکوئی اپنےگھر جاتا تو اس سےوہ کہتا کہ واپسی میں میرےلئےبنگلہ اخبارات اور کتابیں لانا نہیں بھولنا ۔
وقت گزرتا گیا اس درمیان ببلو ان کےدرمیان آگیا ۔ ببلو کےآجانےسےان کی محبت اور زیادہ بڑھ گئی ۔ اچانک ایک دن اسےاور سکینہ کو ایک نوٹس ملی ۔
” تم ہندوستانی ہو اس بات کا ثبوت پیش کرو ورنہ ووٹنگ لسٹ سےتمہارا نام خارج کردیا جائےگا ۔ “ اس طرح کی نوٹس اس کےعلاقہ کےاور بھی کئی لوگوں کو ملی تھی ۔ ہر کوئی اس نوٹس کی وجہ سےپریشان اور غصےمیں تھا ۔
” ہمارےپاس راشن کارڈ ہے۔ ہمارا نام ووٹنگ لسٹ میں شامل ہےپھر بھی ہم سےشہریت کا ثبوت مانگا جارہا ہے؟ ہم یہاں پیدا ہوئے‘ پلےبڑھےہیں۔ اس سےبڑھ کر ہماری شہریت کا اور کیاثبوت ہوسکتا ہے؟ “
نوٹس دیکھ کر سکینہ ڈر گئی تھی ۔
” رحمن تمہاری مادری زبان بنگلہ ہےاور آج کل بنگلہ دیشیوں کی بمبئی میں موجودگی پر بہت شور شرابا مچا ہوا ہے۔ تم کو بھی نوٹس مل گئی ہےاگر تم نےخود کو ہندوستانی ثابت نہیں کیا تو مجھےڈر ہےکہ کہیں تمہیں بنگلہ دیشی قرار دےکر ہندوستان سےنہ نکال دیا جائے۔ “
” کون مجھےہندوستان سےباہر نکال سکتا ہےمیں ہندوستان میں پیدا ہوا ہوں پلا بڑھا ہوں۔ “
” پھر اپنےہندوستانی ہونےکا ثبوت دےدوناں ! “
” میرےہندوستانی ہونےکا ثبوت میری اسکول کا داخلہ ہےجس پر میری جائےپیدائش ہےاور وہ داخلہ حاصل کرنےکےلئےمجھےدیناج پور جانا پڑےگا ۔ کون اتنی جھنجھٹ کرےگا ۔ وہ لوگ میرا نام صرف ووٹنگ لسٹ سےہی کاٹیں گےناں ؟ بلا سےکاٹ دیں ؟ “
سکینہ نےاپنا اسکول کا داخلہ پیش کرکےخود کو ہندوستانی ثابت کردیا ۔ لیکن رحمن خود کو ہندوستانی ثابت نہیں کرسکا ۔ اس کا نام ووٹنگ لسٹ سےکاٹ دیا گیا ۔ اس نےاس کی پرواہ نہیں کی ۔ الیکشن ہوئے۔ الیکشن میں رحمن ووٹ نہیں دےسکا ۔ اسےاس کا دکھ بھی نہیں تھا ۔
نئی حکومت تھی اور نئی حکومت نےسب سےپہلا لفڑہ بنگلہ دیشیوں اور غیر ملکیوں کو پندرہ دن کےاندر ہندوستان سےباہر کرنےکا لگایا ۔ اور اس پر عمل درآمد شروع ہوگیا ۔ ایک رات پولس آئی اور اسےاٹھا کر لےگئی ۔ اس پر الزام تھا کہ وہ بنگلہ دیشی ہےاور غیر قانونی طریقےسےہندوستان میں اور بمبئی میں آیا ہے۔ وہ چیختا رہا چلاتا رہا ۔ وہ ہندوستانی ہےلیکن کسی نےنہیں سنی ۔
” تُو ہندوستانی کیسا رے۔ تُو بنگالی بولتا ہے۔ تیرےگھر سےبنگالی کتابیں اور اخبارات ملےہیں نوٹس ملنےپر تُونےخود کو ہندوستانی ثابت نہیںکیا ۔ اس سےصاف ظاہر ہوتا ہےکہ تُو بنگلہ دیشی ہےاس لئےاب تجھےتیرےوطن بنگلہ دیش پہونچانےکا کام ہمیں کرنا ہے۔ “
سکینہ بھی بہت گڑگڑائی کہ اس کا شوہر ہندوستانی ہےلیکن پولس نہ مانی ۔ سکینہ نےاپنی ساری جمع پونجی ان کےسامنےرکھ دی کہ وہ اسےلےلیں اور رحمن کو چھوڑ دیں۔ اسےپتہ چلا تھا کہ پیسوں کےزور پر پولس نےبہت سےلوگوں کو چھوڑ دیا ہی۔
” ان لوگوں کو چھوڑا ہےجن کو چھوڑنےکےلئےسیاسی رسوخ آیا تھا ۔ ٹھیک ہےہم تیرےآدمی کو چھوڑ دیتےہیں تُو بھی کسی سیاسی آدمی کا وسیلہ لا ۔ اگر تُو یہ نہیں کرسکی تو ہم یہ پیسہ لےکر بھی تیرےآدمی کو نہیں چھوڑتےکیونکہ ہمیں اوپر سےجو آرڈر ملا ہےاس آرڈر کےمطابق کچھ لوگوں کو بنگلہ دیش میں بھیجنا ہی پڑےگا ۔ “ سکینہ کسی کا وسیلہ نہیں لگا سکی ۔ اور رحمن کو بنگلہ دیشی قرار دےکر بنگلہ دیش بھیجنےکےلئےٹرین میں سوار کردیا گیا ۔
اب وہ اپنےہی ملک سےغیر ملکی بن کر ایک غیر ملک میں جارہا تھا ۔
اس کی جلاوطنی کا سفر شروع ہوا تھا ۔

 

ایم مبین

سائٹ ایڈمن

’’سلام اردو ‘‘،ادب ،معاشرت اور مذہب کے حوالے سے ایک بہترین ویب پیج ہے ،جہاں آپ کو کلاسک سے لے جدیدادب کا اعلیٰ ترین انتخاب پڑھنے کو ملے گا ،ساتھ ہی خصوصی گوشے اور ادبی تقریبات سے لے کر تحقیق وتنقید،تبصرے اور تجزیے کا عمیق مطالعہ ملے گا ۔ جہاں معاشرتی مسائل کو لے کر سنجیدہ گفتگو ملے گی ۔ جہاں بِنا کسی مسلکی تعصب اور فرقہ وارنہ کج بحثی کے بجائے علمی سطح پر مذہبی تجزیوں سے بہترین رہنمائی حاصل ہوگی ۔ تو آئیے اپنی تخلیقات سے سلام اردوکے ویب پیج کوسجائیے اور معاشرے میں پھیلی بے چینی اور انتشار کو دورکیجیے کہ معاشرے کو جہالت کی تاریکی سے نکالنا ہی سب سے افضل ترین جہاد ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button