آپ کا سلاماردو تحاریراردو کالمزسوشل میڈیاسیمیں کرن

کھمبیاں جمع چھچھورے اور میڈیا انفلوئنسرز

ایک اردو تحریر از سیمیں کرن

کچھ عرصے سے کچھ زمانوں سے ایک نئی صنف خود رو کھمبیوں کی طرح اگ آئی ہے اور ہم اس کے نرغے میں ہیں، جانے ہمارے ہی دماغ کا خلل ہے یا کچھ ہیں دیوانے جو ہماری طرح سوچتے ہیں کہ ہماری نئی جنریشن زی اور ایلفا کا ہی نہیں بلکہ ہماری جنریشن ایکس کا بھی سوا ستیاناس اس نئی صنف نے کر دیا ہے اور ہم ویہلی قوم جس کے پاس ضائع کرنے کو سب سے ارزاں چیز وقت ہے وہ گھنٹوں ان ہی مشاغل میں برباد کر کے سمجھتے ہیں کہ وہ مستفید ہو گئے بلکہ اس خوفناک نئی صنف جو کہ نا صرف نئے رجحانات، ذہن سازی اور ذہن ترتیب و تخریب جیسے ”جرائم“ میں ملوث ہے، سے تعلیم پاکر ہمارے مرد وزن بچے بوڑھے، ان لوگوں کو پروموٹ کرتے پائے جاتے ہیں بلکہ آگے مزید لوگوں کو ”مستفید“ بھی کرتے جاتے ہیں۔

جی ہاں آپ درست سمجھے ہم بات کر رہے ہیں آج کل کے میڈیا انفلوئنسرز کی۔ یہ میڈیا انفلوئنسرز کسی مہلک انفلوئنزا کی طرح گرمی، سردی، برسات، خزاں ہر موسم میں لگاتار کام کر رہے ہیں اور کبھی رکتے نہیں۔

سب سے دلچسپ اور خطرناک پہلو یہ ہے کہ میڈیا انفلوئنسرز بننے کے لیے خاص طور پہ ہمارے انڈو پاک میں آپ کو کسی خاص ہنر کی ضرورت نہیں۔

جی ہاں درست عرض کر رہی ہوں، آپ کو بس کچھ چکنی چپڑی باتیں کرنی آنی چاہیں، یا پھر کچھ مضحکہ خیز حرکتیں کیجیے، اور کچھ نہیں تو گہرا میک اپ تھوپیے، قابل اعتراض لباس پہنیے، کسی ہوش ربا یا پرانے گانے پہ ایکٹنگ کیجیے، دو چار ٹھمکے لگائیے، ٹوپی تسبیح پکڑ لیجیے، فیمنزم کے نام پہ مرد حضرات کی ایسی تیسی پھیر دیجیے یا پھر فیمنزم کے خلاف زہر اگلنا شروع کر دیجیے اتنا کہ عورت سے جینے کا، سوچنے کا، بنیادی حق غضب کر لیجیے، غرض کوئی بھی وہ مشہور و مقبول مسالہ جس کا دانش، عقل انسانیت ماحول دوستی سے کوئی علاقہ نہ ہو، جو اپنے ہاں خوب بکتا ہے چلتا ہے۔ اب بس آپ کو ایک عدد اچھے برانڈ کا موبائل درکار ہے اور چلئے شروع ہو جائیے ٹک ٹاک اور یوٹیوب پہ۔ اب کچھ عرصے کی بات ہے آپ کا سر کڑاہی میں ہے اور انگلیاں گھی میں۔ نئی نسل کے بچے بچیاں حسرت سے چٹخارہ بھر کر کہتی پائی جاتی ہیں ”یہ ٹک ٹاکر ہے، یو ٹیوبر ہے۔“

بھلا کیوں نہ کہیے دیکھتے ہی دیکھتے یہ چینلز لاکھوں ویورز اور کمائی دے رہا ہے تو جناب یوں ایک نئی صنف ایک نئے دھندے نے جنم لیا ہے جو خود کو بڑے اہتمام و فخر سے ”میڈیا انفلوئنسر“ بتلاتا ہے۔

یہ میڈیا انفلوئنسرز کیا کرتے ہیں، کیا بیچتے ہیں اپنی دکان پہ وہ تو میں نے اوپر مذکور کر ہی دیا، اپنی ذاتی زندگی اپنی خوبصورت بیوی، اپنی قیمتی گاڑی، بنگلہ، اپنا خوبصورت جسم، مزاح کے نام پہ پھکڑ پن، گالی گلوچ، گندے معنی خیز، اشتہا انگیز جنسی چٹکلے، بس ایک دھن ہے، ایک ہوس ہے کہ کچھ ایسا ادا ہو جائے جو راتوں رات وائرل ہو جائے، ہو گیا تو مبارک ہو، ایک نئے میڈیا انفلوئنسر کا جنم ہو گیا۔ اب یہ صاحب یا بی بی آزاد ہیں یوں سمجھیے نواں کٹا کھل گیا جے، یہ لوٹ مار کریں، نشہ بیچیں، کسی کے جذبات سے کھیل کر اسے الو بنائیں، رقم اینٹھیں، پس پردہ جوا کھیلیں ؛کھلی چھٹی ہے بلکہ اگر تو یہ کوئی ”صاحبہ“ ہیں تو تمام تر جرائم کے بعد یہ عورت کارڈ تھام کر میدان میں اتر آئیں گی، مظلوم بن جائیں گی اور بڑے فخر سے فرمائیں گی۔ میں اخر میڈیا انفلوئنسر ہوں میرے اتنے لاکھ ویورز ہیں اور جب آپ جا کر اس انفلوئنسر کے چینل اور اس کے مواد کا نظارہ کرتے ہیں تو بے ساختہ لاحول ولا منہ سے نکلتا ہے اور ان ویورز کے لیے انا للہ پڑھنے کو دل چاہتا ہے۔

دور کیا جائیے آپ اس دیگ کے چند دانے ہی دیکھ لیجیے، ڈکی بھائی، رجب بٹ، سسٹرالوجی، ڈاکٹر نبیہہ، سامعہ حجاب، نانی والا۔ آپ دیکھیے سر دھنیے کہ پاکستان کے کباڑ خانے میں کیا کچھ بک جاتا ہے۔

اچھا مزے کی بات یہ ہے کہ جب یہ لوگ کسی طرح قابل گرفت ہوتے ہیں یا گردش ایام کے چکر میں تو پھر سوشل میڈیا، ہمارا ویہلا سوشل میڈیا اور اس کے عظیم دماغ دو حصوں میں منقسم ہو جاتے ہیں جہاں کچھ لوگ ان کا پوسٹمارٹم کر کے انہیں معاشرے کا کینسر بتا کر متنبہ کرتے ہیں وہیں ان کی حمایت میں بے شمار لوگ آٹھ کھڑے ہوتے ہیں جہاں سوڈو آئیڈیل ازم جیسا آزادی کا تصور پیش کیا جاتا ہے حتیٰ کہ اس ویلاگ میں جس میں کچھ بے حس بیٹیاں اپنے مرے باپ کو بیچ گئیں ان کے حامی اٹھ کھڑے ہوئے کہ غربت، بیروز گاری، شادی نہ ہونا اس کی وجوہات ہیں۔ میں نہیں جانتی کہ ان تمام چیزوں میں کون سی چیز ہے جو آپ کو محنت کرنے اور ہنر حاصل کرنے سے روکتی ہے وہ ایک بڑا بھدا سا لطیفہ یاد آتا ہے اس موقعے پہ کہ ایک پیشہ ور قاتل جج کے سامنے گھگھیا رہا تھا جج صاحب یتیم ہوں میں۔ تو جناب کچھ یہی صورتحال ہمارے میڈیا انفلوئنسر کو درپیش ہے۔

بے چارے غریب تھے۔ اب رہے نہیں۔
شاید یتیم مسکین بھی ہوں۔
بے ہنر ہیں، غیر تعلیم یافتہ ہیں، جاب لیس ہیں۔

اس موضوع پہ پھر کبھی بات کر لیں گے کہ جب معاشرہ افراد کو روزگار مہیا نہیں کرتا تو بہت سے چور دروازے کھل جاتے ہیں کہ یہ ٹک ٹاکر اور یوٹیوبر کی وبا میں پورا گلوب ہی آ چکا ہے۔

دوسرے دیسوں میں شاید مواد یا کنٹنٹ کی بنیاد پہ کچھ معیار اور محنت درکار ہو مگر ہمارے ملک کی کیا باتاں ہیں یہاں سب گول مال چل جاتا ہے، یہاں فحش ٹھمکا بھی بکتا ہے، ٹوپی پہن کر تعلیم حاصل کرتی بچیوں کو رگید کر بھی انفلوئنسر بن جایا جاتا ہے، زلف لہراؤ یا پھر اپنا فراک یا دوپٹہ، اپنی بیوی کی نمائش کرو یا پھر اپنی داڑھی اور حجاب کی صاحب سب کچھ بک جائے گا۔ یہ قوم شدید ترین فارغ اور مایوس ہے، اس کے پاس ضائع کرنے کو وقت کے چوبیس نہیں چھتیس گھنٹے ہیں۔ آپ گلا سڑا مال جو بھی لے آؤ کچھ بھی نظر انداز ہونے کا نہیں۔

یہی میڈیا انفلوئنسر کبھی اپنے بنگلے، گاڑی، خوبصورت بیوی کی نمائش کریں یا پھر ڈیڑھ کروڑ کے عروسی زیورات کی اور فخریہ بتلائیں کہ یہ لباس عروسی بھی کروڑوں کی مالیت کا ہے تو جناب واہ اور آہ کا ڈھیر لگ جائے گا، یہ سوچے بغیر کہ کہنے والے کا مقصد اور ماٹو ہی یہ ہے کہ بدنام جو ہوئے گر تو کیا نام نہیں ہو گا۔

مجھے یاد ہے کہ ہمارے ہاں ایسے لوگوں کو کچھ عرصہ قبل چھچھورا کہا جاتا تھا۔ چھچھورا سے یاد آیا ہم سے چھوٹے ہمارے برادر خورد گو کہ اب تو مولانا بن چکے ہیں مگر بچپن و نوجوانی میں اچھے خاصے شوخے ہوا کرتے تھے جس پہ میں اسے فوراً ًٍٍچھچھورے کا لقب دے ڈالتی اور ہماری بھابھی صاحبہ ہنس کر کہتیں ”آپی قسم سے آپ کے منہ سے یہ چھچھورا بڑا سوٹ کرتا ہے“ دراصل بات یہ ہے کہ بڑی بہن ہونے کے ناتے اس کی یہ کھنچائی میں ہی کرتی تھی اور پھر مولویوں کو کون کھینچے اس ملک میں مولوی ہو یا فوج ان کو چھیڑتے ہوئے ہر کوئی ڈرتا ہے۔ یہ دونوں بھی بس ایک دوسرے سے ہی ڈرتے ہیں کیونکہ دونوں ایک دوسرے کی عقل و علاقے سے آگاہ ہیں ( ہم نے اپنے دل کی بھڑاس یہ سوچ کر نکال لی ہے کہ اس سے پہلے کہ منہ بند رکھنے کی ترمیم منظور ہو جائے، کہہ لو جو کہنا ہے ) ، یہ اور بات ہے کہ اس مولوی بھائی کے ساتھ بچپن میں ہماری پانی پت کی جنگیں ہوتی رہی ہیں جو کہ اوپر تلے کے بہن بھائیوں میں ہوا ہی کرتی ہیں اور وہ پگلا پچپن میں ان بچپن کی باتوں کو ابھی تک نہیں بھولا، خیر ہم آپ کو قصہ سنا رہے تھے چھچھورے کا۔

جی ہاں چھچھورا پن۔ جس کے لیے پنجابی میں ایک محاورہ ہماری ساس محترمہ بولا کرتی تھیں ”اوچھا جٹ کٹورا لبیا پانی پی پی اپھریا“ (غریب جاٹ کو کٹورا ملا تو پانی پی پی کر اس کا پیٹ اپھر گیا) ۔ اور اب یہ چھچھورا بھوکا جٹ ہاتھ میں مہنگا موبائل پکڑنا سیکھتا ہے، ایک ہیجان خیز سی ویڈیو یوٹیوب یا ٹک ٹاک پہ اَپ لوڈ کرتا ہے، اگر قسمت نے یاوری کی، ہٹ ہو گئی تو لیجیے ہینگ لگی نہ پھٹکڑی آپ بن گئے میڈیا انفلوئنسر، اب آپ جو مرضی بکواس میرا مطلب فرمائیے کون مائی کا لعل آپ کو روک سکتا ہے۔

اور آج کے بچے بچیاں حسرت سے دیکھ کر کہتے ہیں ”یہ ادا کار، یہ اینکر، یہ فلاں یہ پہلے ٹک ٹاکر تھا۔ یوٹیوبر تھا۔“ اب اصلی فنکار اداکار اور دانشور صحافی ویلاگرز، یوٹیوبرز تو منہ چھپانے پہ مجبور کر دیے گئے ہیں۔

تو دیکھا اپ نے گدھے گھوڑے کا فرق معدوم کر کے ہر لغو اور بکواسیات کو اپ لوڈ کرنے والا اس ملک میں یوٹیوبر، ٹک ٹاکر اور میڈیا انفلوئنسر بن سکتا ہے، ڈالر کما سکتا ہے۔ کون کہتا ہے یہاں بیروزگاری ہے۔

سیمیں کرن

سیمیں کرن

تعارف ۔۔اصل نام سمیرہ کرن ۔قلمی نام سیمیں کرن ،تعلیم ایم اے ایل ایل بی ۔۔چار افسانوی مجموعے شجر ممنوعہ کے تین پتے ،بات کہی نہیں گئی،مربعوں کی دائرہ کہانی ،سوئی ہوئی لڑکی ، دو ناول ۔خوشبو ہے تو بکھر جائے گی اک معدوم کہانی ۔۔تیسرا ناول زیر طبع ۔۔ کالمز کی تعداد سینکڑوں میں ہے ۔ستر- اسی تجزیاتی مضامین ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button