آپ کا سلاماردو غزلیاترشید حسرتشعر و شاعری

ہم نے اپنی زندگی جن میں گزاری، لوگ تھے

ایک اردو غزل از رشید حسرت

ہم نے اپنی زندگی جن میں گزاری، لوگ تھے
حوصلہ بھی تھے مگر، اوساں پہ طاری لوگ تھے

ہم چُنا کرتے تھے جن کے واسطے اُلفت گلاب
کیا دیا بدلہ، فقط آنسو۔ بھکاری لوگ تھے

آپ نے اچھا کیا جو آج اپنایا ہمیں
بیچ دینا تھا کہ سب کے سب جواری لوگ تھے

ہم کہ سادہ لوح تھے قرآن کو چوما کیے
اور قرآں بیچ کھایا ہے، وہ قاری لوگ تھے

اپنے آبا کی شجاعت کے فسانے یاد ہیں؟
جب کبھی لڑتے تو یہ سو سو پہ بھاری لوگ تھے

ان کی محنت سے ہی سرداروں کا سرداری نظام
خود رہے چھپّر میں بھوکے پیٹ، ہاری لوگ تھے

آج گاڑی ہے مگر جانا گوارا ہی نہیں
سب کے گھر جاتے تھے جب ہم بے سواری لوگ تھے

اپنے بچوں کے لیئے روزی کمانی تھی انہیں
لوگ جو کرتے تھے دن بھر جان ماری۔ لوگ تھے

ڈوب کر قاتل ندی میں دو جواں حسرتؔ مرے
مچھلیوں کے شوق میں آئے شکاری لوگ تھے

رشید حسرتؔ

رشید حسرت

رشید حسرت نے 1981 سے باقاعدہ شاعری کا آغاز کیا۔ ان کی شاعری اخبارات، ادبی رسائل اور کل پاکستان و کل پاک و ہند مشاعروں میں شائع اور پیش ہوتی رہی۔ پی ٹی وی کوئٹہ کے مشاعروں میں ان کی شرکت ان کی تخلیقی شناخت کا آغاز تھی، مگر بعد میں انہوں نے اجارہ داریوں اور غیر منصفانہ رویّوں سے تنگ آ کر اس نظام سے علیحدگی اختیار کی۔ ان کے پانچ شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ سب کے سب اپنی ذاتی جیب سے، جو ان کے خلوص اور ادب سے والہانہ لگاؤ کی علامت ہیں۔ رشید حسرت اس طبقے کے نمائندہ شاعر ہیں جنہوں نے ادب کو کاروبار نہیں بلکہ عبادت سمجھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button