تمھارے عہد و پیماں اور پھر ان سے مکر جانا
سبھی لفاظیاں تھیں ہم نے پھر بھی معتبر جانا
جہاں میں کب کوئی یونہی کسی کے ساتھ چلتا ہے
چلا جو دو قدم بھی ساتھ ہم نے ہم سفر جانا
تمہاری سادہ لوحی سے مجھے یہ بھی شکایت ہے
ملے جو راہ زن ان کو بھی تم نے راہبر جانا
یہ ویرانی، ادھورے خواب، ملبہ آرزوؤں کا
دلِ برباد کو اجڑا ہوا ہم نے کھنڈر جانا
سلیقہ ہم نے سیکھا ایک پروانے سے جینے کا
اجل کی لو پہ رقصِ زیست کرنا اور مر جانا
سعید سعدی