توڑ کے سحر یادِ گزشتہ جشنِ بہاراں کیوں نہ کریں
خواب گلستاں دیکھنے والے عزمِ گلستاں کیوں نہ کریں
رونق بزم اک چیز ہے لیکن اور ہی ساماں کیوں نہ کریں
گھر میں چراغاں کرنے سے حاصل ، دل میں چراغاں کیوں نہ کریں
مست گھٹائیں جام بکف ، مخمور فضائیں توبہ شکن
شانِ کریمی تو ہی بتا پھر جرات عصیاںکیوں نہ کریں
حسن مجسم عشق و محبت عشق سراپا جذب و کشش
میری پریشانی کے فسانے ، ان کو پریشاں کیوں نہ کریں
دیدۂ رخ جاناں کی تلافی یادِ رخ جاناں ہی سہی
شام الم جب رنگ دکھائے ، شمع فروزاں کیں نہ کریں
موسمِ گل ہے ، گل کا جنوں اور گل کا جنوں ہے اپنا جنوں
موسمِ گل میں ہنس ہنس کر ہم چاکِ گریباں کیوں نہ کریں
ان کے بھی آخر سینے میں دل ہے ، دل میں خلش بھی ٹیس بھی ہے
پھر وہ قیدی دردِ محبت پرسش پنہاں کیوں نہ کریں
شکیلؔ بدایونی