آپ کا سلاماردو غزلیاتشعر و شاعری

تہذیب کے دامن کو بشر چھوڑ چلا ہے

بشریٰ سعید عاطف کی ایک اردو غزل

دل ٹھہری ہوئی روح کو جھنجوڑ چلا ہے
تہذیب کے دامن کو بشر چھوڑ چلا ہے

یہ دیپ محبّت کا بجھائے نہ بجھے گا
بد ذات ہواؤں کا یہ رُخ موڑ چلا ہے

وہ دوستوں کے روپ میں نکلا مرا دشمن
طوفان کی زد میں جو مجھے چھوڑ چلا ہے

ہر بات پہ میری جو اُڑاتا ہے تمسخر
ہنستے ہوئے وہ دل کو مرے توڑ چلا ہے

کِس سے مَیں شکایت کروں اِس سنگدلی کی
قسمت کا مری کچا گھڑا پھوڑ چلا ہے

وہ بُھول گیا عہد و وفا کے سبھی پیمان
گردن وہ تمنّاؤں کی جو موڑ چلا ہے

یہ دل بھی طرفدار ہے اُس شخص کا بشریٰؔ
ٹوٹے ہوئے بندھن جو سبھی جوڑ چلا ہے

بشریٰ سعید عاطف

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button