روشنی پہلے جب اس دل پہ پڑی تھی اس کی
تب بھی آئینے سے تمثال بڑی تھی اس کی
لشکرِ کذب مجھے جنگ پر اکساتا تھا
اور مرے رستے میں آواز کھڑی تھی اس کی
یاد آتی ہے تو مصرعے سا لہک جاتا ہوں
آنکھ اس فرطِ تغزل سے لڑی تھی اس کی
تب سمجھ آیا طریقت کے تقاضے کیا ہیں
مہر جس وقت مصلّے پہ پڑی تھی اس کی
تیر اغیار کے سینوں کی طرف تھے اس کے
چشم عشاق کے سینوں پہ گڑی تھی اس کی
سامنے آیا تو ادراک ہوا، پہلے سے
کوئی تصویر مرے دل میں پڑی تھی اس کی
ماہ نور رانا