آپ کا سلاماردو غزلیاترشید حسرتشعر و شاعری

منتظر کوئی نہیں، کون وہاں بیٹھا ہے

رشید حسرت کی ایک اردو غزل

منتظر کوئی نہیں، کون وہاں بیٹھا ہے
راہ تکتا ہے کوئی مجھ کو گماں بیٹھا ہے

سر چھپانے کے لیئے سایہ میسّر نہ ہؤا
اس کی آغوش میں تو ایک جہاں بیٹھا ہے

ہر جگہ اپنی ادا کاری کے جوہر نہ دکھا
اک ذرا یہ بھی رہے دھیان کہاں بیٹھا ہے

سب تری جادو نگاہی کا ہنر دیکھیں گے
کوئی بیٹھا ہے وہاں، کوئی یہاں بیٹھا ہے

کیوں اٹھاتا ہے انہیں، خوفِ خدا ہے کہ نہیں؟
بیٹھا رہنے دے ابھی، جو بھی جہاں بیٹھا ہے

دیکھ مضبوطی میں معمار کا دعویٰ تھا غلط
ایک جھٹکے ہی میں تو سارا مکاں بیٹھا ہے

تُل کے آیا تھا مرا نام مٹانے کے لیئے
کر کے دشمن مرا گم اپنا نشاں بیٹھا ہے

اپنی تقدیر میں تو ٹوٹا ستارا بھی نہیں
بیچنے کو جو یہاں کاہکشاں بیٹھا ہے

آگ وہ دل میں جفاؤں نے لگائی تھی رشیدؔ
جا کے صدیوں میں کہیں آج دھواں بیٹھا ہے

رشید حسرتؔ

۱۵ جنوری ۲۰۲۵ صبح ۰۸ بج ۲۰ پر غزل مکمل ہوئی

رشید حسرت

رشید حسرت نے 1981 سے باقاعدہ شاعری کا آغاز کیا۔ ان کی شاعری اخبارات، ادبی رسائل اور کل پاکستان و کل پاک و ہند مشاعروں میں شائع اور پیش ہوتی رہی۔ پی ٹی وی کوئٹہ کے مشاعروں میں ان کی شرکت ان کی تخلیقی شناخت کا آغاز تھی، مگر بعد میں انہوں نے اجارہ داریوں اور غیر منصفانہ رویّوں سے تنگ آ کر اس نظام سے علیحدگی اختیار کی۔ ان کے پانچ شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ سب کے سب اپنی ذاتی جیب سے، جو ان کے خلوص اور ادب سے والہانہ لگاؤ کی علامت ہیں۔ رشید حسرت اس طبقے کے نمائندہ شاعر ہیں جنہوں نے ادب کو کاروبار نہیں بلکہ عبادت سمجھا۔

2 تبصرے

  1. جن احباب کو میرا یہ ٹوٹا پھوٹا کلام اچھا لگے اپنی رائے سے ضرور نوازیں۔ اگرچہ پچاس سے شعر و سخن سے وابستگی ہے تاہم اب بھی احباب کی رائے اور مشورے مقدم رکھتا ہوں تاکہ شعروں مزید نکھار لانے کی راہیں ہموار ہوں۔ احباب کی پذیرائی ہمارا انعام اور قیمتی اثاثہ ہے۔ بہت شکریہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button