محبت تُم نے کب کی ہے!
محبت میں نے کی ہے جانِ جاں
تم سے
تمھاری آرزو سے ، جس کے ریشم سے
تمھاری سر مئی خوشبو نے گرہیں باندھ رکھی ہیں
یہ گرہیں ہاتھ کی پوروں میں آ آ کر
پھسلتی ہیں مگر کھلتی نہیں جاناں!
طلسم خامشی ٹوٹے تو یہ گرہیں بھی کھل جائیں
جو آنکھیں ہجر کی مٹّی میں مٹّی ہو رہی ہیں
وہ بھی دھُل جائیں
محبت تم نے کب کی ہے
محبت تم نے کب کی ہے!
محبت میں نے کی ہے
تم نے تو بس خامشی کی اوک میں رکھ کر
کچھ اپنے لمس کے مصرعے مرے دل میں اتارے ہیں،لبِ نم ساز کے نم میں کئی نظمیں بھگو کر میرے شانوں پر بکھیری ہیں
محبت تم نے کب کی ہے
محبت میں نے کی ہے
تم نے تو بس اپنی آنکھوں، دور تک اسرار میں ڈوبی ہوئی اِک شام جیسی سرد آنکھوں میں مجھے تحلیل کرنا تھا سو میں بھی ایک بے وقعت سے لمحے کی طرح اب تک تمھارے پاؤں کی مٹی سے لپٹا ہوں نہ تم نے پاؤں کی مٹی کو جھٹکا ہے نہ اُس بے وقعت و بے مایہ
لمحے کو اُٹھا کر اپنی پیشانی پہ رکھا ہے
تمھاری خامشی کی اوک میں
میرے لیے کیا ہے!
سبھی کچھ ہے مگر اقرار کی جھلمل نہیں ہے
سمندر موجزن ہے اور کوئی ساحل نہیں ہے
محبت تم نے کب کی ہے
محبت تم نے کب کی ہے
محبت میں نے کی ہے جانِ جاں، تم سے
تمھارے رنگ سے، رنگوں کی دنیا سے
تمھاری خوب صورت ان سلی سی گفتگو کے خاص جادو سے
تمھارے منفرد لہجے کی گہری دھند سے
اس دھند کے اندر ٹھٹھرتے جھوٹ سچ سے، جھوٹ سچ اور مصلحت سے، مصلحت کی سبزکائی سے کہ جس کائی کی گیلی، سرد سطحوں پر مری اس عمر کے سردار لمحے ثبت تھے اور اب ہَوا میں خواب بن کر اُڑ رہے ہیں ،وہ مری اس عمر کے سردار لمحے ، اب جنھیں تیرے لب و رخسار کی آب و ہَوائے سبز سے بے دخل کر ڈالا ہے تیری سرد مہری نے
مگر پھر بھی نہ جانے کیوں
یہ دل یہ زرد مٹّی میں گندھا دل کیوں تری بے مہریوں کی کھوج میں رہتا ہے، کیوں آخر!
تمھیں معلوم ہے
آخر یہ بے وقعت سا دل اب بھی
تمھارے پاؤں کے ناخن سے کیوں ہر بار چھلتا ہے
تمھیں معلوم ہے جاناں!
ایوب خاور