ستائیسویں آئینی ترمیم: اصلاحات کا نیا باب
پاکستان کا آئین ایک ایسی دستاویز ہے جو صرف قانون نہیں بلکہ قوم اور ریاست کے درمیان ایک عہد کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ عہد وقت کے ساتھ بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھالتا رہتا ہے۔ ملک کے حالات، اداروں کی ضروریات اور عوامی توقعات کے پیشِ نظر آئینی اصلاحات ہمیشہ سے قومی سفر کا حصہ رہی ہیں۔ ستائیسویں آئینی ترمیم بھی اسی تسلسل کی ایک تازہ کڑی ہے جس پر گفتگو اور اختلاف دونوں جاری ہیں۔
ترمیم کے حق میں یہ دلیل دی جا رہی ہے کہ ریاستی اداروں کے درمیان ہم آہنگی، عدالتی اصلاحات اور انتظامی کارکردگی کے لیے کچھ بنیادی تبدیلیاں ناگزیر ہو چکی ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے عدالتوں میں لاکھوں مقدمات زیرِ سماعت ہیں، عوام کو انصاف کے لیے برسوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ عدالتی ڈھانچہ اپنی ساخت کے لحاظ سے کمزور ہو چکا ہے اور اسے بہتر بنانا وقت کی ضرورت بن گیا ہے۔
ماہرین قانون کی رائے ہے کہ اگر عدالتوں میں نچلی سطح پر انتظامی عدل کے نظام کو بحال کیا جائے تو اعلیٰ عدلیہ کا بوجھ کم ہو سکتا ہے۔ ایگزیکٹو مجسٹریٹ کے نظام کو اسی تناظر میں دوبارہ لانے کی بات ہو رہی ہے۔ اس سے نہ صرف عوامی سطح پر فوری نوعیت کے معاملات حل ہو سکیں گے بلکہ ضلعی انتظامیہ کو بھی اپنے اختیارات کے استعمال میں آسانی ملے گی۔ بعض حلقے اسے اختیارات کی مرکزیت کے بجائے اختیارات کی تقسیم سمجھتے ہیں، جو مقامی سطح پر گورننس کو بہتر بنا سکتی ہے۔
یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ وفاقی حکومت مالیاتی نظم و نسق میں اصلاحات پر زور دے رہی ہے۔ قومی وسائل کی منصفانہ تقسیم ہمیشہ سے ایک حساس مسئلہ رہا ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد بہت سے اختیارات صوبوں کو منتقل ہوئے، لیکن وفاق کے ذمے اب بھی قومی سطح کے منصوبے، دفاع، قدرتی آفات سے نمٹنے اور پائیدار ترقی کے اہداف جیسے بڑے چیلنجز موجود ہیں۔ اگر مالیاتی تقسیم کے نظام میں معمولی ردوبدل سے وفاق کو بہتر منصوبہ بندی اور ادارہ جاتی استحکام حاصل ہوتا ہے تو اسے محض مرکزیت نہیں بلکہ توازن کی کوشش سمجھا جانا چاہیے۔
آئینی ترمیم کا ایک اور پہلو عدلیہ کی تنظیمِ نو سے متعلق ہے۔ ترمیم کے تحت ممکنہ طور پر اعلیٰ عدلیہ میں انتظامی کارکردگی، مقدمات کے فوری تصفیے اور شفاف احتساب کے لیے نئے اصول وضع کیے جا سکتے ہیں۔ اس سے عدلیہ کی خودمختاری برقرار رکھتے ہوئے اس کے نظم کو مؤثر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ عدلیہ کی مضبوطی دراصل جمہوری استحکام کا ضامن ہے، کیونکہ انصاف ہی وہ ستون ہے جس پر ریاست کا پورا ڈھانچہ قائم ہوتا ہے۔
کچھ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ ترامیم اختیارات کے توازن میں تبدیلی پیدا کریں گی اور بعض اداروں کو غیر ضروری اثرورسوخ حاصل ہو سکتا ہے۔ لیکن ان خدشات کے باوجود ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو سمجھتی ہے کہ اصلاحات کا مقصد کسی ادارے کو کمزور کرنا نہیں بلکہ نظام کو زیادہ متوازن اور عوام دوست بنانا ہے۔ آئین ایک جمود کا شکار نہیں رہ سکتا۔ جب معاشرہ بدلتا ہے تو آئینی ڈھانچے میں بھی نئی روح ڈالنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر ترمیم کے ساتھ عوام کے ذہنوں میں سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ یہ سوالات فطری ہیں کیونکہ آئین براہِ راست عوام کی زندگی سے جڑا ہوا معاملہ ہے۔ لیکن اگر یہ تبدیلیاں وسیع مشاورت، پارلیمانی بحث، اور عوامی اعتماد کے ساتھ کی جائیں تو ان پر اتفاقِ رائے پیدا ہو سکتا ہے۔ شفاف مکالمہ اور قومی سطح پر مشاورت ہی وہ عمل ہے جو کسی بھی آئینی ترمیم کو مستحکم بنیاد فراہم کرتا ہے۔
پاکستان کے آئینی سفر میں یہ مرحلہ ایک موقع بھی ہے اور امتحان بھی۔ موقع اس لیے کہ ہم اپنے نظام کو وقت کے تقاضوں کے مطابق ڈھال سکتے ہیں، اور امتحان اس لیے کہ ہمیں اس عمل کو غیرسیاسی، منصفانہ اور عوامی مفاد کے تابع رکھنا ہوگا۔ کسی بھی ریاست کی طاقت اس کے آئین کی عمل داری میں پوشیدہ ہوتی ہے، اور جب آئین کے اندر اصلاحات عوامی اعتماد کے ساتھ کی جائیں تو وہ قوم کے لیے استحکام اور ترقی کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ ستائیسویں آئینی ترمیم محض ایک قانونی تبدیلی نہیں بلکہ ریاستی توازن اور ادارہ جاتی ہم آہنگی کی ایک کوشش ہے۔ اگر یہ ترمیم مکالمے، شفافیت اور قومی اتفاقِ رائے کے ساتھ آگے بڑھتی ہے تو یہ پاکستان کے آئینی ارتقا میں ایک نیا باب کھول سکتی ہے۔ مضبوط ادارے، متوازن اختیارات اور منصفانہ نظامِ انصاف ہی ایک ایسے پاکستان کی بنیاد رکھ سکتے ہیں جہاں قانون کی بالادستی صرف کتابوں میں نہیں بلکہ عوام کی زندگیوں میں نظر آئے۔
یوسف صدیقی







