خود لذتی
حسیں سرزمیں ،
میرے ذہنی تَصور کی عظمت میں لپٹی،
بلاتی ہے مجھ کو
کِسی کوہِ قفقاز پر جیسے پریاں
کسی دیو کی قید میں گُنگناتی ہیں مجھ کو
مگر ہم کہانی سے باہر کے مجنوں سمجھتے کہاں ہیں ؟
کہ گِرتی ہوئی آبشاروں کی اپنی روانی
کسی اصل کے ساتھ بہنے سے ہوگی
رُکی ندیوں کی تو کوئی کہانی نہیں ہے
کہانی سدا بہتے دریاوں کے ساتھ رہنے سے ہوگی
خیالوں کی کھائی میں گُل کِھل بھی جائیں
تو بے اعتنائی کے کیڑوں کے انبار رس چوستے ہیں
ابھی سبز شاخوں کے گُچھے ہُویدا ہوئے ہی نہیں تھے
کہ وحشی تھپیڑے گِرانے کو پر تولتے ہیں
مگر مُصحفِ رُخ کو پڑھنے کی خاطر
زمیں ناپتے
چل رہے ہیں مسافر،
کسی دشت میں
قیس کے روپ میں بے تکاں دوڑتے ہیں
غضب ہے کہ بے مقصدیت کا کوئی سِرا ہاتھ آتا نہیں ہے
کہ سر پھوڑنے کے جنوں کو کوئی آزماتا نہیں ہے
روایت پرستوں سے باغی
ہوئی رات کی رانیاں
اب کسی اور کے عشق سے منحرف ہیں
وہ اپنی ہی دِیوار کو چاٹ کر
خود فریبی سے مرنے لگی ہیں
کہ خودلذتی کے یہ بچھو
وہ اپنے ہی دستِ تمنا پہ دھرنے لگی ہیں
عرفان شہود