- Advertisement -

جدید اُردو مرثیہ

چند حقائق، چند معروضات از ڈاکٹر سیّد شبیہ الحسن

شعر و ادب میں ایسے واقعات زیادہ اہم قرار پاتے ہیں جو انسان کی اجتماعی زندگی اور معاشرت پر براہ راست اثرانداز ہوتے ہیں۔ واقعۂ کربلا محض ایک تخئیلی داستان نہیں بلکہ اس واقعے میں معاشرت کرنے کے اعلیٰ اقدار مل جائیں گے۔ یہی سبب ہے کہ دوسرے تاریخی واقعات کی بہ نسبت واقعۂ کربلا نے انسانی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ حق گوئی، مظلومیت اور تمرّد کے خلاف جہاد کرنا، یہ ایسے اعلیٰ اقدار ہیں جنہوں نے نہ صرف یہ کہ معاشروں کو متاثر کیا بلکہ اس کے اثرات ادب و شعر پر بھی مرتسم ہوئے۔ (۱) یہی سبب ہے کہ اعلیٰ قدروں کی ترویج کے لئے کربلا کو استعارہ بنایا گیا (۲) اور ان استعاروں اور تلازموں سے نہایت عمدہ اور کارگر شہ پارے تخلیق کئے گئے۔ (۳، ۴)
معروف و غیر معروف ناقدین، محققین اور دانشوروں کی جانب سے بالعموم یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ واقعۂ کربلا نے مختلف اصنافِ شعر و ادب کو متاثر کیا، بطور ثبوت غزل، داستان، افسانہ، مثنوی، ناول، نظم، ناولٹ، سفر نامہ، رپورتاژ اور دیگر اصناف میں سے چیدہ چیدہ مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ واقعۂ کربلا نے محض شعر و ادب ہی کو متاثر نہیں کیا بلکہ اُردو شاعری کو متعدد اصناف سے مالا مال بھی کیا۔ آپ سلام، نوحہ اور مرثیہ کا بغور مطالعہ فرمائیے اور اس سوال کا کھوج لگائیے کہ کیا واقعہ کربلا کے بغیر ان اصناف کا ظہور میں آنا ممکن تھا؟؟ صنفِ مرثیہ وہ ممتاز صنف ہے، جس کا خمیر اسی برصغیر میں تیار ہوا اور یہی وہ صنف ہے کہ جس میں اُردو کے بیشتر اصناف کے محاسن کا جوہر مل جاتا ہے۔ (۵) اس اعتبار سے کہا جا سکتا ہے کہ مرثیے کی صنف کو برصغیر پاک و ہند سے جو خصوصیت ہے وہ کسی دوسری صنف کو حاصل نہیں ہے۔ اسی طرح کہا جا سکتا ہے کہ سلام و نوحہ بھی صنفِ مرثیہ کی توسیع ہیں۔
مرثیہ، سلام اور نوحے کے اصناف ہر عہد میں اس لئے مقبولِ خاص و عام رہے کہ ان میں زندگی کی اعلیٰ قدریں پیش کی جاتی رہیں اور اسی سبب سے ان کے ذریعے اعلیٰ تر معاشرتی رویّے ظاہر ہوئے۔ آج بھی مذکورہ اصناف میں واقعۂ کربلا کے حوالے سے زندگی بسر کرنے کے بہترین تصورات مل جائیں گے۔ (۶) واقعۂ کربلا کا یہ فیضان ہے کہ ا س نے ایک سطح پر تو انسان کا تعلق خدا سے اور دوسری سطح پر انسان کا تعلق اعلیٰ تر معاشرتی اقدار سے جوڑ دیا ہے۔ عصرِ حاضر میں ایسے شعراء کی ایک کثیر تعداد موجود ہے، جو ان اصناف کے حوالے سے معاشرے میں مثبت اقدار کو فروغ دینے میں مصروف ہے۔
لکھنو برصغیر کی تہذیب و ثقافت کا سب سے بڑا مرکز تھا، یہی سبب ہے کہ جملہ فنونِ لطیفہ یہاں اوجِ کمال تک پہنچے۔ نثر ہو یا شاعری، یہاں کے تخلیق کاروں نے ہر میدان میں اپنی صناعانہ تخلیقی ہنر مندیوں کا ثبوت دیا۔ فن کے اظہار کے لئے نئے نئے راستے تلاش کئے جانے لگے۔ (۷) خارجیت اور ڈرامائی عناصر کے امتزاج سے لکھنؤ میں ایک منفرد شعری فضا تشکیل پانے لگی۔ (۸) اسی صورتِ حال میں خارجیت، ڈرامائی عناصر اور واقعۂ کربلا کے مثلث نے صنفِ مرثیہ کا تخلیق نامہ مرتب کیا۔ برصغیر کی سرزمین کا طرزِ احساس اور اس کے تہذیبی اثرات نیز عرب کے تاریخی واقعات و عوامل انیس و دبیر کے مرثیوں میں یکجا ہو کر فن کی انتہائی بلندیوں کو چھونے لگے۔ ان دونوں حضرات نے مرثیے کے تخلیقی امکانات کو وسیع کیا(۹) اور اپنے بہترین افکار کو اپنے متنوع اسالیب میں پیش کر کے ہر عہد کے شعراء کو متاثر کیا۔ (۱۰) تا اینکہ یہ سلسلہ آج بھی جار ی ہے۔ انیس و دبیر نے برصغیر کے تہذیبی عناصر کو جس طرح اپنے مرثیوں میں محفوظ کیا تھا، اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ ان کے مرثیوں کے مطالعے سے ہم آج بھی برصغیر کی اسلامی تہذیب و ثقافت کا کھوج لگا سکتے ہیں۔ (۱۱)
بیسویں صدی میں ہندوستانی معاشرت پر طرح طرح کے بین الاقوامی سیاسی، سماجی، مذہبی اور معاشی اثرات مرتب ہو رہے تھے۔ انیس و دبیر کا لکھنؤ زوال آمادہ تھا اور عظیم تہذیبی روایات دم توڑ رہی تھیں۔ تاہم بقول سیّد عاشور کاظمی :
‘‘۱۸۵۷ء کے بعد اودھ کی تہذیب کو مٹانے کی کوششوں کے باوجود لکھنو گہوارۂ علم و ادب تھا … میر انیس کا شہر لکھنو، رثائی ادب کا شہر لکھنو، تہذیبِ سیادت کا شہر لکھنو، وہ شہر جو دماغ وضع کرتا تھا۔ وہ شہر جو پتھروں کو دل بنا دیتا تھا۔ (۱۲)
دانش مند کہتے ہیں کہ جب چراغ بجھنے لگتا ہے تو اس کی لَو تیز ہو جاتی ہے۔ کچھ یہی صورتِ حال لکھنو میں بھی تھی کہ زوال آمادگی کے باوجود یہاں متداولہ علوم و فنون ترقی کر رہے تھے اور یہاں کی چمک دمک نوواردان کی آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھی۔
بیسویں صدی کے آغاز ہی میں مختلف تاریخی، سیاسی، سماجی اور معاشی اسباب کی بنا پر برصغیر پاک و ہند کے معاشرے میں شکست و ریخت کے آثار ظاہر ہونے لگے تھے۔ اس حوالے سے پہلے ڈاکٹر سجاد باقر رضوی کی رائے ملاحظہ فرمائیے
‘‘…انگریز حاکم ہندوستان کی محکوم اور ‘‘وحشی’’ رعایا کو زیادہ سے زیادہ ‘‘متمدّن’’ بنانا چاہتے تھے تاکہ ان کا معیار زندگی اعلیٰ سطح پر آ جائے اور نتیجتاً وہ ان اشیائے تجارت کی کھپت کر سکیں جو انگلستان کی ملوں میں تیار ہوتی ہیں۔ ‘‘(۱۳)
اس معاشرتی بے کلی اور ٹوٹ پھوٹ کا نتیجہ یہ بر آمد ہوا کہ پورے معاشرے میں اب کیا ہو گا …؟؟؟ کے اندیشے پائے جانے لگے۔ اس صورت حال نے دوسرے دوائر کی طرح ادب کے دائرے کو بھی متاثر کیا۔ سر سید نے تہذیب الاخلاق کے اجرا سے اپنے تئیں معاشرے کو سدھار لیا جبکہ حالی نے مسدس مد و جزرِ اسلام لکھ کر تہذیب الاخلاق کی منظوم شرح کر کے سرسید سے حق دوستی ادا کر دیا۔ (۱۴) آپ اس دور کے شعر و ادب کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ گومگو اور پژ مردہ صورت حال کے سبب سے شعر و ادب میں ایک طرف تو مایوسی، اضمحلال اور تھکن کا لہجہ ظاہر ہوا اور دوسرے رخ پر اس کے ردِ عمل میں ایک تند و تیز، گھمبیر اور دبنگ لہجہ معرضِ وجود میں آ گیا۔ ان دونوں لہجوں کا مطالعہ کیجئے تو یہ ایک ہی جیسے حالات کا نتیجہ ثابت ہوں گے۔ اس زمانے میں سیاسی اور معاشی صورت حال کی وجہ سے شعر و ادب میں بھی ایک زبردست مزاحمت اور احتجاج کی کیفیت پیدا ہو رہی تھی(۱۵)۔ بیشتر اصناف اپنا اپنا چولا بدل رہے تھے۔ چنانچہ مرثیے نے بھی عصری مسائل کو جذب کیا۔ (۱۶)یہی سبب ہے کہ بیسویں صدی کے بیشتر مسائل آپ کو اس زمانے کے مرثیوں میں ضرور ملیں گے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر ہلال نقوی کی رائے بھی ملاحظہ فرما لیجئے :
‘‘… بیسویں صدی میں مرثیے کا نیا سفر برصغیر کے اس زوال پذیر معاشرے کی دہلیز سے شروع ہوتا ہے جس میں فیوڈل سسٹم کے نئے جال بنے جا رہے تھے اور انگریزوں کی حاکمیت اس خطے میں اپنے نظام فکر کے بیج بو رہی تھی۔ (۱۷)’’
بیسویں صدی کا سورج نئے نظریات و میلانات لے کر طلوع ہوا اور خصوصاً مغربی اصناف کے حوالے سے اُردو اصناف میں جدید افکار و نظریات کی ضرورت کا احساس پیدا ہونے لگا۔ (۱۸) مغربی تہذیب نے اپنی رنگارنگی کی وجہ سے اہلِ مشرق کی آنکھوں کو خیرہ کر دیا تھا۔ یہی سبب ہے کہ سوچ اور فکر کے مروجہ معیارات تبدیل ہونے لگے۔ پرانے پیمانے بوسیدہ قرار دیئے گئے اور اب نئے شعری پیمانوں میں جدید شراب کی ضرورت محسوس ہونے لگی۔ شعر و ادب کا تعلق فرد سے زیادہ معاشرے سے جوڑا جانے لگا اور اجتماعی لب و لہجہ کو اہمیت ملی۔ (۱۹) نتیجتاً قومی اور ملی شاعری کو عروج حاصل ہوا اور مذہبی مرثیوں کی جگہ قومی اور شخصی مرثیوں نے لے لی، اقبالؔ، نظم طباطبائی، صفی لکھنوی، ریاض خیرآبادی، اثر لکھنوی اور چکبست لکھنوی وغیرہ نے قومی اور ملی مرثیوں کے ذریعے ملت کو بیدار کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ (۲۰) اس طرح مرثیے کا رشتہ قومی شاعری سے جڑ گیا۔ بعض ناقدین نے اس منظر نامے کے حوالے سے سطحی بنیاد پر یہ فیصلہ صادر کر دیا ہے کہ اس عہد میں ‘‘مذہبی مرثیہ’’ کو زوال آ گیا تھا (۲۱) مگر حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔ (۲۲) اگر آپ بنظر غائر دیکھیں تو قومی اور ملی مرثیے بھی دراصل اسی روایتی مرثیے کا ایک جدید رُوپ ہیں۔ اب اس حوالے سے صرف دو بند ملاحظہ فرمائیے اور مذہبی مرثیے کا اثر شخصی اور ملی مرثیہ پر ملاحظہ کیجئے؎

علم کی سنجیدہ گفتاری، بڑھاپے کا شعور
دنیوی اعزاز کی شوکت، جوانی کا غرور
زندگی کی اوج گاہوں سے اتر آتے ہیں ہم
صحبت مادر میں طفلِ سادہ رہ جاتے ہیں ہم
بے تکلف خندہ زن ہیں، فکر سے آزاد ہیں
پھر اسی کھوئے ہوئے فردوس میں آباد ہیں
(علامہ اقبالؔ)

یہ جوش پاک زمانہ دبا نہیں سکتا
رگوں میں خوں کی حرارت مٹا نہیں سکتا
یہ آگ وہ ہے جو پانی بجھا نہیں سکتا
دلوں میں آ کے یہ ارمان جا نہیں سکتا
طلب فضول ہے کانٹے کی پھول کے بدلے
نہ لیں بہشت بھی ہم ‘‘ہوم رول’’ کے بدلے
(چکبستؔ لکھنوی)

بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں پوری دنیا میں عموماً اور مختلف اسباب کی بناء پر ہندوستان میں خصوصاً اجتماعی شعور بیدار ہو رہا تھا۔ ایسے لائحہ عمل مرتب کئے جا رہے تھے، جن سے معاشرتی سطح پر انقلابی تبدیلیاں لائی جا سکیں۔ (۲۳) اس حوالے سے مظلوم دیسی عوام کے اوپر کئے گئے مظالم کو مختلف سطحوں پر پیش کر کے سامراجی استبداد اور ظالمانہ حیثیت کو خوب اُبھارا جا رہا تھا۔ ترقی پسند تحریک کے آغاز کے بعد عوام الناس میں ایک انقلابی رجحان پیدا کرنے کے لئے واقعہ کربلا اور حضرت امام حسین علیہ السلام کو ایک علامت کے طور پر پیش کیا جانے لگا تھا۔ (۲۴) اس روّیے کو مرثیہ گو شعراء بھی محسوس کر رہے تھے۔ (۲۵)دولہا صاحب عروج کے مرثیے کا یہ شعر اس عہد کے بدلتے ہوئے رجحانات و میلانات کی نمائندگی کرتا ہے؎
ظلمت کدے میں ہوں پہ تجلی پسند ہوں
میں ہوں عروجؔ کیوں نہ ترقی پسند ہوں
اس سیاسی، سماجی اور معاشرتی صورتِ حال کا اُردو مرثیے کی ہئیت پر تو زیادہ اثر نہ ہو سکا لیکن موضوعات اور مواد کے اعتبار سے اس میں دُور رس تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ خاص طور پر شہادتِ امام حسین علیہ السلام کے بعد کے حالات و واقعات کو بطورِ خاص مرثیوں میں جگہ دی جانے لگی اور پیغامِ امام عالی مقام کی تشہیر ہی اس کا بنیادی موضوع قرار پایا۔ (۲۶) اس سلسلے میں آلِ رضا، نجم آفندی، نسیم امروہوی، جمیل مظہری، علی سردار جعفری اور جوش ملیح آبادی نے جس طرح مرثیے کو مقصدی لے عطا کی اور اس صنف کو جدید عصری تقاضوں کے عین مطابق ڈھالنے کی کوشش کی، اس کی جتنی بھی مدح کی جائے کم ہے۔ آلِ رضا اور جمیل مظہری نے مرثیے کے مزاج و مذاق میں تبدیلی پیدا کرنے کی کوششیں کیں۔ (۲۷) جوش نے انفرادی طور پر مرثیے کو رولانے کی بجائے جگانے کا ہتھیار بنایا۔ (۲۸) نسیم امروہوی نے زبان و بیان کی نزاکتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مرثیے میں ہئیت کے کامیاب تجربے کئے۔ (۲۹) اس طرح ان قد آور مرثیہ نگاروں کی کاوشوں کے نتیجے میں مرثیے کو ایک مرتبہ پھر عروج حاصل ہوا اور فنی و فکری ہر لحاظ سے یہ صنف دوسرے وقیع اصناف کے مقابل آن کھڑی ہوئی۔ ان معروف مرثیہ نگاروں کے درج ذیل بندوں کا مطالعہ کیجئے اور دیکھیئے کہ اس زمانے میں مرثیہ کس طرح اپنے اندر عصری شعور کے سبب تبدیلی پیدا کر رہا تھا؎

اہلِ زمیں کی چاند ستاروں پہ ہے نظر
ممکن ہے کامیاب رہے چاند کا سفر
ہیں اپنی اپنی فکر میں ہر قوم کے بشر
مردانِ حق پرست کا جانا ہوا اگر

عباسؑ نامور کا علم لے کے جائیں گے
ہم چاند پر حسینؑ کا غم لے کے جائیں گے
(نجم آفندی)

اے قوم وہی پھر ہے تباہی کا زمانہ
اسلام ہے پھر تیر حوادث کا نشانہ
کیوں چُپ ہے اسی شان سے پھر چھیڑ ترانہ
تاریخ میں رہ جائے گا مردوں کا فسانہ

مٹتے ہوئے اسلام کا پھر نام جلی ہو
لازم ہے کہ ہر فرد حسینؑ ابنِ علیؑ ہو
(جوشؔ ملیح آبادی)

حضرت نے کہا کہ رونے والو!
اب چپ رہو دل ذرا سنبھالو
اشکوں کا وفور ہو تو ٹالو
ہمت سے یہ بارِ غم اُٹھا لو
پیغامِ مشیّت آ گیا ہے
ہنگامِ وصیّت آ گیا ہے
(نسیم ؔ امروہوی)

ان جدید مرثیہ نگاروں کا لگایا ہوا تخم ثمر دار ہوا اور بہت سے ایسے مرثیہ نگار ظاہر ہوئے جنہوں نے اپنے افکار عالیات کے ذریعے اس صنف کو مالا مال کیا۔ یہی سبب ہے کہ اس دور میں ہر قابلِ قدر شاعر نے صنفِ مرثیہ میں طبع آزمائی کی۔ ان شعراء میں قمر ؔ جلالوی، شوکتؔ تھانوی، علامہ محسن اعظم گڑھی، ڈاکٹر یاور عباسؔ، راجہؔ صاحب محمود آباد، عزمؔ جونپوری، رئیسؔ امروہوی، راغبؔ مراد آبادی، ڈاکٹر صفدرؔ حسین، کرار نوریؔ اور فیض احمد فیضؔ کے اسمائے گرامی بطور خاص اہمیت کے حامل ہیں۔
موجودہ دور ذہنی و فکری انتشار کا دور ہے۔ جب معاشرے میں منتشر قوتیں فروغ پا رہی ہوں تو انسان اپنے اندر سمٹنا شروع کر دیتا ہے۔ چیزوں میں اختصار کی ضرورت محسوس ہونے لگتی ہے اور اصنافِ شعر بھی مختصر سے مختصر ترین ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ معاشی مسائل، سماجی حالات اور اندرونی بے چینیاں بھی انسان کو بے کل کر دیتی ہیں۔ اب قارئین ان اصنافِ ادب و شعر کو اہمیت دیتے ہیں، جو ان کے عصری مسائل سے ہم آہنگ ہوں اور ان کے مسائل کا تسلی بخش حل پیش کر سکیں۔ مرثیہ بھی ان عمرانی حالات سے دوچار ہوا مگر اپنے مزاج کے سبب اس صنف نے جلد ہی عمرانی تقاضوں کو سمجھا اور اپنے اندر تبدیلیوں کی اجازت دے دی۔ (۳۰) نتیجتاً موجودہ مرثیہ نگاروں نے مرثیے میں جدید نفسیاتی، سماجی اور سیاسی مسائل کو نہ صرف یہ کہ پیش کیا بلکہ ان کے حل کے لئے نسخے بھی تجویز فرمائے۔ عہدِ جدید میں صباؔ اکبر آبادی، شاہدؔ نقوی، سہیلؔ بنارسی، شائقؔ زیدی، ساحر لکھنوی ؔ، ڈاکٹر عاصی کرنالی، خیال امروہوی، مظفر نقوی، سردارؔ نقوی، ظہوؔ جارچوی، وحیدالحسنؔ ہاشمی، سیفؔ زلفی، عبدالرؤف عروجؔ، افسر عباسؔ زیدی، ظفر شاربؔ، اثرؔ ترابی، حسن عسکریؔ کاظمی، اثرؔ جلیلی، سید فیضیؔ، ہلالؔ نقوی، امیدؔ فاضلی، قسیم ؔ امروہوی، اسیرؔ فیض آبادی، شیداؔ حسن زیدی، میر رضیؔ میر، عارفؔ امام، احمد نویدؔ، کوثرؔ امروہوی، عرفی ہاشمی، علی رضا کاظمی، حشمت علی قنبر، طاہر ناصر علی وغیرہ کے مرثیوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ ان شعراء نے فنی اور فکری سطح پر مرثیے کو عہد جدید سے پیوست کر دیا ہے۔ (۳۱) بیسویں صدی کے آخر میں جس شاعر نے مرثیے میں فکر انگیز اور اجتہادی تبدیلیاں کیں اور اسے مقبولِ خاص و عام بنایا (۳۲) وہ قیصرؔ بارہوی تھے۔ انہوں نے مرثیے کو واقعۂ کربلا کی خیرہ کر دینے والی روشنی میں ایک عالی شان فتح کا نقارہ بنا دیا ہے؎

کربلا جس کی بلندی ہے وہ مینارہ ہے
مرثیہ سب سے بڑی فتح کا نقارہ ہے

عصرِ حاضر کے انحطاط پذیر معاشرے میں اخلاقی قدروں کی آبیاری کرنا کسی جہاد سے کم نہیں ہے۔ مخرب اخلاق رسوم و رواج نے لوگوں کو ذہنی طور پر ماؤف بلکہ مفلوج کر دیا ہے۔ افراد معاشرے اور معاشرہ فرد سے لاتعلق ہو کر رہ گیا ہے۔ یہ صورتِ حال ہمارے دور میں اِس لیے مزید لائق توجہ ہو گئی ہے کہ اب عوام الناس کا ادب اور ادیبوں سے اعتبار اُٹھتا جا رہا ہے۔ ایک عام تاثر یہ ہے کہ ہمارا شعر و ادب معاشرتی تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے لہٰذا اس کا مطالعہ اپنے قیمتی وقت کا ضیاع ہے۔ اس طرزِ احساس کا اثر ہمارے مرثیہ نگاروں پر بھی ہوا ہے۔ ایک جدید مرثیہ نگار کے درج ذیل پانچ بندوں کا مطالعہ فرمائیے اور بدلتے ہوئے ادبی حالات اور قوانین کا ذہنی بصیرت و بصارت سے تجزیہ فرمائیے :

سائنس کا ادیب نے دیکھا جو ارتقا
ٹیکنالوجی کو اپنا مقابل سمجھ لیا
یوں کشمکش کی زد میں ادب کا سفر ہوا
آندھی سے شب کی جنگ ہوئی بجھ گیا دیا
کل جو ادب تھا ابرِ گہر بار کی طرح
اب بانجھ ہے لُٹے ہوئے بازار کی طرح

بتلائیں جو ہیں آج کی دنیا سے بے خبر
وہ کیا ہے جس کو کہتے ہیں تخلیق کا سفر
ہٹ جائے راستے سے تو یوں ہے وہ راہبر
جس طرح کور چشم کی سورج پہ ہو نظر
اِک داغ ہے وہ دامنِ افکار کے لیے
تخلیق جس ادب کی ہو بازار کے لیے

دلچسپ کس قدر ہے تماشائے زندگی
راہِ عمل سے کٹ کے کہاں جائے زندگی
ایسے ادب سے خود کو جو بہلائے زندگی
عبرت کے مدفنوں میں نظر آئے زندگی
کیا زندگی کا ایسے ادب سے نباہ ہو
فٹ پاتھ جس کی آخری آرام گاہ ہو

ایسا ادب کہ جس میں پیامِ عمل نہ ہو
دامن میں مسئلے ہوں مگر ان کا حل نہ ہو
تاریک جس کی آج ہو، تابندہ کل نہ ہو
کس طرح اس کی تاک میں دیوِ اجل نہ ہو
اس زیست کو اجل کی ضرورت شدید ہے
کاہل کی موت قوم کے حق میں مفید ہے

جب منزلِ عمل سے ہوا دُور یہ ادب
ہر زاویے سے ہو گیا مقہور یہ ادب
بھٹکے ہوئے شعور کا منشور یہ ادب
اُجرت عذابِ زیست ہے مزدور یہ ادب
اُجڑا ہوا ہے مصر کے بازار کی طرح
تاریک ہے یزید کے کردار کی طرح
(سیّد عرفی ہاشمی)

دانش مندوں کا کہنا ہے کہ اب یہ وسیع و عریض دنیا گلوبل ولیج اور گلوبل ہٹ سے سمٹتی ہوئی آنکھ کی پتلی میں سما گئی ہے۔ اس صورتِ حال میں ہمارے ادب اور خصوصاً مرثیے کو بین الاقوامی صورتِ حال کے مطابق ہونا چاہیے۔ اب ہماری زندگی کا مدار تبدیل ہو رہا ہے۔ اخلاقیات کی سرحدیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ معیشت کا جن بوتل سے باہر نکل آیا ہے اور ٹیکنالوجی کی برق رفتار ترقیوں نے انسانی ذہن کے معیارات کو مسمار کرنا شروع کر دیا ہے۔ آئیے ایک نوخیز مرثیہ نگار کے خیالات سے آپ کو آگاہ کر دوں :
‘‘اس حقیقت سے انحراف ممکن نہیں کہ عالمی ادب، پاکستانی ادب اور پاکستانی ادب میں رثائی ادب کے قارئین کی تعداد روز بروز کم ہو رہی ہے۔ مجھے اس امر کا بخوبی احساس ہے کہ ہمارے تہذیبی تشخص کی بنیاد اب شعر و ادب پر نہیں بلکہ معیشت اور ٹیکنالوجی پر استوار ہے۔ یہی سبب ہے کہ ایک طرف بین الاقوامی، قومی اور علاقائی کلچر اور دوسری جانب شخصیت کو تشکیل دینے والے بنیادی رجحانات کے پیچھے بھی یہی دو عوامل کارفرما نظر آتے ہیں۔ نوّے فیصد سے زیادہ افراد پہلے ہی اس بات پر قائل ہیں کہ معیشت و ٹیکنالوجی سے تعلق خاطر نہ رکھنے پر انہیں سماجی حیثیت اور مادی فوائد کے حصول میں شدید رکاوٹیں درپیش ہیں۔ اب سوچنا یہ ہے کہ پاکستانی ادب اور پاکستانی ادب میں رثائی ادب کس کے لیے تخلیق کیا جائے؟ ‘‘ادب برائے زندگی’’ کا فلسفہ اچھا ہے مگر روزمرہ کاروبارِ حیات میں کہیں اس کی عملی شکل نظر نہیں آتی۔ ‘‘ادب برائے ادب’’ کا نظریہ بھی مشکل سے دوچار ہے کہ قارئین آپ کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں اور نئی نسل ان کے اس عمل کو احسن گردان رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس صورتحال میں ہم ‘‘ادب برائے ادیب ‘‘کے نظریے کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں۔ ‘‘(۳۳)
اس صورتِ حال میں ہمارے سامنے مرثیہ کا مستقبل کیا ہے؟؟؟ کیا ہم محض انیس و دبیر یا کلاسیکی مرثیوں کے ذخیرہ کی بنیاد پر اکیسویں صدی کا سفر مکمل کر کے بائیسویں صدی میں عزت و احترام سے داخل ہو جائیں گے؟؟ یا ہمیں صنف مرثیہ کے مزاج و مذاق میں شعوری طور پر کچھ تبدیلیاں لانا ہوں گی؟؟ اس سلسلے میں میرا واضح اور دو ٹوک مؤقف یہ ہے کہ ہمیں اجداد کے ورثے کا تحفظ کرتے ہوئے مرثیے میں جدید موضوعات کو ضرور شامل کرنا چاہیے اور اسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ بنانا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ مرثیے کی ہم عصر اصناف میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو بھی بغور دیکھنا چاہیے۔ اس سلسلے میں راقم الحروف چند تجاویز پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہے۔ اُمید ہے کہ ناقدین، محققین اور دانش جُو حضرات ان تجاویز پر غور فرمائیں گے۔

۱۔ مرثیے کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے اور اس میں ایسے موضوعات کو بطورِ خاص شامل کیا جائے جو اکیسویں صدی بلکہ بائیسویں صدی کے عین مطابق ہوں۔
۲۔ جدید اور قدیم مرثیوں کی اشاعت کا اہتمام کیا جائے اور مرثیوں کے متون کی صحت کا بطور خاص خیال رکھا جائے تاکہ یہ عظیم ورثہ تلف ہونے سے محفوظ ہو جائے اور درست متن قارئین تک پہنچ سکے۔
۳۔ مرثیہ کے تحفظ اور فروغ کے لیے جدید ٹیکنالوجی سے بھرپور استفادہ کیا جائے۔ مرثیہ اور مرثیہ نگاروں کے نام سے ویب سائیٹ بنائی جائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ ان سے مستفید ہوں۔
۴۔ میڈیا کے ذریعہ سامعین اور ناظرین کو مرثیہ کی افادیت سے آگاہ کیا جائے اور مرثیوں میں موجود جدید رویوں کو اُجاگر کیا جائے۔
۵۔ مرثیہ کے حوالے سے تعلیمی درس گاہوں اور خصوصاً یونیورسٹیوں میں، مذاکرے، سیمینارز اور سمپوزیم کا اہتمام کیا جائے۔
۶۔ معروف محققین، ناقدین اور دانشوروں سے استدعا کی جائے کہ وہ اس صنف کے حوالے سے اپنے گراں قدر خیالات تحریری شکل میں پیش فرمائیں۔
۷۔ مرثیہ کا مشرقی و مغربی اصناف سے موازنہ کیا جائے اور اس کے اختصاصی پہلوؤں پر روشنی ڈالی جائے۔
۸۔ نصاب سازی کے وقت مرثیوں کے مختلف اجزا شامل کیے جائیں اور ایم۔ اے کی سطح پر مکمل مرثیے کا مطالعہ لازم قرار دیا جائے۔
۹۔ مرثیہ کے حوالے سے کیے گئے اعتراضات کا بغور مطالعہ کیا جائے اور ان کے تشفی بخش جوابات مرتب کیے جائیں۔
۱۰۔ مرثیہ کو صرف مسدس کی ہیئت کے ساتھ مخصوص نہ کیا جائے بلکہ اسے مرثیہ نگار پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ اپنی پسند کی ہیئت اختیار کرے۔
۱۱۔ مرثیہ کو زندہ رکھنے کے لیے نئے سامعین اور نئے قارئین پیدا کرنے کے لیے جست و خیز کی جائے۔
۱۲۔ جدید ذہن کے حامل نوجوان شعرا کو صنفِ مرثیہ کی جانب متوجہ کرنا ضروری ہے کہ اب اس قدیم صنف کو تازہ لہو کی بے حد ضرورت ہے۔
۱۳۔ ایسی محافل اور مجالس کا اہتمام کرنا بھی ضروری ہے جس میں صرف اور صرف کلاسیکی اور جدید مرثیے پڑھے جائیں تاکہ سامعین میں مرثیے کی سماعت کا ذوق بیدار ہو جائے۔
۱۴۔ مرثیہ خوانی کے فن کو تر و تازہ رکھنے کے لیے بزرگوں کی ہدایات کی روشنی میں نوجوانوں کو آمادہ کرنا چاہیے۔
۱۵۔ معروف مرثیہ نگاروں کو جدید موضوعات یا صورتِ حالات دے کر ان سے مرثیہ لکھنے کی استدعا کی جائے تاکہ موضوعاتی مرثیوں کو فروغ حاصل ہو۔
۱۶۔ معروف مرثیہ نگاروں کے نام سے ایوارڈز کا اجرا کیا جائے۔ عصرِ حاضر کے بزرگ مرثیہ نگاروں کے اعزاز میں تقاریب کا اہتمام کیا جائے اور ان کی ہر ممکن دلجوئی کی جائے۔
۱۷۔ مرثیہ کو کسی فرقے یا مذہبی گروہ سے متعلق نہ کیا جائے بلکہ ہر مذہب اور مسلک کے شاعروں کو اس صنف کی جانب متوجہ کیا جائے۔
۱۸۔ اردو کے علاوہ دوسری زبانوں کے شعرا کو بھی آمادہ کیا جائے کہ وہ اپنی مادری یا قومی زبان میں مرثیے لکھیں۔
۱۹۔ اُردو کے معروف و مقبول مرثیوں کے مختلف زبانوں میں تراجم شائع کیے جائیں تاکہ دوسری زبانوں سے آشنا لوگ بھی اس صنف سے کماحقہ، استفادہ کر سکیں۔
۲۰۔ حکومت پر زور دیا جائے کہ وہ صنفِ مرثیہ کے لیے علیحدہ سرکاری ایوارڈ کا اعلان کرے۔ اہم مرثیہ نگاروں کے نام سے ٹکٹ جاری کرے اور بڑی بڑی شاہراہوں کے نام اہم مرثیہ نگاروں کے ناموں سے منسوب کرے۔
۲۱۔ بیرون ملک یونیورسٹیوں میں انیس اور دبیر کے نام سے چیئرز کا اعلان کیا جائے تاکہ وہاں کے طلبہ و طالبات بھی مرثیہ نگاروں سے آگاہ ہو سکیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اکیسویں صدی میں مرثیہ زندہ رہے گا؟؟ اس کا سادہ اور آسان جواب تو یہ ہے کہ جب تک حق و باطل کی آویزش جاری رہے گی اس صنف کا ارتقائی سفر اسی آب و تاب سے جاری رہے گا۔ اگر بنظرِ غائر دیکھیں تو صنفِ مرثیہ میں مزاج اور ہئیت کے اعتبار سے اتنی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں کہ وہ اکیسویں صدی کے تقاضوں سے عہدہ برا ہونے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے لہٰذا وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ صنفِ مرثیہ کا مستقبل انتہائی روشن اور تابناک ہے۔ اب چلتے چلتے حضرتِ قیصر بارہوی کے مرثیے ’عظمتِ فن‘ کا ایک بند ملاحظہ فرمائیے :
پڑھ لیجیے عبارتِ ایوانِ مرثیہ
تزئینِ قصرِ علم ہیں ارکانِ مرثیہ
قائل ہوئے صفات نگارانِ مرثیہ
صورت گرِ ادب ہے دبستانِ مرثیہ
بے داغ زندگی کی طلب مرثیے میں ہے
انسانیت کا سارا ادب مرثیے میں ہے

حواشی

(۱) مجتبیٰ حسین، پروفیسر ’’مرثیہ اور عہد جدید‘‘ مشمولہ جدید مرثیہ نگاری از سید وحیدالحسن ہاشمی ‘ لاہور‘ مکتبہ تعمیر انسانیت‘ ۱۹۶۷ء ‘ص ۱۸۴
(۲) گوپی چند نارنگ، سانحہ کربلا بطور شعر ی استعارہ، لاہور، سنگ میل پبلی کیشنز، ۱۹۹۱ء، ص ۲۰
(۳) محمد حسن، ڈاکٹر ’’ادبی سماجیات کے نقطۂ نظر سے مرثیے کا مطالعہ‘‘ سہ ماہی ’’رثائی ادب‘‘ کراچی، اپریل ۲۰۰۲ء، ص ۱۱
(۴) سلیم اختر‘ ڈاکٹر ’’وحیدالحسن ہاشمی کے مرثیے‘‘ مشمولہ ’’العطش ‘‘ (جلد سوم)، لاہور، الحبیب پبلی کیشنز، ۱۹۹۸ء، ص ۲۳۵
(۵) خواجہ محمد زکریا‘ ڈاکٹر، قدیم نظمیں، لاہور، بک ورلڈ، ۱۹۶۴ء، ص ۲۷۱
(۶) سجاد باقر رضوی، ڈاکٹر، معروضات، لاہور، پولیمر پبلی کیشنز، ۱۹۸۸ء، ۳۷
(۷) صفدر حسین، سید، ڈاکٹر، مرثیہ بعدانیس، لاہور، سنگ میل پبلی کیشنز، ۱۹۷۱ء، ص ۲۳۔
(۸) عابد علی عابدؔ (دیباچہ)، موازنۂ انیسؔ و دبیرؔ، لاہور، مجلس ترقی ادب، سن۔ ن، ص ۶۔
(۹) احتشام حسین (مقدمہ)، مراثی انیس میں ڈرامائی عناصر، لکھنؤ : نسیم بکڈپو، ۱۹۵۹ء، ص ۷
(۱۰) شجاعت علی سندیلوی، تعارفِ مرثیہ، الہ آباد، ادارہ انیس اردو، ۱۹۵۹ء، ص ۴۴۔
(۱۱) سجاد باقر رضوی، ڈاکٹر، معروضات، لاہور، پولیمر پبلی کیشنز، ۱۹۸۹ء، ص ۳۷۔
(۱۲) عاشور کاظمی، سید اردو مرثیے کا سفر دہلی : ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، ۲۰۰۶ء، ص ۶۰۰۔
(۱۳) سجاد باقر رضوی، ڈاکٹر، معروضات، لاہور : پولیمر پبلی کیشنز، ۱۹۹۸ء، ص ۲۲۔
(۱۴) عبداللہ، سید، ڈاکٹر، وجہی سے عبدالحق تک، لاہور : خیابان ادب، ۱۹۷۷ء، (طبع دوم)، ص ۱۱۵
(۱۵) احراز نقوی، ڈاکٹر، انیس ایک مطالعہ، لاہور : مکتبہ میری لائبریری، ۱۹۸۲ء، ص ۲۳
(۱۶) محمد حسن، ڈاکٹر، ‘’ادبی سماجیات کے نقطۂ نظر سے مرثیے کا مطالعہ’‘ مشمولہ رثائی ادب، کراچی، اپریل ۲۰۰۲ء، ص ۲۳
(۱۷) ہلال نقوی، ڈاکٹر ‘’بیسویں صدی اور جدید مرثیہ’‘ کراچی، محمدی ٹرسٹ، ۱۹۹۴ء، ص ۷
(۱۸) طاہر حسین کاظمی، ڈاکٹر، اُردو مرثیہ میر انیس کے بعد، دہلی : ایرانین آرٹ پرنٹرز،
۱۹۹۷ء، ص ۱۰۵
(۱۹) احراز نقوی، ڈاکٹر، جدید فنِ مرثیہ نگاری، مرتبہ : وحیدالحسن ہاشمی، لاہور، مکتبہ تعمیر ادب،
۱۹۶۷ء، ص ۲۱۲
(۲۰) محمد رضا کاظمی، جدید اُردو مرثیہ، کراچی، مکتبہ ادب ۱۹۸۱ء، ص ۱۳۔
(۲۱) شجاعت علی سندیلوی، تعارف مرثیہ، الہ آباد، ادارہ انیس اُردو، ۱۹۵۹ء، ص ۷۰
(۲۲) اسد اریب، ڈاکٹر، اُردو مرثیے کی سرگزشت، لاہور : کاروانِ ادب، ۱۹۸۹ء، ص ۸۴۔ ۸۹
(۲۳) حامد حسن قادری، مختصر تاریخ مرثیہ گوئی، کراچی، اردو اکیڈمی سندھ، ۱۹۶۴ء، ص ۱۰۰
(۲۴) شجاعت علی سندیلوی، تعارفِ مرثیہ، الہ آباد، ادارۂ انیس اُردو، ۱۹۵۹ء، ص ۸۶
(۲۵) محمد رضا کاظمی، جدید اُردو مرثیہ کراچی : مکتبۂ ادب، ۱۹۸۱ء، ص ۸۶
(۲۶) ضمیر اختر نقوی (مرتب)، جو ش کے مرثیے، کراچی، ادارۂ فیض ادب، ۱۹۸۰ء، ص ۲۲
(۲۷) کرار حسین، پروفیسر (پیش لفظ)، مراثی آلِ رضا، کراچی، خراسان اسلامک ریسرچ سنٹر، ۱۹۸۱ء، ص ‘’م،
(۲۸) عاشور کاظمی، سید اُردو مرثیے کا سفر دہلی : ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، ۲۰۰۶ء، ص ۴۵۴
(۲۹) اسد اریب، ڈاکٹر، اردو مرثیے کی سرگزشت، لاہور، کاروانِ ادب، ۱۹۸۹ء، ص ۱۰۱
(۳۰) صفدر حسین، سید، ڈاکٹر، مرثیہ بعد انیس، لاہور، سنگ میل پبلی کیشنز، ۱۹۷۱ء، ص ۱۷۴
(۳۱) اسد اریب، ڈاکٹر، اُردو مرثیے کی سرگزشت، لاہور : کاروانِ ادب، ۱۹۸۹ء، ص ۸۵
(۳۲) ہلال نقوی، ڈاکٹر (مقدمہ)، لہو لہو کہکشاں، کراچی، ادارہ تقدیس قلم، ۱۹۸۹ء، ص ۲۹
(۳۳) عرفی ہاشمی، بُجھے چراغوں کی روشنی (مرثیے)، لاہور: الحسن پبلی کیشنز، ۲۰۰۵ء، ص ۹

ڈاکٹر سیّد شبیہ الحسن

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
از ڈاکٹر سیّد شبیہ الحسن