- Advertisement -

ایک قبر کی فریاد

ایک اردو افسانہ از ڈاکٹر نور ظہیر

یہ قصہ ایک الہام کی طرح مجھے معلوم ہوا، جب میں اُن ان گنت قبروں میں سے ایک پر اونگھ رہی تھی۔ اونگھ! ایک قبر پر، اللہ رحم! سونا تو ایک نہ ایک دن ہم سب کو ہی قبروں میں ہے، یعنی وہ مستقل والا سونا۔ کم سے کم مسلم اور عیسائیوں کو تو ایسا ہی کرنا ہے۔ چند لوگ اس معاملے میں ہم سے زیادہ خوش قسمت ہیں۔ ان کے بے جان جسم گِدھوں کے کام آتے ہیں جو کوڑے سے بنٹارے کا یقینا ً زیادہ رحم دل اور فائدے مند طریقہ ہے۔ خیر بات گڑبڑائے نہ۔ میں مری نہیں تھی اور کسی قبر میں چین سے یا بے چین سو نہیں رہی تھی۔ میں بڑاگڑھ کے قبرستان میں تھی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دنیا میں شہیدوں کی سب سے بڑی آرامگاہ ہے۔ یہ وہ تھے، جن کی قسمت میں سامنتی راجپوتانہ کی اَن گنت جھڑپوں میں شہید ہونا لکھا تھا۔

میری ماں کٹّر راجپوت تھی۔ وہ نجیب الطرفین سیدزادی بھی تھی جس کا مطلب کچھ یوں ہے کہ ان کا خون سیدھا حضرت محمد ﷺ سے تعلق رکھتا تھا۔ اب یہ دونوں چیزیں ایک ساتھ کیوں کر تھی، یہ اپنے آپ میں ایک بڑا سوال ہے، جن سوالوں کی جڑیں لیے ہمارا دیش مضبوطی سے کھڑا ہے۔ بہرحال، یہ دو شُدھ خون کی دھاراؤں والی میری ماں بہترین قصہ گو تھیں۔ میرے بچپن کی کڑکڑاتے جاڑے کی ان گنت راتوں کو راجستھان یا عربستان کی تپتی ریتوں کی کہانیوں کی گرمی ان کی آواز سے ملی۔ انھیں میں سے ایک کہانی نے میرے چھ سال کے دماغ پر ایسی گہری چھاپ چھوڑی کہ چھیالیس سال کی عمر میں، میں نے خود کو بڑاگڑھ کے اس قبرستان میں پایا۔ مغل دور میں ’گلاب کی کھیتی‘ پر کتاب لکھ رہی تھی اور شہزادی جہاں آرا کے اس باغ کی جانکاری لینے یہاں آئی تھی۔ یہ پچاس ایکڑ کا باغیچہ، پیر خواجہ واضح محمد چشتی کی درگاہ سے پانچ کلومیٹر کی دوری پر ہے اور اس کے پھول روز مزار پر پہنچائے جاتے ہیں۔ میرے نانا اس مزار کے ٹرسٹ میں تھے اور ہم اکثر گرمیوں کی چھٹیاں یہاں گزارتے۔ یہیں ایک تپتی السائی دوپہر میں امی نے یہ کہانی سنائی تھی —

انیسویں صدی کے شروع میں ایک دُکن مسافر، صرف اسی مقصد سے بڑاگڑھ آیا کہ اس قبرستان کی قبریں گن سکے۔ رہا ہوگا آج کے ڈیٹا کلیکٹ کرنے والوں کا سا سوشل سائنٹسٹ۔ اس نے گنا اور پھر احتیاطاً ایک اور بار گننے کا فیصلہ کیا۔ دونوں بار فرق گنتی دیکھ کر اس نے پھر گنا۔ آخر تنگ آکر وہ شہر لوٹا اور ایک بوری نمبو لے آیا اور ہر قبر پر ایک ایک رکھتا گیا اور گنتا رہا۔ جب نمبو جمع کیے تو پھر ٹوٹل الگ آیا۔ یہ سوچ کر کہ کچھ نمبو گول ہونے کی وجہ سے شاید قبروں سے لڑھک گئے ہوں، وہ اس بار شہر سے سپاریاں لے کر آیا اور پھر ایک ایک قبر پر سپاری رکھ کر جوڑا۔ حساب پھر الگ آیا۔ آخر چڑھائی اور سپاٹ پر دوڑتے بھاگتے وہ تھک گیا اور ایک قبر کے پاس لیٹ کر سوگیا۔
اچانک اسے لگا جیسے کوئی اپنی لاٹھی سے اسے ٹھیل رہا ہو۔ اٹھ کر بیٹھا تو کیا دیکھتا ہے کہ پاس کی قبر کھلی ہے اور ایک بوڑھا سایہ، اتنا بوڑھا جتنا کہ وجود سے آزاد سائے کی ہوسکتی ہے، اس کے پیروں کے پاس کھڑا ہے۔ اس نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن سائے نے اپنے ہاتھوں سے اسے روکتے ہوئے کہا — ”ٹھہر! اے بوڑم! ٹھہر! کیا تلاش کرنے آیا ہے یہاں؟ شہیدوں کی قبروں کی گنتی؟“ ابن غفور، منہ کھلا، آنکھیں پھٹی، بس سر ہلا سکا۔ ”دُکنی گدھے کی اولاد، جانتا نہیں، مقصد کے لیے مرنے والے، وجود، روپ اور گنتی سے پرے ہوتے ہیں۔ بھلا شہیدوں کی قبریں کبھی گنی گئی ہیں؟“
ابن غفور کی آنکھیں کھل گئیں اور وہ الٹے پیر دُکن کی طرف دوڑا۔ لیکن اس سے پہلے وہ پیر صاحب کے سجادہ نشینوں میں سے ایک کو یہ واردات سنا گیا۔ انھوں نے بڑی باقاعدگی سے اس کا پرچار کرکے، درگاہ میں گھٹتی ہوئی دلچسپی کو پھر بڑھا دیا۔

کتھئی ہری گھاس پر، ان گنت قبروں کے بیچ میں کھڑی میں سوچ رہی تھی کہ کیا ہو جو میں ابن غفور کی حرکت کو دہراؤں؟ اگر میں جمع کیا پورا ڈیٹا کمپیوٹر کے حوالے کر دوں۔ کیا شہیدوں کی روحیں، بل گیٹس کے پلّوں کو، جو ہر بار میرا نام ٹائپ کرنے پر ’ڈکشنری میں نہیں ہے، بدل ڈالیے‘ فلیش کرتے ہیں، پہلے کی طرح ہردم برہم کرپائیں گے؟ کیا نمبر خود کو بدل ڈالنے کی ڈھٹائی پر اڑے رہیں گے؟

اس بات پر سوچتے اور راجستھان میں اب پیدا ہونے والے بنارسی پان کی جگالی کرتے، میں ایک قبر کا سہارا اپنی تھکی ہوئی پیٹھ کو دیتی زمین پر بیٹھ گئی۔ ان شاندار، سفید، چمکتے پتھر والیوں پر نہیں — کیا جانے وہ کسی سیناپتی یا علمبردار کی ہوں؟ اتنا جوکھم تو نہیں اٹھایا جاسکتا۔ یوں بھی سورج اپنے پورے زور پر آگ برسا رہا تھا، چلچلاتی ہوئی سنگ مرمر، بھلا کہاں کسی کی تھکی پیٹھ کو سہارا دے سکتی ہے۔ جسے میں نے چُنا تھا وہ تو ٹوٹی پھوٹی سی اینٹوں مٹی کے ڈھیر بھر تھی۔ ایک معمولی سپاہی کا آخری بستر، جس نے پچھلی رات ہی کسی مرگ نینی سے سویرے تک پیار کیا ہوگا اور جس کے ذہن میں اس کے جسم سے اٹھتی ہوئی سوندھی مٹی اور پسینے کی مہک اس وقت بھی بسی ہوگی جب وہ اپنی قطار میں مستعدی سے کھڑا، ہلاّ بولنے کا انتظار کررہا ہوگا۔ جو ایک کسان خاندان کے پانچ بچوں میں تیسرا تھا، جو کبھی فوج میں شامل نہ ہوتا اگر اس کی زمین مہاجن کے پاس گروی نہ ہوتی، جس کی ہتھیلیوں میں ہل ٹھیلنے اور مٹی کے لوندے مسلنے کی کسک تھی، جس کی نظر دور اُڑتی ہوئی دھول سے گردیلی آندھی اور نم بادلوں میں فرق کرپاتی تھی اور جو دوپہر ہونے سے پہلے، گھوڑوں کی ٹاپوں کے نیچے اوندھے پڑا تھا۔ اس کی وردی بس گواہی دے رہی تھی کہ وہ سپاہی تھا اور کس طرف سے لڑ رہا تھا۔ ایسی ہی ایک قبر کا سہارا لیا میں نے۔ زندہ یا مردہ، عام آدمی ہی ہم جیسوں کو سہارا دیتے ہیں۔ یہ پھٹ کر ایک سایہ بن کر نمودار نہیں ہوگی، اسے ایک زیادہ اہم کام نبھانا تھا، میری دُکھتی پیٹھ کو سہارا دینا۔

سانس پر قابو پا لینے کے بعد، میں چائے کا تھرمس کھول ہی رہی تھی کہ قبر کی بائیں طرف سے ایک تہذیب دار کھانسی کی آواز آئی۔ شاید قبرستان کا چوکیدار ہوگا جو مجھے اس جگہ کی پاکیزگی بنائے رکھنے کے لیے ہدایت کرنے آیا ہوگا۔ نظر اٹھائی تو دیکھا، ساٹھ کے لگ بھگ ایک صاحب، سفید کرتا پاجامہ پہنے، دودھیا سفید نہیں، وہ والا جسے سستے صابن سے بار بار دھویا جاتا ہے اور اُجلاپن لانے کی خواہش میں نیل کی ڈبکیاں دی جاتی ہیں۔ ان کے سر پر ایک نازک کشیدہ کی ہوئی گول ٹوپی تھی جس کے نفیس کام کو نہارنے میں، میں اتنا مشغول ہوگئی کہ انھیں پھر کھنکھارنے کی ضرورت ہوئی۔ میں ذرا شوقین ہوں، کیونکہ تعلق تو میرا بھی ایک امیرانہ خاندان سے ہے۔ بُرا وقت پڑنے سے ایسی چیزیں میرے پاس نہیں ہیں لیکن جناب شوق تو اب بھی ہے۔ پچھلے کچھ سالوں میں، اس شوق کو میں نے ایک اچھے چلتے ہوئے بزنس کا روپ دیا ہے — بگڑتے ہوئے رئیس زادوں سے اس طرح کی کھاٹی چیزیں خرید کر باہر ملکوں میں پرائیویٹ کلکٹروں کو بیچتی ہوں۔ میرا دماغ اس اُدھیڑبن میں الجھا تھا کہ دونوں چیزوں کا ایک ساتھ اور الگ الگ کیا دام لگاؤں، شروعات کتنے سے کروں اور اپنا کمیشن کتنا رکھوں؟ نظر ملی تو دیکھا ان کے چہرے پر ایک طنزیہ مسکراہٹ تھی، ایسی جس سے ظاہر تھا کہ وہ میرے خیالوں کو پڑھ پارہے ہیں۔ سر ہلاتے ہوئے، انھوں نے خاموشی سے مجھے سمجھانے کی کوشش کی کہ میں تہذیب کے دائرے میں رہوں۔ میں نے واسکٹ اور ٹوپی کو لیبل لگاکر ذہن کے کونے میں رکھ دیا۔ اُجڑے راجاؤں، نوابوں سے اتنی چیزیں خریدنے کے بعد مجھے انھیں منالینے کے سارے پینترے آتے ہیں۔ جی ہاں، بہت پھٹیچر والے بھی خاندانی وراثت سے جدا ہونے میں ہچکچاتے ہیں اور یہ تو کپڑے اتار لینے کی بات تھی۔ لیکن میں بھی بہت سی تکڑمیں جانتی تھی۔ ابھی نہ سہی کبھی اور سہی۔

پھر انھوں نے ایسی حرکت کی کہ میں حیران رہ گئی۔ ایسی، جس نے مجھ جیسے بوہیمین کو بھی چونکا دیا۔ ایک ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے، اللہ کا نام لیا اور خود کو پاس والی قبر پر بٹھا دیا — جی جناب، بالکل قبر کے اوپر۔ میں نے جلدی سے ادھر اُدھر دیکھا اور ٹھنڈے لہجے میں ان سے بولی — ”آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ میری مراد آپ کے قبر پر بیٹھنے سے ہے۔“
”واقعی! جان سکتا ہوں کیوں نہیں۔“ انھوں نے پوچھا۔
ٹخنوں تک نمازیوں والے اُٹنگے پاجامے کے باوجود حضرت تھے بڑے آزادخیال۔
”کیونکہ، اس روح کا بھوت، یعنی اس آدمی کا بھوت، آپ کے پیچھے پڑ جائے گا۔“ میرے اپنے کانوں کو بھی میری بات بچکانہ لگ رہی تھی۔
”اب، جب میں خود ہی یہاں آرام کرتا ہوں تو خود کے پیچھے تو پڑ نہیں سکتا۔“
”کیا مطلب ہے آپ کا؟“ اپنا سوال ختم ہونے سے پہلے ہی سچائی میری سمجھ میں آگئی۔
”نہیں، میں کھسکا ہوا نہیں ہوں اور یہ قبر میری ہے۔ اس کا کتبہ مدتوں پہلے گرکر کھوگیا ورنہ میں تمہیں اس پر اپنا کھدا ہوا نام دکھاتا۔“
”لیکن میری سمجھ میں نہیں آرہا — آپ یہاں، مطلب دونوں جگہ، اندر باہر کیسے ہوسکتے ہیں؟“
”کیا بتائیں بی بی، وہ ایک لمبی داستان ہے۔“
”بتائیے نا۔“ میرے اصرار کے پیچھے کہانیاں لکھنے کا بھی چسکا تھا۔ یہاں بڑاگڑھ کی پہاڑی پر، خود کو ایک شہید کی روح سمجھنے والے دیوانے کی کہانی اُسی کی زبانی، اچھی بِک سکے گی۔ میں پورے دھیان سے ان کی طرف تاکنے لگی اور وہ شاید میری توجہ سے خوش ہوئے کیونکہ انھوں نے بغیر کسی تاخیر کے فوراً ہی شروعات کردی۔

”یہ اس وقت کی بات ہے جب ہندوستان کے تخت پر اورنگ زیب بیٹھا کرتا تھا۔ بھائی چارے کی ڈور، جو صوفیوں نے ہندو مسلمانوں کے بیچ باندھی تھی، اُس ظالم بادشاہ کی حکومت میں دھاگا دھاگا ہورہی تھی۔ اپنے مالک کے رویے کا فائدہ اُٹھاکر، مسلمان حاکم، جاگیردار اور نائب، ہندو رعایا پر قہر برسا رہے تھے۔ چھوٹے سے جرم پر وہ اپنی ملکیت کھو دیتے، کوئی بھی بہانہ کرکے ان کامالِ تجارت ضبط کرلیا جاتا، ان کے نوجوان بے روزگار، عورتیں غیرمحفوظ اور خوفزدہ ہوگئیں۔ اتنے سے بھی بادشاہ مطمئن نہیں ہوا۔ ظالم نے جزیہ سود لاگو کردیا۔ ہندو عوام ان بے پناہ ظلموں سے تڑپ رہی تھی اور مذہبی نفرت کی دیوار مضبوط ہورہی تھی کہ سلطان نے اپنا رخ ان کی طرف کیا جنھوں نے انسانیت، بھائی چارے اور محبت کی نیو رکھی تھی۔ صوفی سنت اگلا نشانہ بنے۔ دکھاوے کے لیے اس نے مٹھی بھر مُلاّؤں کو جمع کیا اور صوفیوں سے اسلام کی باریکیوں پر بحث کرتے، اور یہ ثابت کردیتے کہ صوفی اسلام کے راستے پر چلنے کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن وہ سچے اسلام کے پھیلاؤ میں رکاوٹ ہیں اور اس لیے پھانسی، سولی، صلیب یا سر قلمی میں سے ایک کے حقدار ہیں۔

عوام اس ظلم سے کراہ اُٹھی کیونکہ وہ صوفی ہی تھے، جو سلطان کے دیے ہوئے زخموں پر مرہم لگاتے تھے، جو انھیں امید دلاتے تھے کہ اوپر والے پر یقین رکھو — وہ تکلیفوں کے ذریعے تمہارے اعتماد کا امتحان لے رہا ہے۔ بیچارے عوام، دانت بھینچ کر، کولہو کے بیلوں کی طرح جُتے رہتے، وہ کولہو جس کے دونوں پاٹوں کا وزن ہر پل بھاری، اور بھاری ہوتا جاتا۔ پھر یہ صوفی ایک ایک کرکے غائب ہونے لگے۔ کچھ تو کھلّم کھلّا ذبح کیے گئے، کچھ اچانک لاپتہ ہوگئے۔ جنتا چلچلاتی دھوپ میں، ایک مکڑی کے جالے جیسے سائے سے مرحوم، سسکتی، بلکتی رہی۔

وہ بُرا وقت تھا بی بی۔ بیٹوں کو وداع کرتے ہوئے ماؤں کو پتہ نہیں ہوتا تھا کہ پھر ان کا منہ دیکھنا نصیب ہوگا یا نہیں۔ لکھ پتی باپ کو یہ خبر نہ ہوتی کہ دوپہر کے بعد، شام کا کھانا بال بچوں کو کھلا پائے گا یا نہیں۔ ’بچنے کی خواہش‘ نام کی پری کا پیچھا کرتے ہوئے لوگ مذہب بدلنے لگے کہ جی پائیں، ایک سے دوسرے دن تک۔ ہر آذان پر مسجدیں کھچاکھچ بھری ہوتیں لیکن خدا کا شکر کوئی ادا نہیں کرتا۔ خاموشی سے سر جھکائے وہ دل میں ظالم بادشاہ پر خدا کا قہر برپا ہونے کی بھی دُعا نہ کرتے — کیا جانے کوئی دل کے اندر کی گرجن بھانپ لے۔ اور سلطان؟ اس نے اپنی چوکسی دوگنی، پھر تین گنی، پھر چوگنی کرڈالی۔ یہاں تک کہ اس نے جامع مسجد تک جانا بند کردیا۔ لال قلع کے اندر مسجد بنوائی گئی تاکہ عید بقرعید کو بھی سلطان کو سب کے ساتھ نماز نہ پڑھنی پڑے۔ پھر بھی، اس کے لیے ابھی اور کام باقی تھے۔ اس نے درگاہوں کا رُخ کیا۔

سلطان نے ایک اعلان جاری کیا — ”صوفی پیروں میں طلسمی طاقت ہوتی ہے، جو اتنی طاقت ور ہوتی ہے کہ ان کے جسم کے ختم ہونے کے بعد بھی، ان کی مزاروں پر موجود رہتی ہے اور ان کو ماننے والوں کی مدد کرتی ہے۔ اگر یہ بات سچ ہے تو میں خود ہر صوفی کے مزار پر جاؤں گا اور اس سے سوال کروں گا۔ اگر درست جواب ملا، تو ٹھیک، ورنہ تو اس درگاہ کی وقف کی ساری ملکیت ضبط کرلی جائے گی۔ مزار کھودکر برابر اور پورا مقبرہ توڑکر خاک میں ملا دیا جائے گا، تاکہ اس درگاہ کا نام و نشان مٹ جائے۔“

بی بی، بہت سی درگاہیں ڈھائی گئیں، بہت سی شانت قبروں کو کھول ڈالا گیا اور سیکڑوں کتبے ذرہ ذرہ ہوئے۔ عوام ان حبیبوں کا ماتم کرتی، جن کی موجودگی انھیں اَن دیکھے خدا کا یقین دلاتی تھی، لیکن یہ ماتم بھی وہ چپکے چپکے بند دروازوں کی آڑ میں کرتی۔

پھر ایک دن، سلطان کی بہن، جہاں آرا نے، پیر خواجہ واضح محمد چشتی کی اس درگاہ کو، ایک سو ایکڑ کی پہاڑی دان کردی۔ یہ عمدہ زمین تھی، جسے شہزادی نے گلاب کے باغ کے لیے چن کر صحیح فیصلہ کیا تھا۔ اس پر، اچھی دھوپ بھی پڑتی ہے، اونچائی کی وجہ سے بارش واجب ہوتی ہے اور پانی ٹھہرتا نہیں۔ اب یا تو سلطان خود یہ اُپجاؤ زمین کسی درباری کو دینا چاہتے ہوں گے یا کسی جاگیردار کی اس پر پہلے سے نظر تھی، بادشاہ اس خیرات پر چوکنّے ہوئے اور انھوں نے صدر سجادہ نشین کو فرمان بھیجا۔ انھوں نے ہمارے پیر کے بارے میں بہت سنا تھا۔ ان کے پردادا، ظل سبحانی، جلال الدین اکبر خود ننگے پاؤں چل کر زیارت کرنے آئے تھے۔ سلطان خود زیارت کرنا چاہتے ہیں اور رمضان کے مہینے کے پورے چاند کے روز تشریف لائیں گے۔

راجاؤں، نوابوں، شہزادوں اور بادشاہوں کی آمد کی خبر جشن کی وجہ ہوتی تھی۔ عام طور پر وہ لالچی لوگ ہوتے تھے اور اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ خیرات جتنی زیادہ ہوگی، پھل بھی اتنا ہی جلدی، اتنا ہی زیادہ ملے گا۔ ان کے جینے کا طریقہ ان عظیم جگہوں پر بھی نہیں بدلتا اور ان کے دسترخوانوں کی جوٹھن اور تن کی اُترن، ان سیکڑوں لوگوں کا پیٹ بھرتی اور تن ڈھکتی جو اپنے حکمرانوں کی ایک جھلک دیکھنے اُمڈ پڑتے۔
لیکن اس بار ایسا نہیں ہوا۔ فرمان پڑھ کر سجادہ نشین گمبھیر ہوگئے اور اپنی برفیلی داڑھی سہلانے لگے۔ وہ بھلے آدمی تھے لیکن کوئی خاص ذہین نہیں، اللہ ان کی روحوں پر رحم کرے۔ لیکن اتنا تو وہ بھی سمجھ گئے کہ اس آمد کا انجام اچھا نہیں نکلنے والا ہے۔ انھوں نے سارے سجادہ نشینوں کو اور وقف کے دوسرے ممبران کو بلوایا۔ وہ ایک گمبھیر جمگھٹ تھا جو درگاہ کے اندر والے دالان میں جمع ہوا۔ کسی کے دل میں کوئی شک نہیں تھا — سلطان درگاہ کیوں آرہے ہیں۔ ہر کوئی یہ بھی سمجھ رہا تھا کہ یہ زمین کا ٹکڑا اس قدم کی وجہ ہے۔ ایک نے رائے دی — زمین لوٹا دی جائے، دوسرے نے کہا کہ — شہزادی جہاں آرا سے کہا جائے کہ وہ دخل دیں۔ دونوں پر ہی بحث کرکے ردّ کردیا گیا۔ ہر کسی نے مانا کہ ضدّی سلطان کو اپنا فیصلہ بدلنے پر کوئی راضی نہیں کروا پائے گا۔

میں شروع سے ہی ذرا گرم دماغ رہا ہوں۔ پیر صاحب کے سجادہ نشینوں میں جنم لینے کے باوجود، میں ایک تلوارباز ہونا چاہتا تھا اور شاہی فوج میں سپاہی ہونا میرا خواب تھا۔ میری ماں کے آنسوؤں، باپ کی گالیوں اور ایک نازنین سے نکاح نے میری فطری خواہش کو لگام دی۔ پیڑھیوں میں ٹکراؤ تو صدیوں سے ہی بالغ ہونے اور پالن کرنے کا انگ ہے۔ میری ماں کی بلند چیخ و پکار اور ابّا کی کھلے عام لعنتوں نے مجھے اس تکیے میں ایک باغی کا رتبہ دے ڈالا۔ اس دن کی انجمن میں، میری موجودگی کی وجہ میرے ابّا کی بیماری تھی۔ میں نے تکیے کے سبھی نوجوانوں کو تیراندازی اور تلواربازی میں تعلیم شروع کردینے کا سجھاؤ دیا۔ وقت آگیا تھا، جب یہ ثابت کرنا ہوگا کہ صوفیوں کی رگوں میں پانی نہیں بہہ رہا ہے۔ ہمارا ہتھیار پیار ہے، لیکن ہم اسپات کی تلوار بھی استعمال کرنا جانتے ہیں۔ یہی وقت ہے کہ ثابت کیا جائے کہ اللہ کی خدمت میں ہمارا خون جم نہیں گیا ہے۔ آؤ، بڑاگڑھ کی زمین کو لال کر ڈالیں۔ شہادت کی موت گمنامی کی زندگی سے کہیں بہتر ہے۔

کوئی ایک منٹ گہرا سنّاٹا رہا، پھر سب سے بزرگ سجادہ نشیں ڈگمگاتے ہوئے اُٹھے۔ وہی دراصل اصلی صدر تھے اور اکیس سال اس رُتبے پر بنے رہنے کے بعد اس لیے اسے چھوڑا تھا تاکہ اللہ کی عبادت کرسکیں۔
”برخوردار آپ تو ایسے بات کررہے ہیں جیسے کہ سلطان آکر واپس ہوگئے ہوں۔ آپ اس وقت کی بات کررہے ہیں جب ہم سب کو اس مزار سے محروم کرکے، سڑکوں پر بے آسرا چھوڑ دیا گیا ہو، معمولی بھکاریوں کی طرح۔ کیا یہ ایمان ہے؟ کیا سلطان نے مزار سے سوال کیا اور کوئی جواب نہیں پایا۔ مجھے یقین ہے ایسا نہیں ہوگا۔ مجھے یقین ہے کہ حضرت پیر اس سرپھرے گھمنڈی سلطان کو مناسب جواب دیں گے۔ میرے بچوں! خوف نہ کھاؤ، آخری وقت کی تیاری ابھی سے نہ کرو۔ خود کو اللہ کے حوالے کرکے دعا کرو۔ رحم کی دعا، سب گناہوں کے لیے جس نے ہم پر یہ قہر برپا کیا ہے۔ بھروسہ رکھو کہ اگر ہم اس سے گزر گئے تو اللہ ہم پر پھر مہربان ہوگا۔ ایمان کی لو جلاؤ اور اسے دعاؤں کی ہوا دو۔ آؤ، سجدے میں جھک جائیں اور اوپر والے کا شکر ادا کریں کیونکہ اس نے ہمیں آزمائش کے لیے چنا ہے۔

ایک ساتھ سب لوگ اٹھے اور مغرب کی طرف مڑکر دُعا کرنے لگے۔ میں نے اپنی آنکھیں ذرا سی کھول کر دیکھا کہ ہم میں سے کئی اپنے بغل میں کھڑے لوگوں کو ایسے ہی جائزہ لے رہے تھے۔ ایسا نہیں کہ وہ دیندار نہیں تھے یا انھیں مزار کی طاقت پر یقین نہیں تھا، لیکن یہ پاپی پیٹ کا سوال تھا۔ درگاہ نہیں تو روٹی نہیں۔ درگاہ نہیں تو اس بھری دنیا میں کوئی پہچان بھی نہیں۔

میری خاندانی اکائی کو مزار پر چڑھنے والے نذرانے میں سے ایک چھوٹا سا حصہ ملتا تھا۔ میں نے اپنی بیوی زرینہ سے حیدرآبادی کرن پھولوں کا وعدہ کیا تھا۔ اور یہ طے تھا کہ کسی بڑی آسامی کی آمد پر اسے دلا دوں گا۔ میری نظروں کے آگے اس کا مایوس چہرہ آگیا۔ سلطان آئیں اور زیارت کے ایجنڈے سے کرن پھول ندارد۔ اب یہاں پر آپ کو زرینہ کے بارے میں بتانا ضروری ہے۔ وہ میری بڑی دور کی رشتہ دار تھی، اتنی دور کی کہ ان کے گھرانے کو نذرانے سے حصہ نہیں ملتا تھا۔ وہ بلا کی خوبصورت تھی، اتنی کہ اس نے میرے دماغ سے فوج میں بھرتی ہونے کے سارے خیال پونچھ ڈالے تھے۔ اب تو اس کی ادائیں تلواربازی کرتیں اور میں مسحور ہو ان کے وار سہتا، اس کی نگاہیں تیکھے تیر چلاتیں اور میں دل نکال کر ان کا ایک بھی نشانہ چوکنے نہیں دیتا۔

خوبصورتی کے ساتھ اس کے وجود میں شرارت گھلی تھی۔ ایسی، جیسی شرارت اور نافرمانبرداری بچوں میں ہوتی ہے۔ ایسی ایسی شیطانیاں اسے سوجھتی کہ لوگ دنگ رہ جاتے۔ جیسے صدر سجادہ نشیں کے باورچی خانے میں چپکے سے گھس کر قورمے میں کٹوری بھر مرچ ڈال دیتی، سفید چادر اوڑھ بھوت بن کر، امام باڑے کی سیڑھیوں پر دوڑتی ہوئی بیچ زنانہ مجلس میں پہنچا دیتی۔ دو تین خواتین تو بے چاری ہول کے مارے بے ہوش ہوگئیں۔ یا پھر امام حسین کے گھوڑے دُلدل کے لیے بنے، بُھنے چنے محلے کے بچوں کو بانٹ آتی۔ حضرت دُلدل کو بھوکا رہنا پڑتا۔ مگر یہ شیطانیاں اس کی اصل قابلیت نہیں تھی۔ وہ پلک جھپکتے اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے آنسو رو سکتی تھی جو موٹی موٹی بوندوں میں تبدیل ہوکر چکنے گالوں پر پھسلنے لگتیں اور وہ ڈانٹتے ہوئے بزرگوں کو، نظروں میں رنج اور دُکھ لیے ایک ٹک تاکتی رہتی — واللہ، اس نظر کے سامنے تو پتھر کا دل بھی نرم موم ہوجاتا۔ مجھے کافی وقت، کوئی دو برس لگ گئے اصلیت سمجھنے میں اور وہ بھی نہ سمجھتا اگر وہ خود مجھے رازدار نہ کرتی کہ وہ ڈرامہ کرتی ہے۔ بہت بڑی اداکارہ تھی ہماری زرینہ۔ انیس سو چالیس کا زمانہ ہوتا تو میں اسے بمبئی لے جاتا اور ہم کروڑپتی مووی مغل ہوتے بجائے اصلی مغلوں کے خدمت گار ہونے کے۔ ہاں، اس کے آنے سے تکیہ جیسے زندہ ہوگیا تھا۔ گلیاں، جو صرف امیروں کی آمد کی ترحی سے حرکت میں آتیں، اس کے آنے سے زندگی کی جنبش سے شرابور ہو اٹھی تھیں۔ لوگ اس سے پیار بھی کرتے تھے اور نفرت بھی۔ دلچسپ وقت گزارنے کو اسے جو اپنے یہاں بلاتے تھے، وہی وقت خیریت سے گزر جائے اس کی دعائیں بھی مانگتے رہتے۔ وہ ہردلعزیز بھی تھی اور سب کے غصے کی وجہ بھی۔ سب کی ایک ہی رائے تھی — گود بھرنے دو، طبیعت میں ٹھہراؤ آجائے گا۔ آہا! آسان راستہ تلاش لینے کی ہندستانی عادت۔ بگڑے لڑکے کو باندھنے کے لیے بہو لے آئیے، بے چین فطرت کی بہو کو شانت کرنے کے لیے اس کی گود بھر جانے کی دعا کیجیے اور ضدی، چنچل بچے کو سنجیدہ کرنے کے لیے چھوٹے بھائی یا بہن کا انتظام کردیجیے۔ خیر، بچہ تو اس میں ٹھہراؤ لانے کے لیے ابھی تک آیا نہیں تھا اور مجھے اکیلے کو ہی کرن پھول نہ پانے کے اس کے غصے کو جھیلنا تھا۔

زیادہ تر مرد، تصوف کے پیچیدہ معاملوں پر لمبے بیان دے پائیں گے، صفر اور انسانی ہستی پر بھی ان کی کوئی نہ کوئی رائے ضرور ہوگی، لیکن ایک مرد سے یہ پوچھیے کہ مردوں کے بیچ ہوئی باتیں، کسی مرد کے پہنچنے سے پہلے، زنانے میں کیسے پہنچ جاتی ہیں، تو یقین مانیے اچھے اچھے داڑھی کھجلاتے رہ جائیں گے۔ میں زرینہ کے سامنے بیٹھا تھا، جسے پورا حال پہلے سے معلوم تھا اور اس وقت وہ سلطان کا درگاہ پہنچنا ناممکن بنانے کے لیے الگ الگ شیطانیوں پر غور کررہی تھی۔

”وہ ننگے پاؤں ہوگا، ظاہر ہے۔ مان لو وہ پھسل کر گر پڑے، مکھن کی ایک ڈلی پر اور اپنی ریڑھ کی ہڈی توڑ بیٹھے — لیکن نہیں۔ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ وہ پھسلے اور کہیں چوٹ نہ آئے، تمہاری چاچی کی طرح، جو پچھلے ہفتے گری تو پوری پٹ، مگر اتنی ہی تیزی سے اٹھ کر جھاڑو گھماتی میرے پیچھے دوڑی۔ اچھا، اگر اس کے درگاہ میں قدم رکھتے ہی ہم پٹاخوں کی ایک لڑی چھوڑیں؟ اسے اپنی جان بہت پیاری ہے۔ جان بچاکر دوڑ پڑے گا اور شاید دلی تک دوڑتا جائے۔“
”ظاہر ہے کہ اس کے بعد تو ہم میں سے کوئی یہ دیکھنے کو زندہ بچے گا نہیں کہ درگاہ اور مزار کا کیا ہوا۔“ گھبراہٹ اور غصے میں میں نے ایک پورے کلچے کا چورا کر ڈالا جسے زرینہ بہت سلیقے سے دسترخوان سے، اپنی بکری کو کھلانے کے لیے سمیٹ رہی تھی۔ اس کی اس بے پرواہی سے میں آگ بگولہ ہوگیا۔ ”کیا تمہارے دماغ میں شیطانیوں کے سوا اور کچھ نہیں ہے؟ یہاں ہم سب، پورا کنبہ، نیست و نابود ہونے کی دہلیز پر کھڑا ہے اور تم ہو کہ تمہیں گھٹیا شرارتوں کے سوا کچھ سوجھتا ہی نہیں ہے۔ ارے، چار سال کے بچے بھی سہمے ہوئے، قہر برپا ہونے کا انتظار کررہے ہیں اور تم — اتنے گھٹیا، اتنے سستے اور ہلکے ہیں خیالات تمہارے۔ مجھے تو غصے سے زیادہ تم سے گھِن آتی ہے۔ تم ان میں سے ہو جو زندگی کو سدا گلابی شیشے سے دیکھتے ہیں۔ تم ایک شرارتی بچی نہیں، ایک خودپسند انسان ہو۔ تمہیں اپنی ناک کے آگے کچھ نہیں دکھائی دیتا۔ زندگی کو بغیر کچھ دیے جاؤگی تم یہاں سے اور جب اللہ تم سے قیامت کے دن حساب مانگیں گے تو تمہارے پاس شرارتوں کی فہرست کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوگا۔“

پہلی بار مجھے اس پر غصہ آرہا تھا۔ میں چیختا چلاتا رہا۔ ۔ اپنے ڈر اور خوف کو غصے سے دبانے کی کوشش کرتا رہا۔ زرینہ کی مسکراہٹ میری زندگی کے مسئلوں پر لمبی تقریر کے بیچ کہیں غائب ہوگئی تھی۔ لیکن میں اگر اس کے پھوٹ کر رو پڑنے کا انتظار کررہا تھا تو مجھے حیران ہونا تھا۔ خود کو سنبھال کر یوں تن کر کھڑی ہوگئی جیسے کوئی ملکہ ہو اور پورے اعتماد سے بولی، ”ترس آتا ہے تم پر جسے بس شرارتیں ہی دِکھیں، ان کے پیچھے کام کررہا دماغ نہیں۔ اللہ نے فرمایا ہے — اگر نجات کا راستہ، گناہ سے ہوکر گزرتا ہے تو اے بندے، تو سوال کرنے والا کون ہوتا ہے۔ میرا نام لے اور منزل کی طرف بڑھ۔“
میں نے اسے پوری بات سمجھانے کو کہا، اسے دھمکایا، منتیں کیں لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ میری چلبلی، چنچل بیوی، جو پچاس سیکنڈ سے زیادہ ایک جگہ ٹک کر نہیں بیٹھ سکتی تھی اور اسی وجہ سے کبھی پوری نماز نہیں پڑھ پاتی تھی، ایک دم چپ سادھ گئی۔ تین دن گزر گئے اور منہ سے ایک لفظ بھی نہ پھوٹا۔ شخصیت کے اس اچانک بدلاؤ پر ظاہر ہے کہ سوالیہ نگاہیں اٹھیں۔ صحت پوچھی گئی، بڑی بوڑھیوں نے تاریخ دریافت کی، کچھ نے رائے دی کہ اسے مائیکے کی یاد ستا رہی ہے۔ لیکن جب اسے وہاں بھیجنے کی بات ہوئی تو اس نے صاف انکار کردیا۔ ایک دادی نے خوش رہ کر، اپنی خوبصورتی بنائے رکھنے پر ایک لمبا لیکچر دے ڈالا۔ ابّا نے ایک برس پہلے، امی کے گزر جانے کے بعد سے ہی کھاٹ پکڑ لی تھی۔ وہیں سے پکار کر، سمجھنے کی کوشش کی، کہ وہ حوصلہ رکھے اور اس قہر کے بارے میں نہ سوچیں جو ابھی تک برپا نہیں ہوا ہے۔ خواجہ پیر حضرت نے ابھی تک ہمیں بے آسرا نہیں چھوڑا ہے۔ اس کے چہرے پر ایک دھیمی سی مسکراہٹ آئی، لیکن اس نے کہا کچھ نہیں۔ تین رات وہ برابر عبادت کرتی رہی، بس ایک جلتے ہوئے چراغ کو ساتھ لیے۔ تیسرے دن کی سحر میں اس نے اپنا آنچل پھیلایا اور ایک ٹک ہلکے ہوتے ہوئے آسمان کو دیکھتی رہی۔ سچ کہوں تو اس وقت اس سے ہیبت سی محسوس ہورہی تھی۔ دن بھر وہ گھر کا کام ایک عجیب باقاعدگی سے کرتی رہی۔

چوتھی صبح میں، اس کے اور بکری کے بیچ چل رہی نوک جھونک سے اٹھا۔ میں نے اطمینان کی سانس لی، سب ٹھیک تھا۔ شخصیت کا اچانک پلٹا کھانا، آس پڑوس کے لوگوں کے لیے مشکلیں پیدا کردیتا ہے۔ بدتمیز، پھکّڑ آدمی اگر اچانک تہذیب دار ہوجائے، بے پناہ غصہ ور اگر صبر کرنا سیکھ جائے تو ساتھ رہ رہے لوگوں کو اس کی طرف اپنا رویہ بدلنا پڑتا ہے۔ میرے اڑتے خیالوں کو گرم دودھ میں گھلتی ہوئی چینی کی خوشبو نے لگام دی۔ زرینہ ایک گلاس سے دوسرے گلاس میں دودھ انڈیل رہی تھی۔ صحیح گرماہٹ پر لاکر اس نے دوپٹے کے سرے میں رکھا چاندی کا گلاس میری طرف بڑھایا۔ خدایا، وہ اس کے حسن کی تابانیاں! میں تو خوشی سے اس کے ہاتھ سے زہر بھی پی لیتا۔
اس نے دھیمی آواز میں بات شروع کی۔ — ”میں نے سب سوچ لیا ہے۔ ایک چیز بھی بے ترتیب نہیں ہے۔“
”کیا سوچ لیا ہے تم نے؟“
”سلطان کو روکنے کا راستہ۔ سب کچھ ٹھیک ہے، بس تمہیں میری مدد کرنی ہے۔ مجھے ایک مرد کے ساتھ کی ضرورت ہے۔“ اس نے یہ ایک جھنجھلاہٹ بھرے لہجے میں کہا، جیسے وہ سب کچھ اکیلے ہی سرانجام دینا چاہتی تھی لیکن کچھ ایسی بات تھی کہ ایک مرد کو مجبوراً ساتھ رکھنا پڑ رہا تھا۔ اسے خوش کرنے کے ارادے سے میں نے اسے اپنا پلان بتانے کو کہا۔ ”یہاں نہیں اور ابھی نہیں۔ مجھے آج رات چھوٹی درگاہ پر لے چلو، وہاں سب کچھ بتاؤں گی۔“
چھوٹی درگاہ تکیے سے بیس میل دور، بیچ جنگل میں، ویران جگہ پر تھی۔ رات میں وہاں سے کوئی گزرنا نہیں چاہتا تھا۔ میں نے حیرانی سے پوچھا — ”وہاں کیوں، یہاں کیوں نہیں؟“
”وہ میرے مائیکے سے آدھی دوری پر ہے۔ میری پوری تجویز سننے کے بعد شاید تم میرے ساتھ رہنا نہ چاہو۔ ایسا ہوا تو میں وہاں سے اپنے والد کے گھر چلی جاؤں گی۔“ اس سے آگے بات کرنے سے اس نے صاف انکار کردیا۔ مجھ میں اگر ڈھیلے بھر کی عقل ہوتی تو میں پوری بات اپنے ابّا کو سنا ڈالتا، لیکن میں اس کی اس بات سے کہ میں اس کے ساتھ رہنا نہ چاہوں، ایسا سٹپٹایا اور بہتّر گھنٹے کی چپّی سے ایسا گھبرایا ہوا تھا کہ اس کی بات مان گیا۔

دوپہر بعد نکلنا طے ہوا۔ ابّا سے اس نے کہا کہ اسے مائیکے کی یاد آرہی ہے۔
”رات کو لوٹیں گے تو کیا کہوگی؟“ میرے پوچھنے پر اس نے جواب دیا — ”آدھے راستے میں پہیے کا پینچ گر گیا تھا۔“ یقینا ًاس نے سب سوچ لیا تھا۔
دو گھنٹے کے دھکّے دھکیلوں کے بعد، ہم پیڑوں کے اس جم گھٹ میں داخل ہوئے جسے جنگل کہا جاتا ہے۔ کوئی پون گھنٹے بعد ہم چھوٹی درگاہ کے سامنے کھڑے تھے۔ کالی کائی اور پھپھوند سے ڈھکی، چھوٹی درگاہ، خواجہ پیر حضرت کی بیٹی کا مزار تھا۔ مزار کیا، آٹھ کھمبوں پر ایک چھتری تھی اور بیچوں بیچ میں ان کی قبر۔ ان کا انتقال حمل کے دوران ہوا تھا اور یہ مانا جاتا تھا کہ ان کے مزار پر زیارت کرنے سے بال بچوں کی صحت بنی رہتی ہے اور بانجھ عورتوں کو اولاد بھی ملتی ہے۔ درگاہ کوئی خاص نہ تھی، زیارت کرنے والیاں عرس کے دوران ہی آتیں، جو پیر حضرت کے عرس کے ساتھ منایا جاتا۔ باقی وقت اس پر ویرانی چھائی رہتی۔ بیل گاڑی سے اتر کر زرینہ سیدھی مزار کی طرف بڑھی اور گھٹنوں کے بل بیٹھ کر، دونوں ہاتھ اٹھاکر دعا کرنے لگی۔ بے چاری دُکھیا! اسے اولاد چاہیے تھی مگر سب کے سامنے یہاں آنے سے شرماتی تھی۔ ٹھیک ہے، اگر وہ میرے گھر کا چراغ روشن کرنا چاہتی ہے تو مجھے بھی دعاؤں میں اس کا ساتھ دینا چاہیے۔ میں نے ایک پیڑ سے بیل باندھے اور مزار کی چار سیڑھیاں چڑھ کر اس کے برابر میں کھڑا ہوگیا۔ میری موجودگی کا احساس ہوتے ہی اس نے آنکھیں کھولیں اور مزار پر نظریں گڑائے ہوئے بولی — ”یہیں پر کرنا ہوگا۔ سلطان کو بڑی درگاہ کے بجائے یہاں آنا ہوگا۔“
”کیا کہہ رہی ہو تم؟“
”میری پلاننگ۔ تم جانتے ہو کہ یہ جھوٹی قبر ہے۔ یہاں کے سب مزاروں میں اوپر کی قبر ایسی ہی ہے۔ اصلی قبریں نیچے، تہہ خانے میں ہیں ، جس کا دروازہ کچھ دوری پر ہے۔ ہمارے خاندان کی عورتوں کے علاوہ اور کسی کو تہہ خانے میں جانے کی اجازت نہیں ہے۔ یہی میری تجویز ہے۔“
میں ہکا بکا رہ گیا۔ جتنا لگتا ہوں اتنا بے وقوف میں ہوں نہیں اور اس وقت تو اس کا پورا منصوبہ میری سمجھ میں آنے لگا تھا۔
”یہ تو کفر ہے! “ میں نے کچھ ڈانٹتے ہوئے کہا۔
”ہے کیا؟ درگاہ شریف کو بچانے کی کوشش کفر ہے؟“
”نہ سہی، لیکن اتنی خوداعتمادی تو یقیناً کفر ہے۔ کیا پتہ، بڑا مزار واقعی سلطان کے سوالوں کا منہ توڑ جواب دے۔“
”ہوسکتا ہے اور نہیں بھی ہوسکتا۔ تم سمجھتے کیوں نہیں، مجھے درگاہ شریف کی طاقت پر پورا یقین ہے، لیکن یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ وہ ایک بیہودہ، نک چڑھے سلطان سے بات کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھے۔ وہ ایک پاکیزہ روح ہے، شاید وہ اس بیوقوف کو جواب دینا گوارہ نہ کریں۔ تب کیا؟“
”تب ۔۔ تب ۔۔“ ماننا پڑے گا، اس تب کا میرے پاس کوئی جواب نہ تھا — ”تب ہم لوگ ختم ہوجائیں گے۔ مرد تو کسی طرح بسر کرلیں گے لیکن عورتیں اور بچے؟ آج ہم میں سے غریبوں کو بھی خواجہ سے خون کے رشتے کی چھاؤں ملتی ہے۔ ہمارے پیروں سے اوپر کوئی مزار نہیں اٹھتا، ہمارے بال بچوں کے منہ میں نوالہ ڈال کر لوگ یہ مانتے ہیں کہ خواجہ کو کھلایا۔ اس وقت کی سوچو — جب مرد خالی ہاتھ گھر لوٹیں گے، مائیں اس امید سے چولہے سلگائیں گی کہ ان کے معصوم بچے، اس یقین کو تھامے سوجائیں کہ کھانا بن رہا ہے۔ یہ سلطان یہی چاہتا ہے۔ ہمیں بھوکوں مار ڈالے کیونکہ ہم محبت کا پیغام پھیلاتے ہیں۔ ہمیں ختم کردینا چاہتا ہے تاکہ ہمارے ساتھ ساتھ بھائی چارا، جڑ پکڑ نے سے پہلے ختم ہوجائے۔ سیدھے سیدھے تو اتنے بڑے مزار کے وارث کو مار نہیں سکتا، بغاوت ہوجائے گی، اس لیے یہ طریقہ اپنا رہا ہے۔ وہ بے ایمانی سے جیتنا چاہتا ہے تو ہمیں ایمانداری کی کیا ضرورت ہے۔ وہ چال چل رہا ہے تو ہماری بساط بھی خالی نہیں ہے۔“

خوبصورت تو وہ ہمیشہ سے تھی لیکن اس وقت اس کے چاروں طرف نور کا ایک ایسا حلقہ چمک رہا تھا، جیسا فرشتوں کے گِرد ہوتا ہے۔ میں نے ہچکچاتے ہوئے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا اور فوراً واپس کھینچ لیا — لال انگارے سے زیادہ گرم تھا اس کا جسم۔ ڈرتے ہوئے میں نے پوچھا — ”پورا منصوبہ تو بتاؤ۔“

”میں اس تہہ خانے میں چھپی رہوں گی۔ سلطان جب سوال کرے گا تو میں جواب دوں گی۔ ایسا جواب کہ وہ بڑے مزار کے پاس پھٹکنے کی ہمت بھی نہیں کرے گا۔“

”مگر سلطان تو بڑی درگاہ کے لیے آرہا ہے۔ وہ یہاں کیوں آئے گا؟“
”یہیں تمہاری ضرورت ہے۔ تمہیں صدر سجادہ نشیں کو سلطان کو یہاں سے زیارت شروع کروانے کے لیے راضی کروانا ہوگا۔

”جیسے کہ میں کہوں گا اور وہ مان لیں گے؟“

زرینہ کی آنکھوں میں ایک پل کو مسکراہٹ جھلکی — ”کہنا تمہیں خواب آیا ہے۔ اس میں حضرت بی بی نازل ہوئیں اور تم سے فرمایا کہ سلطان کو پہلے ان کے حضور میں پیش کیا جائے۔ وہ خود سلطان سے بات کریں گے کیونکہ وہ نہیں چاہتیں کہ ان کے بابا کی شان میں کوئی گستاخی ہو۔ دو سال پہلے ہی صدر سجادہ نشیں کو، بی بی کے مزار سے پہلا بیٹا ملا ہے۔ وہ بی بی کی خواہشوں کے خلاف ہرگز نہیں جائیں گے۔ باقی سب وہ سنبھال لیں گے۔“

پہلی بار اس کے جھوٹ بولنے کی صلاحیت کو میں نے سراہا۔ آج کے دور میں ہوتی تو کامیاب سیاسی لیڈر ہوتی۔ اس کی سب بچکانہ حرکتیں ایک تیز دماغ کا غلط استعمال تھیں۔ ایسی ذہانت جو تکیے کی سوئی ہوئی زندگی میں دفن ہوجانے کو راضی نہیں تھی۔ جسے ایک مقصد مل جانے کی دیر تھی۔ اب تو اسے حفاظت کرنی تھی — پورے کنبے کی — دیوی درگا کی طرح جو اپنا گھر بار چھوڑ، مہیشاسور کو مارنے نکلی تھی تاکہ انسانیت بچی رہے۔ لیکن تھی تو وہ ایک نازک سی عورت، اور زمین پر بسنے والیاں دیویاں تو ہوتی نہیں۔ انھیں سہارے اور حفاظت کی ضرورت ہوتی ہے اور میری زرینہ تو ایک نازک ہارسنگار کا پھول تھی۔ میں نے اس کے ہاتھوں کو چوم کر آنکھوں سے لگایا — ”ہم تمہارا منصوبہ ہی اپنائیں گے لیکن اسے مجھے انجام دینے دو۔ میں خواجہ پیر حضرت کی مزار کے نیچے تہہ خانے میں چھپ کر بادشاہ سے بات کرتا ہوں۔ یہ ٹھیک نہیں ہے۔ ایک عورت کا اکیلے، شاید پوری رات، ایک کچی قبر کے پاس۔ مجھے کرنے دو — بات مانو۔“

”میرے محسن، میری جان!“ اس کی آنکھوں میں نمی جھلملائی۔ صرف اس بار وہ آنسو بن سڈول گالوں پر پھسلی نہیں۔ یہ اصلی آنسو تھے۔ کہا — ”کاش کہ تم یہ کر گزرتے۔ لیکن تم میں اتنی قوت ہے نہیں، تم جانتے ہو۔ آخری پل میں تمہاری ہمت جواب دے جائے گی اور اتنا بڑا خطرہ مول نہیں لیا جاسکتا۔ دوبارہ موقع نہیں ملے گا، یہ ایک داؤ کا کھیل ہے، شہہ یا مات۔“ کہتے کہتے اس کی آواز دبے ہوئے آنسوؤں سے بھرّا گئی۔ جانتا تو میں بھی تھا کہ وہ سچ کہہ رہی ہے۔ قبر کے تہہ خانے میں اکیلے کچھ منٹ گزارنے کے خیال سے ہی میری ہوش کے فاختے اڑنے لگتے تھے، رات گزارنا تو دور کی بات۔ اس نے میرا ہاتھ تھام لیا — ”یہ سچائی کی گھڑی ہے۔ ایک دوسرے سے جھوٹ نہ بولیں۔ ہمیں اپنی طاقتوں کو ملاکر سلطان کو ہرانا ہے۔ ہم کیوں وقت برباد کریں، یہ ثابت کرنے میں کہ ہم میں سے کون زیادہ مضبوط ہے۔“

گھر لوٹتے ہوئے ہم دونوں بالکل خاموش تھے لیکن اس خاموشی میں ایک رفاقت تھی جو ہمارے رشتے میں پہلے نہیں تھی۔ گھر پہنچ کر زرینہ نے اپنا ناٹک کھیلا، بیل گاڑی سے لے کر اپنے دُکھتے پیروں تک کی دُہائی دی۔ میں نے بیل لوٹائے اور تھکاوٹ کا بہانہ کرکے، منہ ڈھک کر سو رہا۔

اگلے دن چیزیں تیزی سے گھومنے لگیں۔ صدر سجادہ نشیں نے میرے خواب کو سنا اور گھٹنوں کے بل گر کر پروردگار کا شکر ادا کیا جس نے ہمیں بچنے کی راہ دکھائی ہے۔ خبر تیزی سے پھیلی اور تکیے کا بھاری ماحول کچھ ہلکا ہوا۔ لوگ مجھے عزت کی نظر سے دیکھنے لگے۔ اب میں ایک باغی بیٹا یا شیطان زرینہ کا شوہر نہیں تھا۔ میں وہ فرد تھا جسے حضرت بی بی نے اپنا پیغام پہنچانے کے لیے چُنا تھا۔ اب سب کو چمتکار کا انتظار تھا۔

ابھی سلطان کے آنے میں چار دن باقی تھے۔ صدر سجادہ نشیں خود چل کر میرے گھر آئے۔ میں تو ایسا سکپکایا کہ تقریباً سچ اگل بیٹھا۔ وہ تو زرینہ نے مجھے ایک طرف دھکیل دیا اور خود ان کے قدموں میں گرگئی۔ بیچارے سمجھے اپنی شیطانیوں کی معافی مانگ رہی ہے۔ انھوں نے اسے معاف بھی کردیا اور سات بیٹوں کی ماں ہونے کی دُعا بھی دی۔ میرے خواب، یعنی اس کے خواب کے بعد سے وہ بہت سیانی ہوگئی تھی۔ گھنٹوں گھر کی صفائی کرتی، پکوان بناتی یا سلائی کرتی رہتی۔ اس کے اس سلیقے پن سے ایسا لگتا جیسے وہ بہت دنوں کے لیے، کہیں دور جانے والی ہے۔ اس کے سیانے پن کو، حضرت بی بی کے قدم اس گھر میں پڑنے سے جوڑا گیا اور اسے معاف کردیا گیا۔ میں نے اصرار کیا کہ صدر صاحب کو مجھے بلا لینا چاہیے تھا لیکن انھوں نے یہ کہہ کر میرا جملہ کاٹ دیا کہ جس گھر میں حضرت بی بی آسکتی ہے اس میں وہ کیوں نہیں؟ اس کے ساتھ ہی انھوں نے مجھے حکم دیا کہ میں اس قافلے کے ساتھ چلوں جو کل جاکر مزار کی صفائی کرنے اور پھر تین دن پہرا دینے جارہا ہے ۔۔ سلطان بھلے ہی کندذہن اور بیوقوف سہی، پھر بھی وہ آخر بادشاہ تھے اور ایک پاک صاف مزار دیکھنے کے حقدار تھے۔
”کب جانا ہوگا؟“ میں نے ڈرتے ہوئے پوچھا۔
”آج آدھی رات کے بعد، تاکہ فجر کی نماز مزار پر پڑھی جاسکے۔“ میرا تیزی سے دوڑتا خون جم کر برف ہوگیا۔زرینہ کی کوہنی نے مجھے ٹھیلا تو میں سکتے سے باہر آیا اور رخصت ہوتے ہوئے سجادہ نشیں کو جھک کر سلام کیا۔ پھر پلٹ کر میں نے زرینہ کے کندھے تھام لیے، جیسے ڈوبتا ایک تنکہ دبوچ لیتا ہے — ”اب کیا کریں؟“
”کچھ نہیں۔“ اس نے اطمینان سے جواب دیا۔
”لیکن اب ہم تہہ خانے میں کیسے داخل ہوں گے؟ سنا نہیں، مزار پر پہرہ رہے گا۔“
”کل صبح سے۔“ اس نے بات پوری کی۔
”تو کیسے ہم ۔۔۔؟“
”مجھے آج رات وہاں چھپنا ہوگا۔“ اس نے ایسے جواب دیا جیسے وہ پہلے سے جانتی تھی کہ ایسا کچھ ہوگا۔
”مگر زرینہ، تین دن، چار راتیں۔ ایک مقبرے کے تہہ خانے میں، کیسے زندہ رہوگی؟ کھانے پینے کی کوئی چیز تو کچی قبر کے پاس حرام ہے۔“ میرے سوال پر اس نے ایک نظر بھر مجھے دیکھا، پھر بولی — ”تین دن کی بھوک اور پیاس سے آج تک کوئی مرا نہیں۔ ویسے بھی پانی پینے کا مطلب ہوگا کہ مجھے باہر آنے کی ضرورت پڑے گی۔ میں مزار کو تو ناپاک کروں گی نہیں۔ لیکن ہاں، ایک بات ہے، تم باہر پہرے پر نہ رہنا۔“
”کیا مطلب ہے تمہارا؟ میں تمہیں وہاں اکیلا چھوڑ دوں؟ میں باہر موجود رہوں گا۔ مان لو تم پکڑی گئی۔ نہیں، ہرگز نہیں!“
”تم مجھے مجبور مت کرو، ورنہ میں جاکر صدر صاحب کو بتادوں گی کہ تمہارا خواب دراصل میرا من گڑھت لطیفہ تھا، میری ایک اور شرارت۔ ہاں جانتی ہوں، مجھے سزا ملے گی، شاید تمہیں مجھے طلاق دینا پڑے۔ مگر بخشے تو تم بھی نہیں جاؤگے۔ تم نفرت اور ملامت کا نشانہ بنوگے۔ ایک ایسا مرد جو اپنی بیوی کے حسن پر ایسا لٹّو ہے کہ سارے تکیے کو بیوقوف بنا ڈالا، حد دیکھیے، حضرت بی بی کے ہی بارے میں لطیفہ بنا ڈالا۔ حقّہ پانی تو تمہارا بھی بند ہوجائے گا۔“

”تم مجھے دھمکی دے رہی ہو؟“
”نہیں۔ بس سمجھا رہی ہوں کہ اب میرا ساتھ دینے کے علاوہ تمہارے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔ تم سمجھتے کیوں نہیں، تم تین دن تک یہ سب نہیں جھیل پاؤگے۔ تمہارے ہاؤ بھاؤ سے لوگوں کو شک ہوجائے گا۔ تم سے سوال جواب ہوگا اور پھر سچ باہر آجائے گا۔ میں جانتی ہوں تم مجھے بہت پیار کرتے ہو، لیکن تین دن کی جدائی تو کوئی بات نہیں ہے۔ بنی بنائی بات داؤ پر مت لگاؤ۔ اللہ نے چاہا تو ساری عمر ہمارا ساتھ رہے گا۔“

رات کا آخری دِیا بجھتے ہی ہم گھر سے نکلے۔ لُکتے چھپتے، تکیے سے باہر اور پھر پیدل چھوٹے مزار تک۔ اس بار بیل گاڑی کا آرام کہاں۔ مزار پر پہنچے تو زرینہ نے نظر بھر ٹھہرے ہوئے آسمان کو دیکھا۔ میں نے سوچا شاید وہ دُعا کے لیے ہاتھ اٹھائے لیکن اس نے خاموشی سے اپنی جوتیاں اتاریں اور مجھے تھمائیں ۔ میں نے ایک چھچھلا سا گڈھا کھودکر انھیں چھپا دیا۔ پھر میں نے پتھر کا بھاری دروازہ اٹھایا اور اسے اندھیری سیڑھیوں سے اترنے میں مدد کی۔ دروازہ بند کرکے میں نے دعا کی، شاید پہلی بار دل سے۔ اس کے لیے، اس کی کامیابی کے لیے، یا تکیے کے لیے؟ معلوم نہیں!

دور سے آتی ہوئی بیل گاڑیوں کی گڑگڑاہٹ سے مجھے ہوش آیا۔ میں نے کوئی انچ بھر دروازہ اٹھاکر کہا — ”وہ لوگ آگئے ہیں زرینہ، میں جارہا ہوں، خدا حافظ۔“ ایک دور سے آئے ہوئے خدا حافظ کو سن کر میں نے دروازہ بند کردیا اور جنگل میں اندر کی طرف چل پڑا۔ اگر میری زرینہ سیلے ہوئے، نم، اندھیرے مقبرے میں بند تھی تو میں بھی اس سے بہت دور نہیں جاؤں گا۔ اس جنگل میں میں نے اپنے لڑکپن کی بہت سی دوپہریں گزاری تھیں۔ یہاں پر چھپنے کے کونے اور پانی کے سب سوتے مجھے معلوم تھے۔ اگلے تین دن میں نے کیسے گزارے یہ سنا کر آپ کا وقت نہیں برباد کروں گا۔ اتنا ہی کہوں گا کہ تمام منصوبوں کے باوجود، کہ میں کم سے کم بھوک اور پیاس میں تو زرینہ کا ساتھ دوں گا، میں ایسا کر نہیں پایا۔ میں نے تالاب سے پانی بھی پیا اور سرکنڈے کے کانٹے بناکر مچھلیاں بھی پکڑیں۔ نہایا اور کپڑے بھی دھوئے۔ بات کا لب ِ لباب یہ ہے کہ میں نے اپنے اکیلے پن کا مزا لیا۔ بیچ بیچ میں تو بھول بھی جاتا کہ میری جان ایک قبر کے ساتھ قید ہے اور بددماغ، خودغرض بادشاہ کا دماغ ٹھیک کرنے کا انتظار کررہی ہے۔

چوتھے دن کے سورج کے ساتھ، خوف اپنے پورے تشدد کے ساتھ لوٹا، میں کبھی پسینے سے بھیگ جاتا، کبھی ٹھنڈ سے کانپنے لگتا۔ دل کے جذباتوں کے بیچ ڈولتا۔ کیا مزار سے کچھ دور چھپ کر دیکھوں کہ آخر ہوتا کیا ہے یا کہیں دور بھاگ جاؤں؟ دن اس کشمکش میں کاٹنے کے بعد، شام کو میں نے زبردستی خود کو راضی کیا کہ مزار کے پاس جاؤں۔ جنگل پار کرکے جب میں مزار کے پاس آیا تو پہلے ہلکی سی، پھر برابر بڑھتی ہوئی آواز سنائی دی۔ شہنائی اور تاشے کی آواز۔ میرے قدم تیز ہوگئے اور ایک برگد کی آڑ میں میں نے دیکھا، مزار پر جشن منایا جارہا ہے۔ چاروں طرف کے گاؤں کے لوگ جمع تھے۔ فی البدیہہ گانے، جیسا کہ صرف عوام ہی بنا سکتے ہیں، گائے جارہے تھے۔ بی بی کے چمتکار کے سنجیدہ گیت، فلسفے کے گیت کہ خدا کیوں اپنے مریدوں کا ساتھ نہیں چھوڑتا اور مذاقیہ گانے، سلطان اور اس کے امیر و امرا ء کا مذاق اڑاتے ہوئے گیت۔ لوک گیت، جنھیں گاکر اس دیش کی جنتا اپنی بھوک، تکلیف، قرض اور تڑپ کو بھلا دیتی ہے۔

پورا تکیہ وہاں تھا اور جشن میں شامل تھا جس کا ایک ہی مطلب ہوسکتا تھا کہ زرینہ کامیاب رہی۔ میں نے دوڑ کر تہہ خانے کے دروازہ کو کھول دینے کی اپنی خواہش کو دباکر انتظار شروع کیا، جو لمبا اور لمبا ہوتا گیا۔ تقریباً سحر ہورہی تھی جب پہلی گاڑی وہاں سے چلنا شروع ہوئی اور دوپہر ہوچلی تھی جب تک مزار پھر سے ویران ہوا۔

میں نے دروازہ اٹھایا۔ اندر گہری سیلن اور نمی کی دیوار جیسی تھی جو میری پکار کو باہر ٹھیل دے رہی تھی۔ میں نے دوبارہ پکارا اور بے قراری سے نیچے لپکا۔ میری آنکھوں کو اندر کی دھند اور بھاپ کی عادت پڑنے میں کچھ پل لگے۔ پھر نظر گھماکر دیکھا تو وہ کہیں نظر نہیں آئی۔ میرے دل کی وہ حالت ہوئی جو رس نچوڑے گنے کی ہوتی ہے۔ میرے خیال کے گھوڑے بے لگام ہوگئے۔ شاید حضرت بی بی اسے اٹھا لے گئی یا شاید شیطان نے موقع پاکر اسے آگ اگلتی کھائیوں میں جھونک دیا۔ ایک بجھی سی کراہٹ نے میرا دھیان کھینچا اور میں نے دیکھا کہ کچی قبر سے لپٹا، ہلکا نیلا کفن اوڑھے ایک بے جان جسم پڑا ہے۔ بی بی کی قبر کے پاس مردوں کو آنے کی اجازت نہیں ہے۔ لیکن میں رواج کی پرواہ کیے بغیر سیڑھیاں چھوڑ اس طرف لپکا۔ فرش پر ٹخنوں تک کیچڑ تھی۔ گھڑوں پانی، جس سے اوپر کا مزار دھویا گیا تھا، نیچے تہہ خانے میں رِس گیا تھا۔ پہلے تو زرینہ جگہ بدلتی رہی، لیکن اس چھوٹے سے تہہ خانے میں اتنی نکاسی کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ گھٹن ایسی ہوتی کہ سانس لینا مشکل ہوجاتا۔ رات کو جب پارا گرتا تو یہی بھاپ برستی اور ہڈیاں تک نم کرجاتی۔ اس کے پاس نہ پسینہ پونچھنے کے لیے کچھ تھا نہ ان برفیلی اوس کی بوندوں کو سکھانے کے لیے۔ ایک دن ایک رات جیسے تیسے کٹا۔ دوسری رات اسے بخار چڑھنا شروع ہوا۔ اس کا سر پھٹنے اور جسم ٹوٹنے لگا۔ ٹھٹھرتی کانپتی وہ سمجھ گئی کہ وہ بدحواسی کی طرف پھسل رہی ہے۔ وہ ہوش کی دعائیں کرنے لگی، بس ان چند پلوں کے لیے جب سلطان وہاں آئے گا۔ وقت بہت دھیرے گزر رہا تھا۔ دن میں ہلنا ڈُلنا، یہاں تک کہ زور سے سانس لینا بھی ناممکن تھا۔ اوپر بہت لوگ ہوتے۔ رات کو بھی آرام نہ مل پاتا کیونکہ رات کو آواز زیادہ دور تک جاتی ہے اور زیادہ ہوشیار رہنا پڑتاہے۔ اس کی دنوں کی گنتی گڑبڑاگئی اور یہ بھی سمجھ میں نہیں آیا کب سلطان کے آنے کا دن آگیا۔

ایک لمبی نیند کے بعد وہ اپنے جسم پر تیز نیزوں کی چبھن سے اٹھی۔ ہوش آیا تو سامنے شیطان نظر آیا۔ اسے لگا اسے جہنم میں بھیجا جارہا ہے اور وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے وہ شیطان پر برس پڑی۔ اس نے شیطان کو حکم دیا — ”جا، نکل جا! دور ہو! میرا کام ابھی پورا نہیں ہوا۔ مجھے اپنے لوگوں کی حفاظت کرنی ہے۔“ جب شیطان نے جانے میں کوتاہی دکھائی تو اس نے وہ گالیاں دے ڈالیں جو اسے شیطانی لالچوں سے بچنے کے لیے سکھائی گئی تھیں۔ آخرکار وہ غائب ہوگیا اور وہ بے ہوش ڈھے پڑی تھی اور ابھی میری بانہوں میں ہوش میں آئی۔

چلنا تو دور، اس سے تو سیدھا کھڑا بھی نہیں ہوا جارہا تھا۔ میں اسے کندھے پر لادکر باہر لایا۔ برگد کے نیچے لٹاکر اسے پانی پلایا اور پھر بھُنی مچھلی کے کچھ ٹکڑے اس کے حلق کے نیچے اتارنے کی کوشش کی۔ اس نے فوراً الٹی کردی جس سے ایک فائدہ تو ہوا کہ اس کا بھٹکتا ہوا ذہن سنبھل گیا اور تالاب پر چڑھ کر اس نے ہاتھ منہ دھویا۔ اسے ابھی تک تیز بخار تھا اور مجھے تکیے میں کہنے کو کوئی بہانہ نہیں سوجھ رہا تھا۔ وہ بیچاری اتنی کمزور تھی کہ اس سے ڈھنگ کی بات سوچنے کی اُمید بھی بیکار تھی۔ میں نے فیصلہ لیا کہ اس حالت میں اسے تکیے لے جانا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ اس لیے ہم دوسری طرف چلتے ہوئے ایک گاؤں پہنچے جہاں سرائے میں ایک کمرہ لے کر چار روز اس کی تیمارداری کی۔

چار دن کی سرائے کی سراہت میں میں نے سب حالات معلوم کرلیے تھے۔ سجادہ نشیں کی گزارش سن کر، وہ گھمنڈی سلطان ایک طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ راضی ہوگیا اور چھوٹی مزار کی طرف چلا۔ اپنے بارے میں خوش فہمیوں کے سرور میں مست، وہ جانتا تھا کہ اسے درگاہ کی ملکیت ہڑپنے سے کوئی نہیں روک سکتا تھا۔ وہ ایک کٹّر مسلمان تھا اور یہ سب خواب و آب میں دِکھنا تو دراصل کفر ہی ہے۔ خدا اور روح بنا شکل اور صورت کی تھیں اور ایسی ہی رہیں گی۔ سادا کالا لباس پہنے، کمر میں تلوار اور پیروں میں ڈچ جوتے۔ جہانگیر کے وقت میں ہندوستان نے خود کو ایم این سی کے لیے کھول دیا تھا اور ولایتی جوتوں نے دیسی کچے چمڑے کی بکری گرا دی تھی۔ وہ نیا فیشن تھا اور سلطان کو اپنے حسن پر اتنا تو گمان تھا ہی کہ شوق کی ایسی چیزیں پہنے۔ حالانکہ بات تعجب کی ضرور تھی کیونکہ کہا جاتا تھا کہ وہ اپنا ذاتی خرچ قرآن لکھ کر چلاتے تھے۔ جوتے مہنگے بھی تھے اور ایک بار پہن لیے جائیں تو اتارنے میں مشکل تھی۔ سجادہ نشیں اور ان کے ساتھ کے لوگ تو پل بھر میں جوتیاں کھول، ادب سے ایک طرف کھڑے ہوگئے۔ سلطان اور ان کے مصاحبوں میں کافی کھینچ تان اور اٹھاپٹخ چلی۔ کیا اس سے زرینہ کو ہوش آیا ہوگا؟

سلطان مقبرے میں داخل ہوئے اور مزار کے پاس کھڑے ہوکر فاتحہ پڑھی ۔ پھر تن کر کھڑے ہوگئے، تلوار مغلیہ کی طرح جس کے ساتھ اکثر ان کا مقابلہ کیا جاتا تھا اور بلند آواز میں پوچھا — ”کیا یہ ایک پاک روح کی قبر ہے؟ کیا بانجھ عورتوں کی گود یہاں آنے سے بھر سکتی ہے؟ جواب دو۔“ ایک منٹ تک تاریکی چھائی رہی۔ پھر پورا مقبرہ یوں تھرتھرانے لگا جیسے مزار ابھی پھٹ جائے گا۔ دور سے، ایک گونجتی ہوئی آواز نے جواب دیا — ”دور ہو میرے سامنے سے۔“ سلطان یوں سکتے میں کھڑا رہا جیسے اسے لقویٰ مار گیا ہو۔ پھر تو جیسے اس آواز کی برداشت کا بندھ ٹوٹ کر پھٹ پڑا ہو۔ اس نے بادشاہ کو وہ وہ گالیاں دیں کہ سب کے سر شرم سے جھک گئے۔ سلطان کچھ دیر اور سہہ سکا پھر اس کے گھٹنے جواب دے گئے۔ وہ اوندھے منہ گر کر بلک بلک کر رونے لگا۔ کبھی بچوں کی طرح سبکتا، کبھی پاگلوں کی طرح دھاڑیں مارتا، بی بی سے التجا کرتا کہ اس کی بھٹکتی ہوئی روح کو سہارا دیں اور قیامت کے روز جب سب کے گناہوں کا حساب ہوگا تو اپنا گنہگار مان کر اس کا دامن نہ تھامے۔ آخر صدر سجادہ نشیں، خدا ان کی روح کو بخشے، جھکے اور سلطان کو، جو آخرکار تھا تو انسان ہی، سہارا دے کر باہر لے گئے۔

میں ہر دن بڑھتی ہوئی تفصیل روز زرینہ کو سناتا، جو بغیر کچھ کہے چپ سنتی رہی۔ اپنے سب سے پیچیدہ چھل کی بے پناہ کامیابی جیسے اسے کوئی خوشی نہیں دیتی۔ پانچویں دن زرینہ کی حالت ایسی ہوگئی کہ سفر کرسکے۔ میں کرائے کی بیل گاڑی بلا لایا اور ہم دونوں تکیے کی طرف چلے۔
جیسے جیسے ہم تکیے کے پاس آتے گئے، زرینہ جیسے خود میں سکڑتی، سمٹتی چلی گئی۔ جیسے اس کا وجود ضرورت سے زیادہ بڑا ہوگیا ہو اور وہ خود کو سمیٹ کر کسی کونے میں دُبک جانا چاہتی ہو۔ وہ اپنی جگہ سے ایک انچ بھی کھسکی نہیں تھی، تو بھی مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے وہ سرکتی ہوئی یوں میرے پاس آرہی ہے جیسے کوئی چوچہ، چیل سے ڈرکر، اپنی ماں کے محفوظ پنکھ تلاش کرتا ہے۔ یہ میرے لیے ایک نیا تجربہ تھا۔ شادی کے ان چار سالوں میں اسے کسی سہارے کی، اور میرے سہارے کی تو بالکل، ضرورت نہیں پڑی تھی۔ مجھے شک ہوا کہ شاید یہ میری اپنی اندرونی خواہش ہے۔
راستہ بنا کسی حادثے کے گزر گیا اور ہم جھٹپٹے کے وقت تکیے میں داخل ہوئے۔ نان بائیوں نے رات کے کھانے کے لیے بس تندور سلگایا ہی تھا اور تازی سینکتی ہوئی روٹیوں کی مہک، مزار سے آنے والی لوبان اور اگربتی کی خوشبو کے ساتھ گھل کر گلیوں میں پھیل رہی تھی۔ آہ گھر! میں نے پہلے نانبائی کی طرف سلام میں ہاتھ اٹھایا۔ اس کی آنکھیں مجھ سے ملیں، ایک پل کو رُکیں پھر جلدی سے ہٹ کر دوسری طرف دیکھنے لگی۔ اب یہ مجھے کیوں نظرانداز کررہا ہے؟ ایسا چار واقف کاروں کے ساتھ ہوا تو میری سمجھ میں آنے لگا کہ کچھ گڑبڑ ہے۔ زرینہ کی نظریں مستقل سڑک پر گڑی تھیں لیکن میں سمجھ گیا کہ اس نے میری بے اطمینانی دیکھ لی ہے۔ گھر پہنچ کر میں نے گاڑی والے کی طرف کرایہ بڑھایا۔ اس نے میری طرف مشتاق نظروں سے دیکھتے ہوئے بیلوں کو ’چ چ چ چ‘ کہہ کر روانہ کیا۔ زرینہ میرا انتظار کررہی تھی اور چوکھٹ پر کھڑے، اس کی آنکھوں میں ٹھہرا ہوا ایک سکون تھا جیسے وہ آنے والی مصیبت کے لیے تیار تھی۔ دروازہ بھڑا تھا، بند نہیں۔ میں نے اسے دھکا دے کر کھولا اور اس کے چرمراتے ہوئے قبضوں کے ساتھ ہی آواز آئی — ”کون؟“
”ہم ہیں بابا، آپ کا بیٹا اور بہو۔“ مجھے جملہ پورا کرنے کا موقع تک نہیں ملا۔ گالیوں کی ایسی جھڑی لگ گئی کہ کیا بتاؤں۔ میں شیطان کا جنا، جناتوں کا پوسا، ابلیس کی اولاد تھا جو ایک عورت کے بہکاوے میں آگیا۔ جوکہ خود اصل میں ایک ڈائن، ایک پچھل پیری، ایک چڑیل تھی۔ ان کے چیخنے چلانے سے اڑوس پڑوس کے لوگ گھروں سے باہر آگئے۔ گالیوں کی جھڑی ہلکی بھی نہیں ہوئی تھی کہ صدر سجادہ نشیں کے یہاں سے بلاوا آپہنچا — ہمیں فوراً حاضر ہونے کا حکم ہے — ہاں ہم دونوں کو فوراً۔
”اپنی موجودگی سے تکیے کو ناپاک نہ کرو! یہ ایک پاکیزہ جگہ ہے — جاؤ، چلے جاؤ یہاں سے!“
”لیکن کیوں، ہماری غلطی کیا ہے، اتنا تو ہمیں جاننے کا حق ہے۔“
”حق! ایک کافر کو بھلا دینداروں کے بیچ کیا حق حاصل ہوسکتے ہیں۔“
میرا خون جم گیا تھا۔ تو ہمارا بھیدا کھل گیا تھا اور سزا کی گھڑی تھی۔ میں نے ڈرتے ڈرتے کہنا شروع کیا — ”ہم کافر نہیں ہیں۔ بات بس اتنی تھی کہ ۔۔“
”کہ تمہیں اپنی جان کی زیادہ فکر تھی۔ تمہیں ڈر لگ رہا تھا۔ بی بی حضرت کے تم کو چننے کے باوجود تم ڈر رہے تھے۔ انھوں نے تمہیں چنا اپنا سندیش ہم سب تک پہنچانے کے لیے۔ تب بھی تمہیں ڈر لگا! تم چوروں کی طرح، ایک بیمار، مجبور باپ کو اکیلا چھوڑ، بھاگ گئے اس رنڈی کے کہنے پر“
”اب دیکھیے جناب ۔۔“
”خاموش! ایک لفظ مت کہنا! جب تم میرے پاس آئے، اپنا خواب سنانے، تب تمہیں عقیدہ تھا۔ جب تم واپس گئے، تو اس نے تمہیں سمجھا دیا کہ کوئی چمتکار نہیں ہوگا۔ اپنے جادو اور چھل کی پوری طاقت سے اس نے تمہیں بھاگ جانے کے لیے راضی کرلیا۔ دراصل، ڈر اسے تھا، کہ حضرت کی پاک روح کی موجودگی میں یہ ٹک نہیں پائے گی، اس کا بھید کھل جائے گا۔ اور تم؟ تم نے شیطان کو اپنے اوپر حاوی ہونے دیا اور اس خوبصورت بلا کے بہکاوے میں آگئے۔ میرے حکم کو تو تم نے نظرانداز کیا ہی، اپنے لاچار باپ کو بھی بھول گئے۔ ارے، وہ تو مرجاتا اگر خواجہ پیر حضرت کا اس پر کرم نہ ہوتا۔ تم اللہ اور انسانیت، دونوں کی نظر میں مجرم ہو۔ نکل جاؤ اور کبھی تکیے میں داخل ہونے کی کوشش نہ کرنا۔“
اچانک زرینہ نے بولنا شروع کیا اور صدر صاحب کا ہاتھ، جو اسے خاموش کرنے کو اٹھا تھا، دھیرے دھیرے نیچے آگیا۔ اس کی آواز میں ایسا اختیار، ایسی کوشش تھی کہ وہ چپ رہے۔
”ہاں میں جادو ٹونا کرتی ہوں، ڈائن ہوں۔ میں نے اپنے جال میں انھیں لبھاکر، بھاگ جانے کے لیے راضی کیا۔ مجھے اپنا راز فاش ہوجانے کا ڈر تھا۔ مجھے برادری سے باہر کردیجیے، لیکن انھیں رہنے دیجیے۔ میرے بنا یہ خود کو، اپنی بھٹکتی روح کو اور اللہ کو پالیں گے۔ آپ بھی ہوں گے ان کی رہنمائی کرنے کو۔“
وہ مڑکر باہر کی طرف چلی۔ سجادہ نشیں بس بُدبُدائے — ”ایسا ہی ہو۔“ لیکن میں تو ایسا نہیں ہونے دے سکتا تھا۔ اس کے پیچھے بھاگا اور اس کے ساتھ چلنے لگا۔ وہ میری منتیں کرنے لگی کہ لوٹ جاؤں، کیونکہ میں تکیے کے بنا رہ نہیں پاؤں گا۔ اگر وہ ڈائن تھی تو اب اس کی طاقتیں ختم ہوچکی تھیں۔ میں نے اس کی خوشامدوں میں سے ایک نہ سنی اور ہم تکیے سے کچھ ضرورت کی چیزیں اور بہت ساری ملامتوں کا بوجھ اٹھائے ایک ساتھ نکلے۔
جنگل میں، ایک تالاب کے کنارے، بی بی کے مزار سے کچھ ہٹ کر، میں نے ایک جھونپڑی بنائی اور ہم دونوں نے، زندگی سے الگ، ایک زندگی شروع کی۔ زرینہ کڑھائی کرتی اور ٹوپیاں بناتی۔ میں انھیں زیارت کرنے آنے والے کارواں کو بیچتا۔ مجھے کئی کئی دن، سڑک کے کنارے گزارنے پڑتے۔ زرینہ کبھی اکیلے پن پر نہ کوئی شکایت کرتی، نہ جھونپڑی کی تکلیف کا ذکر کرتی۔ ایسا لگتا جیسے اس کی سب چاہتیں ختم ہوگئی ہیں۔ میں ایک بچے کی دعائیں مانگتا، اس امید سے کہ شاید زرینہ کی زندگی میں دلچسپی پیدا ہوجائے۔ مگر بی بی کی نظرعنایت اس پر نہیں ہوئی۔ میں نے اس سے بار بار گزارش کی، کہ وہ سجادہ نشینوں کے سامنے سب قبول کرلے اور ہم تکیے لوٹ چلیں۔ لیکن اس نے بس اتنا جواب دیا۔ ”یہ ہماری سلیب ہے۔ اسے ہمیں ہی اٹھانا ہے۔ بہتر ہے کہ ہم یہ بوجھ اٹھائیں اور ان سب پر آنچ نہ آئے۔“
ایک دن میں نے اجمیر جانے والے قافلے کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہاں زیادہ ٹوپیاں بکنے کی امید تھی۔ کچھ پیسوں کی ضرورت بھی تھی کیونکہ زرینہ کی کھانسی میں خون آنے لگا تھا۔ کسی اچھے حکیم کو دکھانا ضروری تھا۔ واپسی میں اٹھارہ دن لگ گئے۔ جنگل میں داخل ہوا تو وہاں ایک عجیب سی قدرتی چہل پہل سے ذرا حیرانی ہوئی۔ میں سنسان بیابان کا عادی ہوچکا تھا اور زندگی کی ہلچل مجھے عجیب بھی لگی اور میرا دل بھی دہلا گئی۔ میں نے رفتار بڑھادی اور جب جھونپڑی نظر آئی تو میں تقریباً دوڑتا ہوا اندر گھسا۔ زرینہ پلنگ پر لیٹی ہوئی تھی، پرسکون نیند میں کھوئی۔
میں نے لڑکپن کے کچھ دوستوں کو راضی کیا کہ اسے دفن کرنے میں میری مدد کریں۔ انھیں ڈر تھا کہ اگر اسے باقاعدہ مذہبی طریقے سے دفن نہ کیا گیا تو اس کی ناپاک روح تکیے اور اس کے آس پاس ڈولتی رہے گی۔ راضی تو وہ ہوگئے، لیکن اسے جگہ دی قبرستان سے دور، معمولی والے کونے میں۔ رشتے داروں کو کچھ میرے اکیلے پن پر ترس آیا، کچھ انھیں لگا کہ اب تو میں اس چڑیل کے شکنجے سے چھوٹ گیا ہوں، لہٰذا مجھے واپس تکیے میں پناہ ملی۔ لیکن تمام کوششوں کے بعد بھی میرے قدم اکثر مجھے تالاب کے کنارے بنی، جنگل کی اس مڑھیا کی طرف کھینچتے تھے۔ جب میری موت ہوئی، تو مجھے قبرستان کے دوسرے سرے پر، زرینہ سے جتنی دور ہوسکے، دفن کیا گیا۔ نہ میری، نہ اس کی، دونوں کی ہی قبروں پر سنگ مرمر یا پتھر کا کتبہ ہے۔ بس چند اینٹیں ہیں نشانی کے طور پر اور چکنی مٹی کی ٹکیہ جس پر ہمارا نام تھا۔ ہم دونوں ایک دوسرے سے اتنی دور ہیں اور اس تک پہنچنا اتنا مشکل! اس جگہ اتنی بھیڑ رہتی ہے ناں، روحوں کی آمد و رفت کی۔ تو بھی کبھی کبھار ملنا ہوہی جاتا ہے اور تب اس کی قبر پر بیٹھے، ہم گئے دنوں کی باتیں کرتے ہیں اور ہنستے ہیں۔ زرینہ اب بھی بلا کی حسین ہے اور میں اس کا عاشقِ جاوداں ہوں۔ آج ملنے کی رات ہے۔ میں وہیں جارہا ہوں۔ اس کی قبر اُدھر پورب کی طرف ہے۔ کبھی آنا اور میری زرینہ کو دیکھنا۔ دیکھنا، ہم کتنے خوش ہیں۔“
ایک آہ بھرکر وہ اُٹھے اور جامن کے اس جھرمٹ کی طرف چلے جو پورب والے حصے کو باقی قبرستان سے الگ کرتا ہے۔ سبز پیڑوں میں اوجھل ہو جانے سے پہلے وہ ایک بار مڑے اور حسرت بھری آواز میں بولے — ”آنا ضرور، کبھی کبھی بے حد تنہائی کا احساس ہوتا ہے، بس ہم دونوں ہی ہیں نا!“
کسی کے میرے کندھے پر ہاتھ رکھنے سے میں چونکی۔ دو مسلمان خواتین تھیں۔ ایک بولی — ”بِٹیا قبر پر سونا نہیں چاہیے۔“
میں نے چاروں طرف نظریں دوڑاتے ہوئے کہا — ”لیکن میں تو سوئی نہیں تھی۔“ کہتے کہتے میری نظر جامن کے جھرمٹ پر اٹکی جس میں ایک زربفت کی واسکٹ اور اٹنگے سفید پاجامے غائب ہورہے تھے۔ میں تیزی سے اٹھی اور اپنا پرس اور ڈائری سمیٹ کر اُترائی میں دوڑنے لگی۔ اوپر آرہے کچھ زائرین نے مجھے مسکراکر دیکھا۔ شاید انھوں نے اتنی موٹی عورت کو ڈھلان پر اتنا تیز دوڑتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
میں بڑاگڑھ واپس نہیں گئی، لیکن میں نے اکثر خود سے وہاں لوٹنے کا وعدہ کیا ہے۔ جاؤں گی تو میں ضرور، کیونکہ میں جانتی ہوں کہ زندگی جنھیں گناہ کہتی ہے، ان پر موت بھی پردہ نہیں ڈال دیتی۔ مرکر شاید اسی لیے میں بھی بہت اکیلی رہوں گی۔ ایسی صورت میں دو چار اور تنہا روحوں سے جان پہچان ہوتو اچھا ہوگا۔

ڈاکٹر نور ظہیر

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
 جنوری 2020 الحمرا ادبی بیٹھک لاہور