آپ کا سلاماردو تحاریرتحقیق و تنقیدمقالات و مضامین

اصطلاح اور اصطلاحاتِ صوفیا کا تلمیحی جائزہ

اصطلاح اور اصطلاحاتِ صوفیا کا تلمیحی جائزہ
(کلاسیکی غزل کے تناظر میں)

اصطلاح ‘عربی’ زبان کا لفظ ہے۔ اس کے معنی”سلامی،رضا مندی اور مصالحت” کے ہیں۔ لفظ "اصطلاح” کسی خاص قوم یا جماعت کا کسی لفظ کے ان معانی پر اتفاق کر لینا ہے جو اصل معنی کے علاوہ ہوں۔ عرفِ عام میں اصطلاح سے مراد ‘علمی مطالب کی ادائی’ کے لیے کسی لفظ کو مخصوص کر لینا ہے جس سے مرادی معنی میں ذرا بھر فرق کی گنجائش نہ رہے۔
اصطلاح کے معانی کی قطیعت کے حوالے سے ماہرین لسانیات نے شد و مد سے بحثیں کی ہیں۔
فرہنگ آصفیہ کے مطابق اصطلاح سے مراد” کسی گروہ کا متفق ہو کر کسی لفظ کے معنی ان معنی کے علاوہ مقرر کر لینے کے ہیں جو مروج ہوں اور یہ کہ ہم اپنی قوم کی اصطلاح میں اس لفظ سے تخصیصی معانی مراد لیں گے۔1؎
میجر آفتاب حسن لکھتے ہیں:
” اصطلاح نام ہی اس مختصر لفظ کا ہے جو طویل جملے کی جگہ لے لیتا ہے اور علوم میں نہایت مفید مختصر بیان پیدا کر دیتا ہے”۔2؎
ڈاکٹر شوکت سبزواری لکھتے ہیں:
” اصطلاح کے لفظی معنی ‘اتفاق’ لیکن عرف عام میں وہ مصطلح یعنی ‘متفق علیہ’ کے معنوں میں مستعمل ہے ۔ہم اصطلاح اس لفظ کو کہتے ہیں جس کے کسی خاص علم و فن میں لغوی معنی سے الگ کوئی معنی یا عام اور متعدد معنی میں سے کوئی ایک معنی متعین کر لیے جائیں اور علم و فن کی متداول کتابوں میں وہ لفظ اپنے اس مخصوص معی میں عام طور سے مستعمل ہو”3؎
مذکورہ تعریفات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ "اصطلاح ایسا وضع یا تسلیم کردہ لفظ یا لفظوں کا مجموعہ ہے جسے چند خاص لوگ کسی خاص معانی کے لیے مخصوص کر لیتے ہیں۔ اصطلاح کا مفہوم اس کا اپنا مخصوص مفہوم ہوتا ہے جو لغوی مفہوم سے بھی متعلق ہو سکتا ہے اور مختلف بھی ۔اصطلاح گویا مفہوم کی اکائی ہے”۔
اصطلاح کے لیے اُردو میں اس کے علاوہ "مصطلح” یعنی "متفق علیہ” کا لفظ بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اُردو میں اس لفظ کا استعمال نسبتاً کم ہے۔انگریزی میں اصطلاح کے لیے لفظTerm ہے ۔عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ لفظ کے معنی میں بے پناہ وسعت ہوتی ہے اور ایک ہی معانی کے لیے کئی مترادفات استعمال ہو سکتے ہیں لیکن الفاظ کے معنویاتی تجزئیے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہر لفظ بنیادی طور پر ایک ہی معنی کے مخصوص اظہار کے لیے وضع کیا جاتا ہے۔سید عابد علی عابد لکھتے ہیں:
” اصطلاحات کا تعلق علم معانی سے ہے کہ اصطلاح میں بھی دلالت ہمیشہ وضعی ہوتی ہے۔یہ درست ہے کہ ایک لفظ کے عام معانی اور ہوتے ہیں اور اصطلاحی معنی اور لیکن دونوں صورتوں میں دلالت کی صورت وضعی ہی قایم رہتی ہے۔اگرچہ لفظ کے معنی اصطلاح بننے سے بدل گئے ہیں لیکن لفظ جب اصطلاح بن چکے تو ہی دلالتِ وضعی تخصیصی معانی میں مستعمل ہو گا۔”4؎
اصطلاحات انسانی ابلاغ اور ثقافت میں اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔اصطلاحات کی بنیاد زبان اور معانی پر ہے۔اصطلاح کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے۔ دُنیا کا کم و بیش سارا سرمایہ زبان اصطلاحات کے مخصوص ڈسکورس کا محتاج ہے۔ اصطلاحات کے ذریعے علم و فنون کے اظہار کو ایک تحدید سے بیان کرنے کا بیانیہ مل جاتا ہے جس سے مخصوص معانی کی ترسیل اور احساس کی تبلیغ کرنا قدرے سہل ہو جاتا ہے۔
کلاسیکی غزل میں اصطلاحات کے حوالے سے بنیادی نوعیت کا کام ملتا ہے۔ شعرا نے جملہ انسانی افکار کے مباحث کو اصطلاح کی زبان میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ اصطلاح خواہ علمی نوعیت کی ہو ‘یا وضع کردہ تشکیلی بیانیے پر منحصر ہو ؛اس کی اہمیت بحر حال مضمون کی نزائی تکثریت پر دلالت کرتی ہے۔
کلاسیکی غزل میں جہاں علمی و ادبی اور سیاسی و عصری اصطلاحات کا ذکر ملتا ہے وہاں تصوف سے لگاؤ کا رجحان بھی خاصا صحت مند نظر آتا ہے۔تصوف یعنی صوفیا کا دینِ اسلام کے پیرلل وہ نظام ِ خانقاہی ہے جس میں ایک سالک راہ سلوک میں عملی طور پر محوِ سفر ہو کر رب تعالیٰ کے عرفان کا گیان حاصل کرتا ہے۔
اس راہ میں ہزاروں طرح کے ابہام و اشکال اور نت نئے مصائب سے ایک سالک کو واسطہ پڑتا ہے جہاں مرشدِ کامل کی راہنمائی اور کامل یقینِ احدیت کے بغیر اس سفر کا مکمل کرنا ناممکن ہوتا ہے۔تصوف گویا شریعتِ اسلامی پر ایک عملی کاوش کا کامیاب اظہار ہے جس میں تنوع اور رنگا رنگی بہ نسبت شریعت کے زیادہ ہے۔
کلاسیکی شعرا نے اپنے زمانے کی نزائی صورتحال اور سیاسی انارکی کو متصوفانہ اصطلاحات کے ذریعے بیان کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے جس میں یہ خاصے کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔ ولی دکنی سے لے کر مرزا داغ دہلوی تک سبھی شعرا کے ہاںمتصوفانہ اصطلاحات کا استعمال ملتا ہے۔اس مقالہ میں اختصار کے ساتھ کلاسیکی غزل میں صوفیانہ اصطلاحا ت کا جائزہ لیا گیا ہے جس سے فنِ اصطلاح کی وسعت و ہمہ گیریت شعرا کی فکری اُپج کے تناظر میں پتہ چلتا ہے۔
ابدال ابدال متصوفانہ تلمیح ہے۔ ولایت میں ابدال کا چوتھا اعلیٰ تریب درجہ ہوتا ہے۔ پہلے غوث،دوسرے قطب،تیسرے اوتاد ہیں۔ ابدال اللہ کے مقریبن میں شامل ہیں۔ ان کی تعداد کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ چالیس سے لے تین سو چھپن تک تعداد بتائی جاتی ہے۔ ان کے درجات کے حساب سے ان کے ذمے کام ہوتے ہیں جن کو پورا کرنا ضروری ہے۔دار الافتا دیوبند میں لکھا ہے:”روایت ہے کہ حضرت علی ؓکے روبرو اہل شام کا ذکر آیا کسی نے کہا اے امیرالموٴمنین ان پر لعنت کیجیے،فرمایا نہیں، میں نے رسول اکرمؐ سے سنا ہے، فرماتے تھے: ابدال شام میں رہتے ہیں اوروہ چالیس ہوتے ہیں، جب کوئی شخص ان میں سے مرجاتا ہے؛ اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسرا شخص بدل دیتا ہے؛ ان کی برکت سے بارش ہوتی ہے ۔5؎ ناسخ نے مذکورہ شعر میں تصوف کے چار بڑے منصب داروں غوث،قطب،اوتاد اور ابدال کا ذکر کیا ہے۔
؂ قطب اقطاب کی ناسخؔ ہے میسر پابوس/کوئی ابدال کے چومے، کوئی اوتار کے ہاتھ[کلیات ناسخ،جلد۲،ح،اول:418]
ابرار ابرار متصوفانہ تلمیح ہے۔ابرار ایک صوفیانہ درجہ یعنی مقام ہے جہاں ایک سالک رب تعالیٰ کی طرف سے تفویض کردہ روحانی معاملات کی انجام دہی پر کلیتاً دسترس اور اختیار رکھتا ہے۔ ابرار کا درجہ ابدال سے بڑا اور اوتار سے چھوٹا ہوتا ہے۔ یہ ایک وسیع روحانی سلطنت کا مالک ہوتا ہے اور اس سلطنت کے جملہ امور کی روحانی نگہبانی اس کے ذمہ ہوتی ہے اور جسے وہ غوث کے سامنے جواب دہی کے لیے گا ہے گاہے پیش کرتا رہتا ہے۔آتش نے خود کو رند قرار دیا ہے اور ابرار کی آمد کو اپنے ہاں نیگ شگون سے تعبیر کیا ہے اور اہتمام کے لیے آبِ راحت کے چھڑکاؤ کا بندوبست کیا ہے۔
؂ آبِ راحت کرے گا آن کے آتشؔ چھڑکاو/خاک پر رکھیں گے مجھ رند کی ابرار قدم[کلیات آتش،ر،م،ص:255]
استدراج استدراج متصوفانہ اصطلاحی تلمیح ہے۔ استدراج کرامت کے برعکس صفت ہے۔ جس طرح کرامت کے ذریعے کوئی ناقابل یقین عدم توقع واقعہ رونما یا ممکن ہو جاتا ہے ؛اسی طرح ایک غیر مسلم سے خلافِ عادت کوئی واقعہ،چیز، کیفیت یا مخفی اسَرار ظاہر و رونما ہو جائے تو اسے استدراج کہتے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی لکھتے ہیں:”استدراج وہ علم ہے جو اعراف کی بری روحوں یا شیطان پرست جنات کے زیر سایہ کسی آدمی میں خاص وجوہ کی بناء پر پرورش پا جاتا ہے۔ صاحب استدراج کو اللہ کی معرفت حاصل نہیں ہو سکتی، علم استدراج اور علم نبوت میں یہی فرق ہے کہ استدراج کا علم غیب بینی تک محدود رہتا ہے اور علم نبوت انسان کو غیب بینی کی حدودوں سے گزار کر اللہ کی معرفت تک پہنچا دیتا ہے“۔6؎ناسخ نے انسان کامل یعنی ولی کامل اور ناقص کے فرق و امتیاز کو اعجاز و استدراج کے فرق سے خوب واضح کیا ہے۔
؂ آگے مجھ کامل کے ناقص ہے کمالِ مدعی/درمیاں ہے فرق استدراج اور اعجاز کا[کلیات ناسخ،جلد اول،ص:45]
اسمِ اعظم اسم اعظم ایک خاص قسم کا علم ہے جس کے بارے میں رب تعالیٰ جانتا ہے۔ اسم اعظم سے متعلق بہت سے قصے اور کہانیاں مشہور ہیں جن میں کسی حد تک صداقت بھی موجود ہے تاہم یہ معاملہ ذاتِ باری تعالیٰ تک محدود ہے۔ ولی حق لکھتے ہیں:” اسم اعظم کے ذریعہ دُنیا کی بہت سی چیزوں میں دخل و تصرف حاصل کر سکتا ہے اور عجیب و غریب کام انجام دے سکتا ہے۔ اسم اعظم کلیتاً رب تعالیٰ کی دین اور منشائے ایزدی پر منحصر ہے“۔7؎اسم اعظم کی کہانیوں او رنگ رنگ قصوں کو آتش کے ہاں تفنن طبع کے طور پر شاعرانہ آہنگ میں برتنے کا فنی اظہار کثرت سے ملتا ہے۔
؂ دہن اُس روئے کتابی میں ہے ،پر، ناپیدا/اسم ِ اعظم وہی قرآں میں نہاں ہے کہ جو تھا[کلیات آتش،ر،الف،ص:60]
؂ بھلایا اسمِ اعظم کو فسونِ حسن لولی نے/فرشتوں کی حقیقت کُھل گئی عشقِ مجازی سے[کلیات آتش،یاے تختانی:333]
اکل و شرب اکل و شرب متصوفانہ روایت کی حامل تلمیح ہے۔ اکل و شرب کا معاملہ ایک صوفی یا درویش سالک کے کھانے پینے سے متعلق ہے۔ ایک سالک جب راہ الہٰی میں قدم رکھتا ہے تو اس پر عین حلال کماکر کھانے اور پینے کی شرط لاگو ہو جاتی ہے۔ جس کھانے کے ذرے اور پینے کے گھونٹ میں عین حلال کی سو فیصد یقینی شامل نہ ہو وہ ذرہ اور گھونٹ حلق میں اُترتے ہی لطافت کی صلاحیت کو کثافت میں بدل ڈالتا ہے اور راستی کے عرفان و گیان سے سالک کو محروم کر سکتا ہے۔ناسخ بظاہر پہلوان لااُبالی شاعر ہیں تاہم تصوف کے معاملے میں دیگر کلاسیکی شعرا کی روایتی صوفیانہ سوچ کے برعکس ان کا متصوفانہ اعتقاد زیاہ واضح اور متشکل صورت لیے ہوئے ہے.
؂ دُنیا میں اکل و شرب ہے حاضر مسافرو/اللہ نے بنائی ہے کیا مہیماں سرا[کلیات ناسخ،جلد ۲،ح،اول:36]
انا لحق انالحق؛اُردو شعر و ادب میں یکساں مستعمل و معروفت تلمیح ہے۔حسین بن منصور حلاج،ایران کے ایک مشہور عارف اور صوفی تھے جن کا ذکر فرید الدین عطار نے اپنی مشہور ِ زمانہ کتاب تذکرہ اُولیا میں محققانہ انداز میں کیا ہے۔ ساجدہ قریشی لکھتی ہیں:”ا نا لحق سے مراد یعنی میں ہوں میں حق ہوں ،رب ہوں۔ یہ نعرہ مشہور صوفی بزرگ منصور حلاج نے رب تعالیٰ کے تصور میں غرق سرِ راہ کہیں کہ دیا تھا جس کی شکایت خلیقہ وقت کے دربار میں پہنچی اور آپ کو تائب ہونے کا موقع دیا گیا لیکن آپ اپنے نظریے پر مصر رہے یہاں تک کہ آپ کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا”۔8؎ ناسخ نے منصور کے اس فعل کو زیادہ درست قرار نہیں دیا۔ کہتے ہیں کہ منصور نے انا لحق کہہ کر اپنی جان ناحق گنوائی اگر میں منصور کی جگہ ہوتا تو کبھی یہ جملہ نہ دہراتا خواہ کچھ بھی ہو جاتا اور میں ما و من کے نظریے کا قائل نہیں ہوں۔ آتش نے منصور حلاج کے تصور ِ طریق ِ تصوف سے اختلاف کیا ہے اور اپنی ایک جداگانہ رائے دی ہے۔
؂ “دعویٰ باطل سے ہو جاتے ہیں اکثر نامور/شہرہ کیا بانگ اناالحق نے کیا منصور کا[کلیات ناسخ،جلد اول،ص:24]
؂ غُلغُلہ حرفِ انا الحق کا ہے قُلقُل کی صدا/بادہ ء وحدت کا شیشہ سینہ ہے منصور کا[کلیات آتش،ر،الف،ص:91]
؂ دار پر بھی مجھے کھینچیں تو انا لحق نہ کہوں/سُرخ ہر چند ہو میری مے منصور کے ساتھ[کلیات آتش،ہاے ہوز:331]
اوتار اوتار متصوفانہ تلمیح ہے۔ اوتار ایک خاص منصب ہے جس پر سرفراز شخص کو روحانی طور پر دُنیاوی معاملات چلانے اور امورِ دُنیا کو انجام دینے میں رب تعالیٰ اپنا ایک طرح کا اعزازی معاون مقرر کر لیتا ہے ۔ تصوف کے طریق میں سب سے بڑا عہدہ غوث کا ہے اس کے بعد اوتاد پھر اوتار اس کے بعد قطب اور ابدال اور اخیار اور عمران ہیں۔ یہ عہدے دراصل دُنیا کو روحانی طورپر چلانے اور اس کا انتظام و انصرام دیکھنے کی غرض سے وضع کیے گئے ہیں۔
؂ قطب اقطاب کی ناسخؔ ہے میسر پابوس/کوئی ابدال کے چومے، کوئی اوتار کے ہاتھ[کلیات ناسخ،جلد۲،ح،اول:418]
اہل صفا اہلِ صفا سے مراد صوفیا کا وہ طبقہ خواص ہے جن کے احوال ان پر روشن ہیں یعنی آئنہ حقیقت میں ان کے دل کی صفائی کو دخیل لطافت سے انطباقی نسبت حاصل ہے۔ آتش نے اہل صفا کی توقیر کو نزاعات کا مسلہ بنا دیا ہے۔ کہتے ہیں جس قلب پر زنگ آلود کثافت کی تہیں چڑھی ہیں وہ اہل صفا کی قدر نہیں کرتے اور نہ ہی ان کے مرتبے سے آگاہ ہیں ۔آتش نے صوفیا مسلک کے خلاف رائے زنی کرنے والوں کو خوب سخت سست کہا ہے اور دو ٹوک اپنا نکتہ نظر پیش کیا ہے۔
؂ اہلِ صفا کی قدر نہیں کرتے تِیرہ روز/روشن ہے حال آئینے سے زنگ بار کا[کلیات آتش،ر،الف،ص:122]
اہلِ فقر فقر کے لغوی معنی احتیاج کے ہیں۔ اہل معرفت کے نزدیک اس سے مراد مفلسی اور فاقہ کشی نہیں ہے بلکہ خدا کے سوا ہر ایک سے بے نیازی ہے۔ جو شخص اپنی حاجات کو غیر اللہ کے سامنے پیش کرے اور جسے غنا کی حرص میں دوسروں کے آگے سر جھکائے اور ہاتھ پھیلائے؛ وہ نگاہِ عارف میں دریوزہ گر ہے؛ فقیر نہیں ہے۔ میمونہ اسد قادری لکھتی ہیں:”دینِ اسلام میں فقر سے مراد وہ راہ یا طریق ہے جو بندے اور اللہ کے درمیان سے تمام حجابات کو ہٹا کر بندے کو اللہ کے دیدار اور وصال سے فیض یاب کرتا ہے۔ فقر یعنی اللہ کا دیدار اور وصال حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اصل سنت اور کمال ہے جو آپ ﷺ کو معراج کی رات عطا کیا گی“۔9؎ناسخ نے فقر کی تعریف و توضیح میں ابراہیم ادہم، نوشیروان، سکندر،ارسطور اور فلاطون جیسے عظیم بادشاہوں،حاذقوں اور حکمیوں کے نظریات و اعتقادات سے تقابل کیا ہے اور فقر کو ایک بہترین طرزِ حیات قرر دیا ہے
؂ حماقت ہے غرورِ جاہ اہلِ فقر کے آگے/یہ تاج و تخت ہے رہ کردہ ابراہیم ادہم کا[کلیات ناسخ،جلد اول،ص:42]
؂ کیا مال رُعبِ فقر کے آگے ہے سلطنترویا میں ، سر سے افسرِ نوشیرواں گرا[کلیات ناسخ،جلد اول،ص:53]
؂ فقر کے کوچے میں قدرِ دولت ِ دُنیا نہیں/ٹھوکریں کھاتے ہیں یاںپار س سے پتھر سیکڑوں[کلیات آتش،ر،ن،ص:282]
اہلِ فنا فنا،صوفیانہ تلمیح ہے جس کے ماننے والوں کا یہ اعتقاد ہے کہ انسان بہ حیثیت جُز؛ کل میں مدغم ہو کر فنا ہو جاتا ہے۔فنا ہو جانے کا یہ تصور دراصل ایک عاشق کی معشوق کے ہاں باریابی کے معنوں میں تعبیر کیا جاتا ہے۔ فنا کا تصور کلاسیکی شاعری میں بقا کے متوازی آتا ہے ۔سید سرفراز اے شاہ لکھتےہیں:”اہل فنا سے مراد راہ سلوک میں دُنیاوی خواہشات و آرزؤں او رجملہ آسائیشوں سے منہ موڑ کر محض رب تعالیٰ کی خشنودی اور رضا کے لیے ہر آٖت،مصیبت،ملامت اور آلام کو گلے لگانے والا مرا د ہے جس نے خود کو رب تعالیٰ کے عشق و منشا میں فنا کر لیا ہےاُ س کے لیے رب تعالیٰ کی منشا کا حصول ہی دُنیا کی سب سے بڑی متاع ہے“۔10؎ناسخ اہل فنا اعتقاد کے قائل ہیں اور ان کے نزدیک حیاتِ انسان کی بساط دامن کے کفن کی خار گیری سے ہے کہ موت کے بعد سدِ راہ کی سبیل وادی بقا کی علامت بن جاتی ہے۔آتش نے اہل فنا کو ہر طرح کے آلام و مصائب کے بارِ گراں سے سبک ور دکھا یا ہے ۔مرزا غالب کے ہاں تصور فنا بنیادی طور پر وہی ہے جو صوفیا کی تعلیمات میں ہمیں ملتا ہے۔
؂ ہے ہر اک آفت سے ایمن مسکنِ اہلِ فنا/باغِ جنت کو خدا ہر گز خزاں کرتا نہیں[کلیات ناسخ،جلد اول،ص:193]
؂ کون اُس وادی میں ہو اہلِ فنا کا سدِ راہ/کیا تعلق ہے کفن سے خارِ دامن گیر کو[کلیات ناسخ،جلد اول،ص:299]
؂ کرے ہے صرف بہ ایمائے شعلہ قصہ تمام/بطرزِ اہلِ فنا ہے فسانہ خوانی شمع[دیوان غالب،ص:۷۲]
اہلِ نظر اہل نظر سے مراد وہ لوگ ہیں جو تصوف یعنی راہ سلوک میں ضبطِ نفس کی کھٹالی سے گزر کر باریابی حاصل کر چکے ہوتے ہیں۔ صوفیانہ اعتقادات میں اہل نظر سے مراد وہ اصحاب حال یا رجا ل الغیب ہیں جو حال ماضی اور مستقبل سے باخبر ہو تے ہیں۔ ان کی نظر زمین و آسماں کے درمیان مقید نہیں ہوتی بلکہ یہ ماورائے جہاں بھی دیکھ لینے کی صلاحیت سے متصف ہوتے ہیں۔سید سرفراز اے شاہ لکھتے ہیں:”اہل نظر سے مراد وہ اصحاب فقر ہیں جن کی نگاہ میں لطافت کی انتہائی معراج متمکن ہوتی ہے اور دُنیا اور مافہیا کی اصلیت و حقیقت سے خوب واقف ہوتے ہیں اور اپنی بساط کی تحدید سے ماورا ہو کر رضائے الہیٰ کے دریا میں فنا ہو چکے ہوتے ہیں۔ اہل نظر صاحبِ بصیرت ہوتے ہیں ان کی نگاہ میں کسی کثافت کا شائبہ تک نہیں ہوتا اور یہ اپنے اندر رو شن اور مقصدِ حیات کو جا لیے ہوتے ہیں“۔11؎ناسخ نے اہل نظر تلمیح سے ایک تاریخی واقعے کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ آتش کے ہاں اہل نظر کا ایک اونچا مقام ہے جس کی خواہش خود ان کے اشعار سے واضح ہے۔ اہل نظر کی نگاہ میں رب تعالیٰ کے اسَرا ر و رموز کا جملہ احوال منکشف ہوتا ہے اور یہ اس احوال کو کسی عامی پر ظاہر نہیں کرتے ۔
؂ ہے اہلِ نظر سے بغض تجھ کو/نادر کی طرح نکال آنکھیں[کلیات ناسخ،جلد۲،ح،اول:367]
؂ شغلِ تصرف آج کس اہلِ نظر کو ہے/ہر آئینہ سکندر وہر جام جم ہوا[کلیات آتش،ر،الف،ص:107]
؂ انصاف کو ہیں دیدہ اہلِ نظر کُھلے/پردہ اُٹھا کہ پردہ شمس و قمر کُھلے[کلیات آتش،یاے تختانی:427]
بود نبود بود نبود؛متصوفانہ تلمیح ہے۔اس کا تعلق، عدم و مابعد عدم سے ہے۔ یہ ایک جزوقتی کیفیت ہے جس میں سالک کو اپنے ہونے اور نہ ہونے کا گمان گزرتا ہے۔سالک اپنے ہونے کو عارضی اور نہ ہونے کو مستقل متصور کرتا ہے اور دھیان گیان کے بحربِیکراں میں اُتر جاتا ہے۔میرؔ نے اس کیفیت کو متصوفانہ نکتہ نظر سے دیکھا ہے ۔ چشتیہ مکتبہ فکر اسے "شعبدہ بازی” سے تعبیر کرتا ہے جبکہ قارریہ سلسلہ اسے ذاتِ حقیقی کے عرفان کا ایک زینہ قرار دیتا ہے۔ناسخ روایتی انداز میں صوفیانہ معاملات سے آگاہ ہیں۔ ان کے ہاں صوفیانہ اصطلاحات کو تلمیحی پیرائے میں بیان کرنے کا ہنر بہت پختہ نظر آتا ہے ۔ آتش کہتے ہیں کہ مجھ ہر ہستی فانی کی ساری حقیقت آشکار ہو گئی ہے اب مجھ پر فلسفہ بود و نبود عیاں اور واضح تر ہو گیا ہے اور میں دُنیا کے بہلاوے میں آکر اپنی راہ کو کھوٹا نہیں کروں گا کہ ہست و نیست کے درمیان استحکام کے سارے وسیلے دراصل ایک سراب سے زیادہ کچھ حقیقت نہیں رکھتے۔
؂ بود نبود کی اپنی حقیقت لکھنے کے شائستہ نہ تھی/باطل صفحہ ہستی پر میں خط کھینچا جو قلم مارا[دیوان پنجم،میر،ص:۲۱۵]
؂ کُھل گئی ساری حقیقت پشِ دوست /ہے اگر یہ بود تو نابود ہوں[کلیات ناسخ،جلد۲،ح،اول:334]
؂ کُھل گئی ساری حقیقت پشِ دوست /ہے اگر یہ بود تو نابود ہوں[کلیات ناسخ،جلد۲،ح،اول:334]
بوریا پوش بوریا پو ش ایک متصوفانہ تلمیح ہے۔ بوریا سے مراد بستریا لباس ہے جو ایک صوفی اور سالک اُوڑھ کر رکھتا ہے ۔ عمر بھر اس پیرہن میں تصوف کے اَسرار کو پنہاں کیے ہوتا ہے۔میرؔ نے خود کو ایک فقیر منش اور راہروِ فَقر قرار دیا ہے ۔میر کہتے ہیں؛ بوریا پوشوں کے باطن میں الوہیت و معرفت کا شعلہ چنگاری کی صورت آگ بھڑکانے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ یہ درویش اپنے باطن میں اسَرار اَلوہیت کو چھپائے دھیان و گیان میں غرق رہتے ہیں۔وحدانیت و رسالت کی معرفت کو منتہائے کمال تک تسخیر کر لینے والا یہ بوریا پوش دُنیا کی نظر سے اوجھل رہتا ہے ۔کانوں کان کسی اور اس کے حال کی خبر نہیں ہوتی۔
؂ داغ ہوں کیونکر نہ میں درویش یارو جب نہ تب /بوریا پوشوں ہی میں وہ شعلہ خو پاتا ہوں میں [دیوان اول،میر،ص:۴۳۴]
پیر مغاں پیر مغاں؛ متصوفانہ اصطلاحی تلمیح ہے۔فارسی شاعری میں پیر مغاں حافظ شیرازی کی شاعری کا بنیادی کردار ہے۔پیر مغاں کازیادہ استعمال شراب اور میکدہ والی شاعری میں ہوتا ہے۔ حافظ اور رومی کے شاعری میں پیر مغاں کی اصطلاح شراب کا کاروبار کرنے والوں کے لیے مستعمل ہے۔ مرید و مرشد اور ساقی و مے کشی کا دور اب کے اُٹھ ہی جائے گا ۔ہم قسمت کے ماروں کی تقدیر میں فاقے کے سَوا کچھ نہیں۔
؂ مستوں میں اس کی کیسی تعین سے ہے نشست /شیشہ ہوا نہ کیف کا، پیر مغاں ہوا[دیوان ششم،میر،ص:۲۲۲]
؂ یہ اِلتجا ہے پیرِ مُغاں کی جناب میں/رکھوں میں ساقِ ساقی ء گلفام دوش پر [کلیات ناسخ،جلد اول،ص:130]
؂ زاہد کمال پیر مغاں تجھ سے کیا کہوں/مرشد وہاں خطاب ہے ادنیٰ مرید کا[گلزار داغؔ،ص:۱]
؂ قسمت ہی میں زاہد کے ہیں دن رات کے فاقے/کیا پیر مغاں روزہ کشائی نہیں دیتا[یادگار داغ،ص: ۶۳۰]
پیر خرابات پیر خرابات متصوفانہ تلمیح ہیں۔اس سے مراد بوڑھا آدمی جو شراب خانوں میں شراب بیچتا ہے۔ تصو ف کی اصطلاح میں یہ ایک مکمل اور تکمیل پیشہ ہے جو ایک شاگرد کو رسم و رواج ترک کرکے غربت اور فنا پر چھوڑ دیتا ہے۔ مرزا داغؔ نے پیرا خرابات کی تلمیح کے پس منظر میں مغلیہ سلطنت کے زوال کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ پیرِخرابات اب مے کشی کی غنودگی میں اس قدر اُتر چکا ہے کہ اس کے اختیار ی بے آسرا ہو گئی ہے۔
؂ اے شیخ فیض پیر خرابات دیکھنا/جو حال پیر کا ہے وہی ہے مرید کا[گلزار داغؔ،ص:۱]
؂ کہاں نوجوانوں کو دنیا سے دل لگی کا مزہ/یہ پیر زال بلا سے ادھیڑ ہی ہوتی[متفرقات داغ،ص: ۷۸۷]
پیرِ مرد پیر مرد ایک ادبی اور متصوفانہ تلمیح ہے۔کلاسیکی غزل میں اس تلمیح کو بطور ترکیب،استعارہ اور کنایہ استعمال کیا گیا ہے۔ میرؔ نے بطور طنز برتا ہے۔ میرؔ کہتے ہیں؛پیر مغاں نے اپنی ظاہری شان و شوکت اور ظاہرپرستی کے باوصف پیرزن کی چالاکی اور ہوشیار باشی کو مات دی ۔ میرؔ کا یہ اعجاز ہے کہ کلاسیکی غزل کی بُنت میں فارسی ادبیات و موضوعات کی حامل تلمیحات و تراکیب کو جدت سے ہمکنار کیا ہے۔میر بیان و بدیع ایسے دقیق، فنی و فکری لوازمات کو آسان اور سہل انداز میں برت لینے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔
؂ باز رکھا باطنِ پیر مغاں نے شیخ کو /مل گیا اُس پیرزن کو غیر سے اک پیر مرد[دیوان اول،میر،ص:۲۷۶]
پیری مریدی پیری مریدی متصوفانہ افکار میں سیکھنے اور سکھانے کا ایک روایتی طرزِ نگارش ہے جو صدیوں سےہنوز پوری آب و تاب کے ساتھ جاری ہے ۔ پیر سے مراد راہنمائی کرنے ،سلوک کی منازل کو طے کروانے اور مرید سے مراد سالک یعنی اللہ کی راہ میں چلنے والا ،رب تعالیٰ کی حقیقت کا صحیح عرفان حاصل کرنے والا مراد ہے۔ پیری مریدی کے کچھ آداب وضع ہیں جن پر سختی سے عمل پیرا ہو کر اس راہ میں کامیابی ممکن ہے۔
؂ کرے تو سلسلہ ء زُلف میں اگر داخل/مرید ناکث ِ بعیت ہوں سارے پیروں کے[کلیات ناسخ،جلد اول،ص:338]
؂ مجھ کو بازی گاہ کافی ہے کروں کیا خانقاہ/میں مرید اک طفل کا ہوں پیر کی حاجت نہیں[کلیات ناسخ،جلد۲،ح،اول:264]
؂ مریخ کا ہے ظلم و ستم کس شمار میں/پیرِ فلک کو رُتبہ ہے تیرے مرید کا[کلیات آتش،ر،الف،ص:152]
تدبیر و تقدیر تدبیر تقدیر کا معاملہ بھی کچھ عجب معنی لیے ہوئے ہے۔ جملہ مذاہب میں تقدیر و تدبیر کے حوالے سے معلومات ملتی ہیں اور اس کو بنیادی اعتقاد کی سی اہمیت حاصل ہے۔ تدبیر سے مراد انسانی سعی ہے جو وہ مختلف امور کی انجام دہی کے لیے اپنے تئیں کرتا ہے جبکہ تقدیر سے مراد وہ اٹل اور ناقابل تغیر معاملات یعنی فیصلے ہیں جنھیں کسی صورت انسانی سعی و بساط سے بدلا نہیں جا سکتا۔ تدبیر و تقدیر کے معاملے میں علما اور مفسرین کے ہاں خاصا تضاد و اختلاف ملتا ہے۔آتش نے تدبیر و تقدیر کے معاملے میں مِلے جُلے ردِ عمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ ابلیس کی تدبیر آدم ؑ کی گراوٹ کے لیے سازگار نہ ہو سکی اور ابلیس کو تقدیر کے لکھے کے ہاتھوں مردود ہونا پڑا۔ آتش نے تدبیر و تقدیر کے معاملے میں بات ابہام میں رکھی ہے۔
؂ ابلیس حسد سے رہے تدبیر میں میری/تدبیر کو کیا دخل ہے تقدیر میں میری[کلیات آتش،یاے تختانی:371]
توکل توکل متصوفانہ تلمیح ہے ۔ توکل کا تعلق اسلام کے علاوہ جملہ ادیان میں برابر ملتا ہے۔ توکل سے مراد رب تعالیٰ کی ذات تک خود کو محدود رکھنا ہے اور جو کچھ میسر ہے اسی پر قناعت کرنا اور مزید کی طلب دل میں نہ رکھنا ہے۔ توکل مردِ مومن کا افتخار ہے ۔ایک سالک کے لیے توکل کی دولت سے متصف ہونا لازمی اور ناگزیر ہے۔ راہ سلوک یعنی تصوف میں توکل ہی واحد ذریعہ ہے جس کے ذریعے ضبطِ نفس کی منزل سے گزر کر نیابتِ الہٰی تک کا سفر کرنا ممکن ہے ۔ شاہدہ تبسم لکھتی ہیں:”توکل دراصل علم، کیفیت اور عمل تین چیزوں کے مجموعے کا نام ہے۔ جب بندہ اس بات کو جان لے کہ رازق اللہ کی ذات ہے اور وہ ہر چیزپر یکساں قدرت و اختیار رکھتی ہے۔ اُس کا لطف وکرم اور مہربانی بے حساب ہے۔اس یقین محکم کے نتیجے پیدا ہونے والی کیفیت کی مجموعی کیفیت کا نام توکل ہے“۔ 12؎آتش کے ہاں صوفیانہ فکر سے لگا کھاتے سیکڑوں اشعار دیوان میں ملتے ہیں جس سے آتش کی صوفیانہ فکر کا پتہ چلتا ہے۔ آتش نے توکل کو دینی و دُنیاوی زندگی کا حاصلِ کُل قرار دیا ہے ۔آتش نے توکل پر تکیہ کر کے زندگی کے شب رو روز کو تسلیم و رضا کے اُصول پر ڈھالنے کی عملی کوشش کی ہے۔آتش نے توکل کے مقابلے میں دُنیاوی من و سلویٰ اور کل آسائیشِ فراواں کو یکسر مستر د کر دیا ہے۔
؂ مردِ درویش ہوں ،تکیہ ہی توکل میرا/خرچ ہر روز ہے یاں آمدِ بالائی کا[کلیات آتش،ر،الف،ص:65]
؂ جس قدر نفرت ہے اس سے مجھ توکل پیشہ کو
اس قدر ہو گی نہ قاروں کو محبت زر کے ساتھ[کلیات آتش،ہاے ہوز:329]
؂ پہنچتی ہے مجھے ہر صبح بے کوشش مری روزی/توکل آدمی کے واسطے گویا موکل ہے[کلیات آتش،یاے تختانی:358]
جبر و قدر جبر وقدرمتصوفانہ اصطلاحی تلمیح ہے ۔اسلام میں جبر وقدر کا بیان ذیلی مباحث کے تحت آیا ہے جبکہ صوفی مکتبہ فکر میں جبرو قدر کو باقاعدہ نظریے کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور اب اس کے دو مرکزی گروپ سے بن گئے ہیں جن کے درمیان نزاعت کی حد تک اختلاف موجود ہے۔ ایک گروہ انسان کو مجبور اور دوسرا مختار سمجھتا ہے ۔اہل وجود مکتبہ فکر کے حامل صوفیا انسان کو کلیتاً مجبورجبکہ اہل شہود انسان کو جزوی با اختیار تصور کرتے ہیں۔ انسان اپنے افعال و اعمال کی انجام دہی کے حوالے سے با اختیار ہے یا مجبورِ محض ؛اس کا فیصلہ قطعیت سے ہنوز نہیں ہو سکا ۔ ناسخ نے جادہ راہ منزل کی مسافرت کے لیے اختیار کو بطور زادِ راہ متصور کیا ہے۔ آتش نے جبرو قدر کو ارضی محبوب کی منشائے اختیاری پر منحصر قرار دیا ہے۔ا ٓتش کہتے ہیں کہ محبوب کی خشنودی اور ازن کے بغیر میرا اختیار کچھ بھی نہیں بلکہ میں تو مجبورِ محض ہوں اور سارا امر ِ اختیاری اُسی کو زیبا اُسی کو حاصل ہے۔
؂ چلا عدم سے میں جبراً تو بول اُٹھی تقدیر/بلا میں پڑنے کو کچھ اختیار لیتا جا[کلیات ناسخ،جلد۲،ح،اول:67]
؂ نہ کر سکا میں کوئی کام حسبِ خواہشِ دل/سوائے جبر نہیں خاک اختیار مجھے[کلیات ناسخ،جلد۲،ح۲،ص:102]
؂ کان کھولے رکھتے ہیں،سُن رکھ اسے اے وصلِ یار/اختیار آگے ترا اب ہجر ہم کو جبر ہے[کلیات آتش،یاے تختانی:360]
حال حال؛ایک متصوفانہ تلمیح ہے۔اہل صوفیا کے نزدیک حال سے مراد وہ کیفیت ہے از خود یا عنایتِ الہی سے اہل حق کے قلب پر بغیر کسی تصنع ، کسب و حزن کے وارد ہوتا ہے۔اختیار حسین قریشی لکھتے ہیں:”سالک کے دل پر حق تعالیٰ کی طرف سے جو واردات ہوتی ہیں اس کو "حال” کہتے ہیں۔ جیسے: قبص،بسط،رنج و خوشی، مستی و بے خودی۔ سالک کی بے عملی یا عدم توجہ سے حال قائم نہیں رہتا۔اہل سیر و سلوک کے نزدیک حال قلب پر طاری ہونے والی ایسی حالت ہے جو بغیر دقت و زحمت و کسب کے طاری ہوتی ہے اور صاحبِ حال کی حالت اور اس کے اوصاف کو تبدیل کر کے رکھ دیتی ہے۔ یہ حالت اپنے دوام اور زوال کے اعتبار سے مختلف افراد پر مختلف ہوتی ہے۔“13؎
؂ حیرت سے عارفوں کو نہیں راہِ معرفت/حال اور کچھ ہے یاں اُنھوں کے حال اور قال کا[دیوان پنجم،میر،ص:۲۰۴]
؂ یقیں ہے دیکھتے صوفی تو دم نکل جاتا /فقیر ہوں،مجھے اللہ نے ہے حال دیا[کلیات آتش،ر،الف،ص:154]
؂ کیا کیا نہ رنگ تیرے طلب گار لا چکے/مستوں کو جوش،صوفیوں کو حال آچکے[کلیات آتش،یاے تختانی:367]
حرفِ کُن کن فیکون ایک معروف تلمیح ہے جو قرآن کی سب سے بڑی سورہ البقرہ کی آیت نمبر (۱۱۷) سے ماخوز ہے۔ اس تلمیح کو کثرت سے شعرا نے استعمال کیا ہے۔ارشاد ربانی ہے:إِذا قَضی أَمْراً فَإِنَّما یقُولُ لَہُ کنْ فَیکون۔ ترجمہ: جب وہ(خدا) کسی کام کے کرنے کا فیصلہ کر لیتا ہے۔ تو اسے بس اتنا ہی کہتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتا ہے۔ساجدہ قریشی لکھتی ہیں:”اہلِ سنت کے اکثر مفسرین کہتے ہیں ”کُنْ فَیکونُ” ایک حقیت کی تمثیلی بیان ہے اور وہ یہ کہ کسی چیز کی خلقت میں خدا کا ارادہ اس چیز کی ایجاد کے مساوی ہے۔ اس بنا پر ایسا نہیں ہے کہ خدا موجودات کی خلقت میں خود لفظ ”کن” کا استعمال کرتا ہو۔ بلکہ اس لفظ کے ادا کرنے ضرورت ہی نہیں کیونکہ جونہی خدا کسی چیز کی خلقت کا ارادہ کرتا ہے تو وہ چیز خلق ہو جاتی ہے۔“14؎میرؔ نے "حرفِ کن” میں طنزیہ انداز اختیار کیا ہے۔ میرؔ کہتے ہیں قیامت کے دن مجھے داد خواہوں نے حرفِ کن کی معنویت سے آگاہ کیا اور میں یوں حساب و کتاب کے عمل سے ماورا ہو کر ایک طرف کو نکل گیا کہ داد خواہوں کی گوش بینی میرے لیے باعث ِ نجات کا ذریعہ بن گئی۔
؂ اس جو خوبی سے لائے تجھے قیامت میں /تو حرفِ کن نے کیا گوش داد خواہوں کا[دیوان اول،میر،ص:۱۰۲]
خرقہ خرقہ؛متصوفانہ اصطلاحی تلمیح ہے۔عرف عام میں خرقہ سے مراد؛پیوند لگا لباس یاکپڑا،درویشانہ لباس، درویشوں اور فقیروں کی پوشاک ہے۔عام زبان میں خرقے کو’گودڑی‘ کہتے ہیں۔خرقہ کو تصوف میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔خرقہ طہارت کا ذریعہ؛تزکیہ کی علامت اور شرف و عزت کاظاہری نشان ہے۔ پروفیسر ظہیر علی صدیقی لکھتے ہیں:” اصطلاح میں خرقہ ایک ظاہری علامت ہے،جس سے فقر اور درویشی کا اظہار ہوتا ہے۔ اکثر صوفیائے کرام نے اس قسم کا لباس پہننے سے گریز کیا ہے۔ ان کے نزدیک خرقہ پوشی اگر رضائے الہی کے لیے ہے تو بے فائدہ ہے۔کیونکہ خدا باطن کا حال بہتر جانتا ہے اور اگر یہ انسانوں کو دکھانے کے لیے ہے تو لایعنی اور بے سود ہے۔ اگر درویش کا موقف تلاش ِحق ہے تو اسے ظاہری خرقے کی ضرورت نہیں۔“15؎میرؔ نے خرقے کو دُنیا و جہان کی سب سے اہم نعمت قرار دیا ہے۔ آتش نے خرقہ فقر کی حصولی کو مقام ِشکر سے منسوب کیا ہے۔غالب نے خرقہ و سجادہ کو حصولِ مے کے لیے بطور "رہن” رکھنے کی طرف تلمیحانہ انداز میں اشارہ کیا ہے۔
؂ بے تابیاں بھری ہیں مگر کوٹ کوٹ کر/خرقے میں جیسے برق ہمارے ہے اضطراب[دیوان دوم،میر،ص:۲۳۲]
؂ مقام شُکر ہے دے آسماں جو خرقہ فقر/کفن پہن کے ہے اس گھر سے مہمان نکلا[کلیات آتش،ر،الف،ص:157]
؂؂ شیر کے خالی نہیں رہتا نیستاں زینہار/بوریاے فقر بچھا چھوڑ دیا جاے[کلیات آتش،یا ےتختانی:432]
؂ رکھتا پھروں ہوں خِرقہ و سجادہ رہنِ مے/مدت ہوئی ہے دعوتِ آب و ہوا کیے[دیوان غالب،ص:۱۳۳]
درویش درویش (فقیر) وہ ہے جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو ۔ نہ کسی چیز سے اس کا نقصان ہواور نہ فائدہ۔درویش اسبابِ دُنیاوی کے موجود ہونے سے خود کو غنی محسوس کرتا ہے اور نہ ان کی عدم موجودگی سے محرومی کا شاکی ہوتا ہے۔ شاہدہ تبسم لکھتےہیں:”درویش کی علامت یہ ہے کہ بندہ کمالِ ولایت و قیامِ مشاہدہ کی صفت جاتے رہنے اور حق سے دور ہو جانے سے ڈرتا رہے۔ درویشوں کے چار بنیادی سلسلےنقشبندی،قادری،سہرودی،چشتی ہیں۔ حضرت معین الدین چشتی اجمیر، خواجہ بختیار کاکی دہلوی؛ چشتیہ سلسلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ سہروردی سلسلے کے سب سے معزز درویش حضرت بہا الدین زکریا ملتانی ہیں۔ نقشبندی سلسلے میں حضرت مجدد الف ثانی اور سلسلہ قادریہ کے بانی غوث اعظم بغدادی ہیں۔“16؎ میرؔ کے ہاں خرقہ و کلاہ اور جاہ و حشمت میں کوئی تفاوت و معتبری نہیں ہے ۔میر مغ بچوں کو بھی اسی تناظر میں دیکھتے ہیں۔
؂ درویش کچھ گھٹا نہ بڑھا ملک شاہ سے/خرقہ کلاہ پاس جو اسباب تھا سو تھا[دیوان سوم،میر،ص:۱۹۲]
؂ میں میرؔ لے کر دُنیا سے ہاتھ اُٹھایا/درویش تو بھی ہے، حق میں مرے دُعا کر[دیوان سوم،میر،ص:۳۰۳]
دستِ خدا دستِ خدا متصوفانہ تلمیح ہے جو ناسخ نے اپنے احساسات کے اظہار کے تئیں تراشی ہے۔ رب تعالیٰ نے اپنے مقربین کے لیے مدد کو "دست” سے تعبیر کیا ہے۔ رب تعالیٰ قران میں فرماتا ہے جس کا مفہوم ہے کہ میں اپنے مقریبن کا ہاتھ بن جاتا ہوں،آنکھ بن جاتا ہوں پاؤں بن جاتا ہوں ؛گویا رب تعالیٰ کے اپنی مخلوق تک پہنچنے اور ان کے معاملات میں داد رسی کے سیکڑوں انداز ہیں جن میں "دستِ خدا” دست ِ غیب کی صورت مدد کو ہر وقت پکارا کرتا ہے کہ کوئی ہے جو مجھ سے مانگے اور میں دے کر خوش ہو ں اور لینے والا لے کر۔ناسخ نے دستِ خدا سے مو لا علی ؓ کی ذات مراد لی ہے ۔اس لحاظ سے ناسخ کا نکتہ نظر مزید واضح ہو جاتا ہے اور وہ دستگیر کے سامنے دستِ سوال دراز کرنے میں ذرا بھی نہیں ہچکچاتے۔
؂ بعیت خدا سے مجھ کو بے واسطہ نصیب/دستِ خدا ہے نام مرے دستگیر کا[کلیات ناسخ،جلد اول،ص:01]
دستِ غیب دست غیب ایک متصوفانہ تلمیح ہے۔ دست غیب کو صوفیا غیب سے رزق کی آمد کا پیش خیمہ سمجھتے ہیں۔ راہِ سلوک کے مسافرت کو راہ ایزدی میں یہ تخصیص حاصل ہے کہ رب تعالیٰ اس کی غیب سے مدد کرتا ہے اور ایک معقول ذریعہ آمدن کسی نہ کسی وسیلے سے اس تک پہنچتا رہتا ہے ۔ عبادت و ریاضت اور چلہ کشی کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔۔ دست غیب جس کے بارے میں کئی آرا موجود ہیں جن میں سچائی بہت کم اور مبالغہ زیادہ ہوتا ہے۔سید سرفراز اے شاہ لکھتےہیں:” (صوفیا کے نزدیک) دست غیب سے” اسم اعظم "مراد لیا جاتا ہے۔راہ طریقت کے مسافر پر دورانِ خلوت رزق کی ذمہ داری فرو ہو جاتی ہے ۔غیب سے اس کی مدد کا انتظام اس طرح ہوتا ہے کہ اس کی ضرورتیں پوری کر دی جاتی ہیں۔“17؎میرؔ نے دستِ غیب کو متصوفانہ افکار سے قدرے ہٹ کر محض تفنن طبع کے طور پر لیا ہے۔ میرؔ کی یاسیت انگیز صورتحال کے بر عکس ان کا نشاطیہ آہنگ زیادہ پختہ،کِھلا اور ہنس مکھ ہے۔میر کی غزلیات میں ان کے زندگی کے سارے رنگ نظر آتے ہیں جو ایک عام انسان کی زندگی کے معمولات و افکار ِ زیست کا پتہ دیتے ہیں۔
؂ آخر عدم سے کچھ بھی نہ اکھڑا مرا میاں /مجھ کو تھا دست غیب، پکڑ کی تری کمر[دیوان اول،میر،ص:۲۹۴]
راہ سلوک راہ سلوک سے مراد ایک سالک کے لیے صوفیانہ طرزِ حیات میں ایک ایسی راہ ہے جس کے کچھ ضابطے،اُصول اور قواعد ہیں۔ان جملہ قواعد و اُصول پر ایک سالک کو سختی سے کاربند رہ کر سلوک کی منزل سے گزرکر نیابتِ الہیٰ سے سرفراز ہونا پڑتا ہے۔ صوفیانہ مکاتب ِ فکر میں سُستی اور غفلت کی ذرا بھی گنجائش نہیں ہے۔ جس سالک نے ضبطِ نفس کے معاملے میں ذرا سی کوتاہی کی اُس سے گویا خود ہی اپنی راہ کو کھوٹا کر لیا۔میمنہ اسلم لکھتی ہیں:’’ہرچیز سے اللہ تعالیٰ کی ذات کا مشاہدہ اور طلب کرنا سلوک کہلاتا ہے جس کو سیر آفاقی کا نام بھی دیا جاتا ہے۔صوفیاء کی اصطلاح میں ایک سالک مرشدِ کامل کی اتباع، سنت و شریعت اور ریاضت و مجاہدہ کے ذریعے جو راستہ طے کرےسلوک کہلاتا ہے۔ راہ سلوک کے مقامات کو شریعت ، طریقت، حقیقت اور معرفت کہا جاتا ہے۔ اس راہ کے رہرو کو سالک، صوفی، فقیر، عارف اور درویش کہا جاتا ہے۔ اس راہ کا مقصود "تزکیہ نفس، مکارمِ اخلاق اور اخلاص کی تکمیل” ہے‘‘۔18؎
؂ لغزش رہِ سلوک میں اُفتادوں کو ہو گیا/ٹھوکر نہ کھا کے ایک دن آبِ رواں گرا[کلیات ناسخ،جلد اول،ص:53]
؂ عمدگی کر ترک لیتا ہے اگر راہِ سلوک/کب روا ں دیکھا ہے تو نے موتیوں کی آب کو[کلیات ناسخ،جلد۲،ح،اول:399]
راہِ معرفت معرفت؛ایک صوفیانہ اصطلاحی تلمیح ہے۔معرفت کے لفظی معنی پہچاننے کے ہیں۔ معرفت کا تعلق غور وفکر سے ہے۔ بنیادی طور پر معرفت کا مطلب جاننا، استعراف یا عارف کا ہوتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ دراصل وجدان اور تصوف سے بہت قریب ہے تو بیجا نہ ہوگا۔”جب کوئی شخص معرفت کو اپنا مرکزِ توجہ بناتا ہے۔وہ مسلسل طور پر اس کے بارے میں سوچتا ہے۔ وہ تخلیقات میں خالق کو جاننے کی کوشش کرتا ہے۔اس کی عبادت اور اس کے اخلاق ومعاملات میں معرفت کے اثرات دکھائی دینے لگتے ہیں۔ وہ معرفت کے ماحول میں جیتا ہے اور معرفت کی ہواؤں میں سانس لیتا ہے۔“19؎ راہ معرفت کے متلاشی سالکین؛ مشاہدے اور مجاہدے کے ذریعے رب تعالیٰ کی منشا کا اِزن حاصل کرتے ہیں ۔ کائنات و ماورائے کائنات کے اسَرارو روموز کی کھوج لگاتے ہیں۔ دُنیا و مافہیا سے بے خبر مستی کے عالم میں مستغرق رہتے ہیں۔
؂ حیرت سے عارفوں کو نہیں راہِ معرفت/حال اور کچھ ہے یاں اُنھوں کے حال اور قال کا[دیوان پنجم،میر،ص:۲۰۴]
رقصِ سُکر رقصِ سُکر سے مراد حالت ِحال یا مشاہدہ میں ایک ایسی بے خود ارتکازی کیفیت ہے جس میں ایک صوفی دُنیا و ما فہیا سے بے نیاز ہو کر عالمِ بالا کی سیر میں نکل جاتا ہے۔ یہ وقت انتہائی ارتکاز ِ توجہ کا ہوتا ہے جس میں صوفی،درویش،سالک اور عارف پر ایک طرح کی بے خودی طاری ہوجاتی ہے اور وہ قلبی رخش پر سوار ابدان کی کثافت سے ماورا لطافت کے الوہی اسَرار کی وادی میں سیرِ افلاک و ماورائے جہان میں محو ہوتا ہے۔ اس ساری کیفیت کو سُکر کی حالت سے منسوب کیا جاتا ہے۔ڈاکٹر وحید عشرت لکھتے ہیں:’’اصطلاح ِ تصوف میں حالتِ سُکر کو صوفی شارحین "صہبا و شراب” وغیرہ سے مراد لیتے ہیں ۔ تصوف میں سالک پر جو کیفیت یا "حال” طاری ہوتا ہے اس کو” واردات” کہا جاتا ہے ۔ اس کیفیت میں "غیب کا کشف” ہوتا ہے ۔اس واردات کے اختتام پر "وجد” ہوتا ہے جو سُکر کہلاتا ہے ۔سالک جب کوئی مخفی چیز دیکھتا ہے تو از خود رفتہ ہو جاتا ہے۔ یہ کیفیت اہلِ طریقت کے مطابق ان اُولیاء پر طاری ہوتی ہے جو ابھی اس راہ میں پختہ نہیں ہوتے ‘‘۔ 20؎ ناسخ نے سُکرکی کیفیت کو لے کر ایک طرح سے صوفیو کو تنبیہ کی ہے کہ قلقلِ مینا سے سُکر کو خودساختہ طاری کرنے والے ابن الوقت صوفی دراصل حقیقتِ حالتِ سُکر سے آگاہ ہی نہیں ہے بلکہ سراب میں سراب کی خواہش کے خواہاں ہیں۔
؂ یہ رقصِ سُکر نہیں صوفیو کی کرو تعظیم/غنائے قلقلِ مینا سے آیا حال مجھے[کلیات ناسخ،جلد۲،ح،۲،ص:2]
رند رند؛ایک مخصوص صوفیانہ کیفیت ہے جو مجذوبیت کے قریب اور درویشی کے مدمقابل آئی ہے۔فقیر یا رند جب دُنیا و ما فہیا کی دلچسپیوں اور آسائشوں سے بے نیاز ہو کر ذاتِ الہی کے گیان میں مستغرق ہو جاتا ہے ۔ اس پر انوار و تجلیات کا ظہور وارد ہوتا ہے ۔ یہ عالمِ حیرت میں گم وادیوں،ویرانیوں اور جنگل باڑوں میں چلا جاتا ہے اور دھان گیان میں غرق رہتا ہے۔اس کیفیت کو رندی سے منسوب کیا جاتا ہے۔اختیار حسین کیفی لکھتے ہیں:”یہ ایک جز وقتی اور بعض حالات میں مستقل کیفیت ہوتی ہے۔ایک سالک پر منحصر ہے کہ وہ اس کیفیت کو کس طرح محسوس کرتا ہے اور اس سے کیا حاصل کرتا ہے۔بعض صوفی اتنے متوالے ہو جاتے ہیں طاعت و عبادت کے ظاہری آداب و رسوم سے قطع تع نظر کر لیتے ہیں۔اس کیف و مستی میں کبھی اَسرار الہیٰ کو بے نقاب کر دیتے ہیں اور انہیں برملا بیان کرنے لگتے ہیں۔“21؎ کلاسیکی غزل میں رند ایک لا اُبالی، غیر سنجیدہ، اکھڑ مزاج اور شراب کا شیدا بانکا تصور کیا جاتا ہے جو کوچہ محبوب میں شب و روز مست معشوق کے دیدار کی حسرت میں مارے مارے پھرا کرتا ہے اور لعن و طعن کی پروا کیے بغیر محض معشوق کی خشنودری کی غرض رکھتا ہے۔ رندی ہر اُس قید اور پابندی سے آزار ہے جسے وہ حصولِ مقصد میں حائل سمجھتا ہے۔ رندی و مشربی کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔
؂ وجد میں آیا اگر میں رند مشرب بھی تو کیا/ناچتے ہیں صوفی اُس مطرب پِسر کے سامنے[کلیات ناسخ،جلد۲،ح،۲،ص:80]
؂ ڈراتا ہے بہت رندوں کو زکرِ نارِ دوزخ سے/تماشا ہو جلے واعظ لگ اُٹھے آگ منبر میں[کلیات آتش،ر،ن،ص:291]
؂ اسد اللہ خاں تمام ہوا/اے دریغا! وہ رندِ شاہد باز[دیوان غالب،ص:۴۵]
؂ سمجھتا ہے تو داغؔ کو رند زاہد/مگر رند اس کو ولی جانتے ہیں[گلزار داغ،ص:۲۳۳]
ذکرِ ہُو ذکر ہو ایک خاص قسم کا متصوفانہ ذکر ہے جو راہ سلوک کے مسافر کے لیے لازمی ہوتا ہے۔ اس ذکر کا چلہ کبیر او رچلہ صغیر کرنا پڑتا ہے پھر اس کی تاثیر و اثیریت اپنے اوج پر ہوتی ہے اور اس کی مدد سے رب تعالیٰ کے کارخانہ قدرت میں جھانکنے کی بساط کے پیشِ نظر اجازت ہوتی ہے۔ حق ہو سے مراد رب تعالیٰ کی وحدانیت کا قولی اور قلبی اقرار ہے جو ایک مخصوص وقت اور تعداد سے روزانہ بلا ناغہ کیا جاتا ہے۔آتش نے مست کی ہُو کو شیشہ اور شراب اور گلاب کا ایک سا عکس و نقش قرار دیا ہے۔آتش نے خو د کو اللہ کا فقیر قرار دیا ہے اور ذکرِ ہو کو وصالِ قُرب خدا کا ذریعہ ٹھہرایا ہے۔
؂ تاثیر دار لوگ ہیں اللہ کے فقیر/سنگِ صنم ہوں آب جو ہم ذکرِ ہُو کریں[کلیات آتش،ر،ن،ص:287]
؂ ہر ایک مست کی ہُو حق ہے نالہ بلبل/شراب شیشے میں ہے یا گلاب شیشے میں[کلیات آتش،ر،ن،ص:289]
؂ واعظا! دیکھ تو رندانِ خرابات کا ظرف/کی کسی مست نے ہُو حق سرِ منبر کس دن[کلیات آتش،ر،ن،ص:299]
سالک سالک؛ متصوفانہ تلمیح ہے۔ سالک وہ ہے جو قربِ حق کے راستوں اور طریقت کی منزلوں کو مجاہدات و ریاضات ، اتباع سنت و شریعت کے ذریعے طے کر کے مقصودتک پہنچے۔سید سرفراز اے شاہ لکھتے ہیں:” (صوفیا کے نزدیک) ایک سالک جب راہ طریقت کا رہرو بنتا ہے تو سب سے پہلے اس کی ظاہری آنکھ قدرت کی کاریگری کے کرشموں اور عجائبات عالم پر جاتی ہے جس سے اس کے باطن کی تصوراتی آنکھ وَا ہوتی ہے اور رفتہ رفتہ مشاہدے کے ذریعے کائنات کے اسَرار و رموز تک کی دسترس مشاہدے کے ذریعے راہ ہموار کرتی ہے۔ سالک سفر مشاہدے سے شروع کرتا ہے وصالِ یار پرتمام ہوجاتا ہے۔“22؎ راہ سلوک میں ہر چیز کو فنا ہے اور بقا صرف توجہِ اللہ ہے ۔ ایک سالک کو تمام تر دُنیاوی معاملات سے ماورا ہو کر اس راہ میں قدم رکھنا چاہیے۔اس راہ میں گامِ اولیں پرپاؤں جلنے کا گاندیشہ رہتا ہے۔ ایک سالک کی زندگی کا تمام تر انحصار قربِ ذات کا حصول ہے۔
؂ مرنے پہ اپنے مت جا، سالک!طلب میں اس کی/گو سر کو کھو رہے گا، پر اُس کو پا رہے گا[دیوان اول،میر،ص:۱۱۴]
؂ پایا نہ کنہوں نے اُسے کوشش کی بہت میرؔ/سب سالک و مجذوب گئے اُس کی طلب میں [دیوان چہارم،میر،ص:۴۷۲]
؂ طالبِ حق ہے اگر مت سالکوں کا ساتھ چھوڑ/مل گیا دریا میں جو کچھ مل گیا سیلاب میں[کلیات ناسخ،جلد اول،ص:221]
؂ ہیں جو سالک جانتے ہیں اپنے دُشمن کو بھی دوست/مصلحت بیں نہیں میں، عاقبت اندیش نہیں[کلیات آتش،ر،ن،ص:293]
سُکر تصوف میں سالک پر جو کیفیت یا حال طاری ہوتا ہے؛ اس کو’واردات‘ کہا جاتا ہے ۔ اس کیفیت میں غیب کا کشف ہوتا ہے ۔ کچھ نیا پانے پر ایک خوشی ہوتی ہے ۔ ان واردات کے اختتام پر وجد ہوتا ہے۔سالک جب کوئی چھپی چیز دیکھتا ہے؛ حواس باختہ ہو جاتا ہے۔شہاب الدین سروری لکھتے ہیں:”حالت سکر میں جو اقوال و افعال صادر ہوں وہ ناقابل سند ہوتے ہیں۔ ان کلمات کہ شطحیات کہتے ہیں۔سکر اولیاء کے مرتبے سے تعلق رکھتا ہے اور صحو انبیاء کے مرتبے سے تعلق رکھتا ہے۔صفات الہیہ کی تجلی یا ثواب و عذاب کے خیال کا غلبہ ہو کر سالک کے حواس معطل ہو جائیں اور خلق سے بے خبر ہو جائے تو اس کو غَیبت(غیاب) کہتے ہیں اور جب حواس درست ہو جائیں اور سالک ہوش میں آجائے اور اس امتیاز و احساس کا پلٹنا صحو ہے۔“23؎ کی خانگی حالات سے پتہ چلتا ہے۔ میرؔ نے سکر کے معاملے میں ظاہر پرست زاہد و شیخ اور پیر مغاں کو آڑے ہاتھوں لیا ۔ ان کی ابن الوقتی کو خوب مزے لے لے کر بیان کیا ہے۔
؂ ملنے والو! پھر ملیے گا، ہے وہ عالمِ دیگر میں /میرؔ فقیر کو سکر ہے یعنی مستی کا عالم ہے اب[دیوان پنجم،میر،ص:۲۴۰]
؂ اے کاش ہم کو سُکر کی حالت رہے مدام/تا حال کی خرابی سے ہم بے خبر رہیں [دیوان دوم،میر،ص:۴۴۱]
ضبطِ نفس نفس؛ بطور اصطلاح،اُردو میں کوئی ایک متفقہ مفہوم ہنوز متعین نہیں ہو سکا۔ اسے” روح” سے مخالف گردانا گیا ہے۔ضبطِ نفس کی اصطلاح کلاسیکی غزل میں یکساں مستعمل ہے۔ ضبطِ نفس سے مراد انسانی وجود میں شامل خبائث کی شرانگیزی کو دور کرنا مقصود ہے۔ روحانی وجود کو ریاضت و عبادت سے ہرطرح کی آلایشوں اور کثافتوں سے پاک کر نا ضبطِ نفس کی ذیل میں آتا ہے۔محمد بدیع الزماں لکھتے ہیں:” انسانی جسم کی تخلیق مٹی سے ہوئی ہے اور مٹی میں پستی و گھٹیا پن، ضلالت، گمراہی، حیوانیت شیطنیت اور سرکشی جیسی خاصیتیں پائی جاتی ہیں۔ اسی لیے نفسِ انسانی فطری طور پر برائی کی طرف رغبت دلاتا رہتا ہے۔ گویا گناہوں کی آلودگی اور حق سے انحراف نفس انسانی کی شرست میں شامل ہے۔“26؎میرؔ کا طبیعی میلان فطری طور پر صوفیانہ تھا؛یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں جابجا متصوفانہ گل بوٹے خوشبو بکھیرے گلستانِ سخن کو معطر کیے ہوئے ہیں۔
؂ صد پارہ گلا تیرا ہے کہ ضبط نفس بس/سنتا نہیں اس قافلے میں کوئی جرس بس[دیوان پنجم،میر،ص:۳۳۰]
عارف عارف صوفیانہ اصطلاحی تلمیح ہے۔بندے اور خدا کے درمیان اس تعلق کا ادراک معرفت کہلاتا ہے۔عارف چونکہ اپنے پستی اور رب کی عظمت کو اچھی طرح جانتا ہے اس لیے خودکو قاصر الندار،بے مایہ سمجھتا ہے۔علامہ طباطبائی لکھتے ہیں:”عارف سے مراد ایسا شخص ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات،صفات اور مخفی اسما و افعال کا جملہ قلبی مشاہدہ کروایا ہو۔ عارف اللہ کی محبت میں ثواب و گناہ سے ماورا مستغرق رہتا ہے۔ عارف جملہ جہانوں کے اسَرارِ علوم ِ خفی و جلی سے باخبر ہوتا ہے اور تعقل کو جلا ایسی کہ لاکھوں معنی ایک نکتے سے نکال سکتا ہے۔عقلی معراج کا غوطہ خور ہوتا ہے اور ہر وقت اسَرار الہیٰ کی انوار و تجلیات میں ڈوبا رہتا ہے‘‘۔ 27؎ میرؔ کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پاگل پنے میں انھیں سکر و صحو کی کیفیات کا عمل دخل دکھائی دیتا ہے۔ ناسخ نے عارف شخصیت کا معیار ہر معاملے میں ادب ہی کو قرار دیا ہے۔آتش نے عارف کے روایتی متصوفانہ موضوع ہی کا تتبع کیا ۔ غالب نے مے کشی کو "عرفانِ ذات” سے تشبیہ دی ہے ۔ غالب کا تخیلی عارف بادہ شناس ہے جبکہ صوفیانہ طرزِفکر کا عارف حق شناس ہے۔
؂ حیرت سے عارفوں کو نہیں راہِ معرفت/حال اور کچھ ہے یاں اُنھوں کے حال و قال کا[دیوان پنجم،میر،ص:۲۰۴]
؂ عارفوں کو ہر در و دیوار ادب آموز ہے/مانعِ گردن کشی ہے انحنا محراب کا[کلیات ناسخ،جلد اول،ص:29]
؂ کیوں کر کہوں عارفِ خدا ہوں/آنکھوں کو بند کر کے ہے دل کا پتہ دیا[کلیات آتش،ر،الف،ص:145]
؂ یعنی بہ حسبِ گردشِ پیمانہ صفات/عارف ہمیشہ مستِ مے ذات چاہیے[دیوان غالب،ص:۱۲۰]
عالم ِفقر فقر کے لغوی معنی احتیاج کے ہیں۔ اہل معرفت کے نزدیک اس سے مراد مفلسی اور فاقہ کشی نہیں ہے بلکہ خدا کے سوا ہر ایک سے بے نیازی ہے۔ جو شخص اپنی حاجات کو غیر اللہ کے سامنے پیش کرے اور جسے غنا کی حرص میں دوسروں کے آگے سر جھکائے اور ہاتھ پھیلائے؛ وہ نگاہِ عارف میں دریوزہ گر ہے؛ فقیر نہیں ہے۔ ڈاکٹر اقتدار حسین لکھتے ہیں:”نبی کریمؐ کی پوری زندگی فقیرانہ اُسلوب کا نمونہ اورفقر کی عملی تفسیر ہے۔متعدد روایات میں بتایا گیا ہے کہ اِدھر اُدھر سے جو تحائف،ہدایا، مال ومنال اور زروجواہر آتا،آپؐ اسے فی الفور تقسیم کر دیتے۔اپنے لیے یاگھر والوں کے لیے کچھ بھی نہ رکھتے تھے۔“28؎میرؔکے ہاں یہ اصطلاح مفلسی، فقیری یا گداگری کے مفہوم میں استعمال نہیں ہوئی، بلکہ مشہور حدیث نبوی ؐ ”اَلفَقْرُ فَخْرِی“ (فقر میرا فخر ہے)کے تحت آئی ہے۔ میرؔ کا اندازِ فقر اتنا دلفریب اور پُر اثر ہے کہ بطور شاعر ان کا طرزِفقر لائق تقلید ہے۔
؂ ہم بھی عالم فقر میں ہیں پر ہم سے جو مانگے کوئی فقیر/ایک سوال میں دو عالم دیں اتنے دل کے تنگ نہیں [دیوان چہارم،میر،ص:۴۶۸]
عالم ِوجد عالم وجد یا وجد ایک متصوفانہ اصطلاحی تلمیح ہے۔ وجد ایک ایسا روحانی جذبہ ہے۔ جو اللہ کی طرف سے باطن انسانی پر وارد ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں خوشی یا غم کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ یہ حالت غرقیہ دل پر اس طرح طاری ہوتی ہے کہ انسان بیخودہوکر آپے سے باہر ہوجاتا ہے لیکن شعور زائل نہیں ہوتا۔ وجد ایک روحانی جذبہ ہے جو رب تعالیٰ کی طرف سے باطنِ انسانی پر وارد ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں یاس و نشاط کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ قلب کی کیفیت بدل جاتی ہے اور رجوع اِلَی اللہ کا شوق پیدا ہوتا ہے۔
؂ عالم وجد میں بے خود نہیں ہوتے صوفی؟/نشے میں چور ہیں رندان خرابات ہی کیا[مہتاب داغ،ص: ۷]
علم لدنی علم لدنی متصوفانہ تلمیح ہے۔ تصوف کی معراج علم لدنی کا حصول قرار دیا جا تا ہے۔ صوفیائے کرام کی اصطلاح میں ایسے علم کو علم ِلدنی کہتے ہیں جس میں اسباب ِظاہری کا دخل اور واسطہ نہ ہو ۔ عالمِ غیب سے براہ راست علم اس کے قلب میں داخل ہو جائے۔احمد رضا شامی لکھتے ہیں:”دل میں عام طور پر جو علم داخل ہوتا ہے وہ حواسِ ظاہری کے دروازوں سے داخل ہوتا ہے۔ ایسے علم کو علمِ حصولی یاعلم ِاکتسابی کہتے ہیں ۔ جب کسی کے قلب میں کوئی دروازہ عالم ِملکوت کی طرف کھل جائے تو ایسے علم کو علم لدنی کہتے ہیں۔علم لدنی گویا تمام علوم کی ماں ہے۔‘‘29؎مرزا داغؔ حضور اکرم ؐ کے اُمی ہونے کو علم لدنی کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔ داغؔ کہتے ہیں علم لدنی کا معجزہ حیران کن ہے
؂ اللہ رے اس کے علم لدنی کا معجزہ/امی سبق پڑھائے کتاب شریف کا[گلزار داغ،ص: ۴۰۹]
غیب و شہود غیب؛اسلامی و صوفیانہ تلمیح ہے۔ غیب سے مراد ظاہری آنکھ سے دکھائی نہ دینے والی چیز کا ادراک کرنا جسے کسی اور نے متصور نہ کیا ہو اُسے تصور کے احاطہ میں لے آنا ۔ حیران کر دینے کے اس عمل کو غیب سے منسوب کیا جاتا ہے۔ غیاب کے تصور کوصوفیا،فلاسفہ اور منطق و منجموں کے ہاں بھی اہمیت حاصل ہے۔’’اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو بات بندہ سے پوشیدہ رکھی جائے وہ غیب ہے ۔جس عالم کی طرف اللہ تعالیٰ انسان کے واسطے سے نظر کرتا ہے وہ عالم شہادت ہے۔ اس کے برعکس بغیر انسان کے واسطے جس عالم کی طرف اللہ تعالیٰ نظر کرتا ہے وہ عالم غیب ہے۔۔۔وحدت الوجود نظریہ کے پیرواس بات کے قائل ہیں کہ مشاہدے کے زور سے غیاب کو حضوری میں بدلا جا سکتا ہے۔ شہود اور غیاب کا آپسی مخالف پہلو دلچسپی کا حامل ہے۔ ‘‘30؎غالب نے غیب اور شہود کے درمیان حد فاضل حائل کی ہے ۔ دونوں تصورات کے بارے میں مثبت روئیے کا اظہار کیا ہے۔غالب نے گویا اپنے تخلیق صلاحیت کا جواز اس تلمیح کی صورت فراہم کر دیا ہے۔
؂ ہے غیب، غیب جس کو سمجھتے ہیں ہم شہود/ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں[دیوان غالب،ص:۹۲]
؂ آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں/غالبؔ صریر خامہ نوائے سروش ہے[دیوان غالب،ص:۱۵۰]
فنافی اللہ فنا فی اللہ؛تصوف کی ایک معروف تلمیحی اصطلاح ہے۔ اس کی تشریح انتہائی پیچیدہ اور پرخطر ہے۔ ’فنا فی اللہ‘ کی وضاحت کے لیے مختلف نظریے وجود میں آئے۔ جن میں ’وحدت الوجود‘ اور ’وحدت الشہود‘ سرِ فہرست ہیں۔عنبرین مغیث سروری لکھتے ہیں:”اگر فنا فی اللہ کو سادہ طریقے سے بیان کیا جائے تو یہ ذاتِ حق (اللہ تعالیٰ) کے مشاہدے میں خود کو فنا کردینے کا عمل ہے یہاں تک کہ اپنی ’خودی‘ (ذات یا نفس) فنا ہوجائے اور ہمیشہ باقی رہنے والی صرف اور صرف خدا کی ذات ہی باقی رہ جائے۔ فنافی اللہ کا نظریہ انسان کا منتہائے مقصود اس کو قرار دیتا ہے کہ قطرہ سمندر میں مل اپنی ذات میں ضم و فنا کر دےفنا فی اللہ کا مقام متصوفانہ طریق کا حاصلِ کُل ہے۔‘‘32؎مرزا داغؔ نے فنا فی اللہ تلمیح کو اپنی ایک خواہش کی تکمیل کے تناظر میں بیان کیا ہے۔ داغؔ نے شاعرانہ اُسلوب میں خضر و مسیحا کی درازی و الہامی قوت و سطوت کے حصول کی خواہش کی ہے جو بادی النظر میں ناممکن مگراندازِ بیان کے حوالے سے لائق داد ہے۔
؂ فنا فی اللہ ہو کر پاؤں عمر جاوداں/مسیح وخضر کی ہستی سے بڑھ کر ہو عدم میرا[گلزار داغ،ص: ۴۹۸]
قطب اقطاب قطب اقطاب متصوفانہ مراتبت کے درجات ہیں جن پر ولی کامل متمکن ہوتا ہے۔ تصوف میں اولیا اللہ کے روحانی درجات کے اعتبار سے درجہ بندی کی جاتی ہے جس میں سب سے بڑا درجہ "غوثِ اعظم” کا ہوتا ہے پھر تریب سے اُوتار،اُوتار،ابدال اور عمران و اخیار آتے ہیں۔ یہ دراصل ایسے عظیم روحانی عہدے ہیں جن کے پس پردہ روحانی نظامِ عالم کا ایک لامتناہی سلسلہ کارفرما ہوتا ہے اور اس کا اہل کوئی دُنیا دار نہیں ہو سکتا ۔ابن محمد جی قریشی لکھتے ہیں:”اقطاب "قطب” کی جمع ہے۔ صوفیا کی اصطلاح میں قطب باطنی خلیفہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے زمانے کا سردار ہوتا ہے۔ اسے قطب اس بنا پر کہتے ہیں کہ وہ تمام احوال و منازل سلوک طے کر چکا ہوتا ہے۔مخلوق کے تمام مقامات و احوال اس پر گردش کرتے ہیں۔ قطب صوفیا کی اصطلاح میں کامل و اکمل انسان ہوتا ہے جسے مقام فردیت حاصل ہوتا ہے۔مخلوق کے احوال اس پر گردش کرتے ہیں‘‘۔33؎ ۔ ناسخ نے ابدال و اُتار سے فیضیاب ہونے اور قطب اقطاب یعنی زمانہ حال کے غوث کی قدم بوسی کو اپنے لیے دُنیا و آخری کی کامیابی کا پیشِ خیمہ قرار دیا ہے۔آتش نے قطب کی ایمانی ثابت قدمی کو مذکور شعر میں بیان کیا ہے کہ دُنیا اِدھر سے اُدھر ہو جائے اور خواہ ہفت آسماں اورپورا نظامِ کائنات ہل کر رہ جائے ؛قطب کے پاؤں میں ذرا سی لغزش نہیں ہو تی کہ وہ ان مراحل اور اندیشہ ہائے زیست سے بہت آگے نکل چکا ہوتا ہے۔
؂ قطب اقطاب کی ناسخؔ ہے میسر پابوس/کوئی ابدال کے چومے، کوئی اوتار کے ہاتھ[کلیات ناسخ،جلد۲،ح،اول:418]
؂ گردش میں رہتے ہیں تو رہیں ہفت آسماں/جنبش نہ ہوگی قطب کو اپنے مقام سے[کلیات آتش،یاے تختانی:450]
قلندر قلندر؛ایک متصوفانہ اصطلاح ہے ۔ یہ ایک خاص طریق طرزِ حیات ہے۔اصطلاح میں قلندر وہ شخص ہے جو دونوں جہان سے پاک اور آزاد ہوتا ہے۔قلندر اور صوفی ہم معنی الفاظ ہیں۔قلندری سلسلہ سے تعلق رکھنے والے بزرگوں میں حضرت بو علی شاہ قلندر ؑ،حضرت سخی لعل شہباز قلندر ؑ جبکہ رابعہ بصری سرفہرست ہیں ۔خواجہ شمس الدین عظیمی لکھتے ہیں:”قلندر، وہ ہوتا ہے جو کائنات کو مسخر کیے ہوتا ہے، جو ہمہ وقت ایک فاتح سے بھی بڑھ کر ہوتا ہے۔ قلندر کے لیے کائنات مثلِ غبارِ راہ ہے۔اُس میں مزید کی خواہش جنم نہیں لیتی، وہ دولتِ دنیا لُٹا دینا چاہتا ہے۔ قلندر اپنے آپ میں ایک واصل ہوتا ہے قلندر کے در پر سکندر سوالی ہوتا ہے۔“34؎
؂ خوش رہا جب تلک رہا جیتا میرؔ/معلوم ہے قلندر تھا[دیوان اول،میر،ص:۱۲۴]
؂ ایک الف سے قد کے سودے میں ہوا آتشؔ فقیر/چار ابرو کو صفا کر کے قلندر ہو گیا[کلیات آتش،ر،الف،ص:139]
؂ کیوں نہ بوسے لب شیریں کے بہت میں لُوں/سیر ہو کر نہیں چکھتے ہیں قلندر کس دن[کلیات آتش،ر،ن،ص:299]
قناعت قناعت متصوفانہ تلمیح ہے جس کا ذکر تصوف کے سلاسل میں بطور خاص ملتا ہے۔ قناعت ایک ایسا ہتھیار اور ذریعہ ہے جس کے بل بوتے پر ایک سالک کا سفر بہت آسان ہو جاتا ہے۔ قناعت سے مراد جو پاس اور ضرورت کے مطابق ہے وہ بہتر ہے اور جو نہیں ہے اس کا اندیشہ و حصول کا لالچ نہیں ۔ ایک فقیر، درویش،صوفی اور مردِ مومن کے لیے قناعت پسندی کو آدھا دین اور تین تہائی متصوفانہ طرزِحیات کا منبع قرار دیا گیا ہے۔ مولانا عمران قادری لکھتے ہیں:”قناعت کا لغوی معنی”قسمت/ تقدیر پر راضی رہنا” کے ہیں۔ صوفیا کی اصطلاح میں روزمرہ استعمال میں آنے والی اشیا و حوادث و جملہ معاملات میں راضی بر رضا رہنا قناعت ہے ‘‘۔35؎آتش کا مزاج صوفیانہ تھا۔ صوفی فکر سے آتش کی گہری وابستگی ان کے اشعار سے جھلکتی ہے۔
؂ جو قناعت کے مزے سے آشنا ہو جائے گا/زندگی سے دمِ مسیحا کا خفا ہو جائے گا[کلیات آتش،ر،الف،ص:98]
؂ تمنّا دولتِ دُنیا کی اے آتشؔ! نہیں رہتی/قناعت سے غنی اللہ کر دیتا ہے مسکیں کو[کلیات آتش،ر،و،ص:314]
کرامات کرامت سے مراد وہ خرقِ عادت ہے جو بلا اِرادہ ایک فقیر، درویش یا صوفی سے سرزد ہو جاتی ہے۔ کرامت عام سے خود اختیاری فعل نہیں کہ جسے حسبِ ضرورت لوگوں کے سامنے اپنے روحانی مراتب کے اظہار کے لیے آشکار کیا جائے بلکہ یہ ایک طرح سے رب تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندے کی صداقتِ قلبی اور ایمانی کیفیت کا از خود اظہار ہوتا ہے جس میں غیرمعمولی کوئی واقعہ یا شکل رونما ہوتی ہے جو اس سے پہلے نہ کبھی ظہور میں آئی اور نہ اس کے بارے میں کبھی کسی نے سنا۔ کرامت کا تعلق ولی اللہ،مردِ درویش اور مردِ قلندر سے منسوب ہے۔ آتش نے مذکور تلمیح کو تصوف کے حوالے سے بیان نہیں کیا بلکہ مزاجی رنگ میں اسے برتا ہے ۔آتش نے نعمت نبی کو کرامات کا استحقاق قرار دیا ہے۔
؂ یار نے وعدہ فردائے قیامت تو کیا/شک ہے اے نالہء دل تیری کرامات میں کیا[کلیات آتش،ر،الف،ص:81]
؂ نعمتِ عشق بنتی ہے، لے لے/مستحق ہو جو اس کرامت کا[کلیات آتش،ر،الف،ص:163]
؂ درگاہِ یار سے یہ کرامت نہیں بعید/کُھل جائیں پاؤں راہ میں اُس کی جو شل چلے[کلیات آتش،یاے تختانی:426]
گدڑی گڈری تصوف میں بہت اہمیت رکھتی ہے۔ گڈری درا صل درویشوں ،فقیروں اور راہ سلوک میں قدم رکھنے والے اور رب تعالیٰ کا حقیقی عرفان کا گیان حاصل کرنے والوں کے لیے ایک علامت کے طور اختیار کی جاتی ہے۔ یہ سادہ لباس ہوتا ہے جو ایک لمبا اَن سِلا کپڑا ہوتا ہے جو گھٹنوں سے لے کر ناف تک جسم کے گرد اوڑھ لیا جاتا ہے اور باقی جسم برہنہ رہتا ہے۔ اس مخصوص لباس کے پیچھے کئی ایک اسَرار اور مصلحتیں پنہاں ہیں جنھیں کوئی فقیر،عارف یا صوفی صحیح طور پر بتا سکتا ہے ہمارا تو قیاس ہی ہے اور قیاس کبھی مبنی پر حقیقت نہیں ہوتا۔ آتش نے گڈری کے تقابل میں اطلس و کمخواب و مشجر کو ٹکڑے کی معمولی حیثیت سے دیکھا اور جانا ہے۔ آتش نےمزاجی رنگ میں لب ِلعل پر گدڑی کو بیچ ڈالنے کی پیشکش کی ہے۔
؂ وہ لعل لعل لب ہے مرے شاہِ حُسن کا/سودے میں کس کے بکتی ہے گدڑی فقیر کی[کلیات آتش،یاے تختانی:338]
؂ مجھ کو گدا جو ہے گدڑی میں تکلّف منظور/ہوتے ہیں اطلس و کمخواب و مشجر ٹکڑے[کلیات آتش،یاے تختانی:422]
مجذوب مجذوب متصوفانہ تلمیح ہے۔ مجذوب ایک خاص قسم کی کیفیت ہے جو فقیر،درویش،صوفی اور راہ سلوک کے مسافر پر جز وقتی طاری ہوتی ہے۔ ایسی کیفیت کو مجذوبیت کہا جاتا ہے اور مجذوب پر شریعت کا اطلاق نہیں ہوتا کہ اُس کے حواس مختل ہو جاتے ہیں اور وہ جو کچھ کر رہا ہوتا ہے اور اُس سے سرزد ہو رہا ہوتا ہے وہ اس کی عقلی اور حواسِ ادراک سے مشروط نہیں ہوتا۔ "مجذوب کا کوئی سلسلہ نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کے مریدین ہوتے ہیں۔ یہ اپنے باطنی اسرار و رموز میں محو و مست رہتا ہے۔جو اللہ کی طرف سے عطا کردہ ہوتے ہیں۔ ان کا ہر عمل، ہر حرکت اور ادا مصلحت سے بھرپور ہوتی ہے۔ ہر بات کے پیچھے کوئی تمثیل ہوتی ہے۔ بعض اوقات غیر متوقع بات کر دے گا؛ کسی کو گالی دے دے گا مگر ہر بات کسی مصلحت کی بناء پر ہوتی ہے۔“36؎ ۔میرؔ گو؛مجذوب کیفیت کو ذاتی طور پر سمجھتے ہیں تاہم ان کی دیوانگی اور بد دماغی کو کسی حد تک مجذوب کیفیت سے منسلک کیا جا سکتا ہے۔ آتش نے اپنی غزل کے اثر کو مجذوب کی بَڑ سے تشبیہ دی ہے ۔ داغؔ کہتے ہیں مجذوب بے خبری میں جانے کیا کچھ کہے جا رہا ہے۔اس کی بات میں کوئی رمز اور نکتہ ہو گا ۔ اس کی مجہول باتوں میں اَسرار الہی کا واہمہ اثر لیے ہوئے ہے۔یہ قرب و جوار سے غافل کتنا ہوشیار ہے ۔ وہاں کی خبر رکھتا ہے جہاں کا تصور میرے احاطہ ادراک میں نہیں آسکتا۔
؂ سمجھ لیتے ہیں مطلب اپنے اپنے طور پر سامع/اثر رکھتی ہے آتش ؔ کی غزل مجذوب کی بَڑ کا[کلیات آتش،ر،الف،ص:102]
؂ پایا نہ کنہوں نے اُسے کوشش کی بہت میرؔ/سب سالک و مجذوب گئے اُس کی طلب میں [دیوان چہارم،میر،ص:۴۷۲]
؂ ساقیا اس میں کھینچے کیا کسی مجذوب کی روح/کوئی کھینچے لئے جاتا ہے سو خم مجھ کو[گلزار داغ،ص: ۱۵۹]
؂ پتے کی کہ رہا ہوں سچی سچی بے خودی میں بھی/عجب مجذوب سالک ہوں عجب ہشیار غافل ہوں [مہتاب داغ،ص:۷۶]
مردِمومن مردِ مومن تلمیح آتش نے وضع کی ہے۔ یہ تلمیح علامہ اقبال کی شاعری کا مرکزی نکتہ اور فلسفہ بن کر سامنے آئی ہے۔ مرد مومن سے مراد اسلام کی تعلیمات پر پوری طرح عمل پیرا انسان ہے جس کی ذات و شخصیت میں کوئی عیب ِ ظاہری موجود نہیں ہے وہ حقیقی عرفان کے حصول میں شریعت و طریقت اور حقیقت کے اُصول و ضوابط سے کماحقہ واقف و آگاہ ہے۔ آتش نے مردِ مومن کی شناخت اس کے علم کی بہ نسبت عمل کو کسوٹی قرار دیا ہے۔ آتش کہتے ہیں مرد مومن وہی ہے جو عشق پر اپنے عمل کی عمارت اُستوار کرتا ہے مذہبِ حق کے خلاف بطلان کو آڑے نہیں آنے دیتا۔
؂ حق یہی مذہب ہے، باطل ہے جو ہے اس کے خلاف/مردِ مومن ہے وہی،لایا ہے جو ایمانِ عشق[کلیات آتش،ر،ق،ص:243]
؎ گردشِ دوراں سے مردانِ خدا بے باک ہیں/نوحؑ کی کشتی کو اندیشہ نہیں گرداب کا[کلیات آتش،ر،ن،ص:271]
مردِ خدا مرد خدا یا مرد ِمومن متصوفانہ تلمیح ہے۔ انسان کی کامل ترین صورت مردِ خدا اور مرد ِمومن ہے۔علامہ اقبال نے مردِ خدا یعنی مرد ِمومن کی اصطلاحی تلمیح کے پس منظر میں ایک جہان آباد کیا ہے ۔اقبال آفاقی لکھتے ہیں:”مرد مومن یامرد خدا کا مقصود رب تعالیٰ کی خوشنودی اور رضا کے آگے سر نگونی میں ہے۔ یہ نیٹشے کے مرد برتر کی طرح تکبر و غرور کا مجسم نہیں بلکہ اقبال کے ہاں تو فقر کو اس قدر اہمیت حاصل ہے کہ وہ اسلام کو ”فقر غیور“ کی اصطلاح سے تعبیر کرتے ہیں۔ ‘‘37؎داغؔ کہتے ہیں مرد خدا کی دسترس زمان و مکاں اور ماورائے کائنات تک پھیلی ہوئی ہے۔ اسے گھر اور باہر ظاہر اور باطن کے تفاوت میں اسیر نہیں کیا جا سکتا ۔ اس کی نگاہ میں نگاہ ِربوبیت پنہاں ہوتی ہے ۔
؂ جب داغؔ کو ڈھونڈھا کسی بت خانے میں پایا/گھر میں کبھی اس مرد خدا کو نہیں دیکھا[گلزار داغ،ص: ۳۰]
مرشد کامل مرشد کامل متصوفانہ تلمیح ہے۔ مرشد یعنی "راہنمائی کرنے والا، آگاہی دینے والا،رستہ دکھانے والا” ہے اور کامل سے مراد”مکمل،پختہ، لاریب”ہے۔ صوفیانہ طرزِ زیست میں مرشد کامل کا مقام و مرتبہ اظہر الشمس ہے۔ صوفیا کے جملہ مکاتب فکر میں درجات کے اعتبار سے مرشد کے تین درجے ہیں۔مرشد ،مرشد اکمل اور مرشد کامل۔مرشد وہ جو مرید کو تصوف کے بنیادی اُصول و ضوابط سے آگاہ کرے۔ مرشد اکمل وہ ہے جو مرشد کے سالک کو تصوف کے راہ سلوک کی خبر دے اور ضبطِ نفس کے ذریعے حقیقیِ عرفان کا راستہ دکھائے۔مرشد کامل وہ ہے جو ہر لحاظ سے سالک کی ظاہری و باطنی تربیت کرے اور اس کے جملہ نقص کو پاک کرے اور رب تعالیٰ کے اَسرار سے مخفی اور نہاں چیزوں کا مشاہدہ کرائے اور ولی اللہ ہونے کی سند عطا ۔مرشد جہاں کی نگاہ رکھتا ہے مرید کا گمان وہاں کا متصور بھی نہیں کرسکتا۔
؂ لیتے ہیں رنج مرشد کامل مرید کا/مہتاب میں ہے داغ جلن آفتاب میں[کلیات ناسخ،جلد اول،ص:199]
؂ تیرے الف سے قد نے کیا ہے جسے فقیر/مرشد وہی ہے فرقہ آزاد سے ہوا[کلیات آتش،ر،الف،ص:121]
؂ رُتبہ کمال عشق کا حاصل نہیں ہوا/اب داغؔ کو ہے مرشد کامل کی آرزو[آفتاب داغ،ص:۳۰۹]
مست/مستی مست اور مستی؛ ایک مجذوبیانیہ کیفیت ہے جو ایک سالک پر وارد ہو جائے تو اسے اپنے اور پرائے کی تمیز کا ادراک نہیں رہتا۔ مست دراصل ایک تغیر آمیز کیفیت کی ہیجانیت کا نام ہے جہاں سالک کو مشاہدے کے ذریعے خداوند کا عرفان ملتا ہے۔عالمِ حیرت میں زبان سے گنگ اور کانوں سے بہرگی کا مظاہرہ کرتا ہے۔اس کے حواس باختہ ہو جاتے ہیں اور نیم مجنون کی حالت میں چلا جاتا ہے۔”مست یا مستی ایک کیفیت کا نام ہے ۔اسے ایک طرز ِحیات کے طور پر بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر حقیقی عرفان کے حصول میں اطاعتِ الہٰی ،اطاعتِ رسول اور ضبطِ نفس کے ذریعے اپنا سفر شروع کرتا ہے تو بے شمار مسائل و مشکلات اور امتحانات سے اس کو گزرنا ہوتا ہے۔ جیسے جیسے اس کی بدنی کثافت دور ہوتی جاتی ہے ویسے ویسے اس کی روحی لطافت فزوں تر ہوتی جاتی ہے۔ رب تعالیٰ کے تصور میں جب یکائی ذہن و قلب میں سما جاتی ہے تب عارفیت کا پڑاؤ شروع ہوتا ہے جہاں سالک پر ایک خاص کیفیت طاری ہوتی ہے اور وہ دنیا و مافہیا سے بے نیاز تصورِ یکتائی میں کھو کر رہ جاتا ہے ۔اسے کھانے پینے بودوباش کا کوئی ہوش نہیں رہتا۔ اس کیفیت کو "مستی”سے تعبیر کیا جاتا ہے“۔38؎
؂ ملنے والو! پھر ملیے گا، ہے وہ عالمِ دیگر میں /میرؔ فقیر کو سکر ہے یعنی مستی کا عالم ہے اب[دیوان پنجم،میر،ص:۲۴۰]
؂ محتسب پہنچا سکا کچھ بھی نہ مستوں کو ضرر/شیشہ ء مے ٹوٹ کر ساقی پیالا ہو گیا[کلیات ناسخ،جلد ۲،ح،اول،01]
؂ کون سی جا ہے جہاں تیرے نہیں اے یار! مست/دیکھیے جس کوچے میں ،بڑ مارتے ہیں چار مست[کلیات آتش،ر،ت،ص:184]
؂ نشہ رنگ سے ہے واشد گل/مست کب بند قبا باندھتے ہیں[دیوان غالب،ص:۱۰۰]
مشاہدہ مشاہدہ متصوفانہ اصطلاحی تلمیح ہے۔ مشاہدہ سے مراد رب تعالیٰ کے اسَرار اور کارخانہ قدرت میں جھانک کر سر کی آنکھ سے دکھائی نہ دینے والے احوال کو قلبی آنکھ سے دیکھنا ہے۔ مشاہدہ کے ذریعے ایک سالک،درویش اور صوفی رب تعالیٰ کے روحانی نظام کی جلوہ گری اور انتظامی امور کی خفیہ کارروائی کو دیکھتا ہے تو حیرت زدہ رہ جاتا ہے کہ رب تعالیٰ کی کائنات اور نظامِ عالم کا انتظام کس قدر احسن اندازمیں کارفرما ہے اور کیا کچھ ہے جو رب تعالیٰ نےخلق کر رکھا ہے ۔ مشاہدہ کے ذریعے ایک سالک،صوفی اور درویش کا رب تعالیٰ پر ایمان بڑھتا ہے اور وسعتِ نظر و قلب و ایقان میں اضافہ ہوتا ہے۔”سالک مشاہدے کے ذریعے مشہود کی شہود کاریوں کا نظارہ کرتا ہے ہے ۔حیرتوں کے بحرِ بیکراں میں غرق و منہمک ہوتا ہے ۔ مشاہدے کی فنایت سالک پر کشف کے الہامی راز آشکار کرتی ہے۔ یہ سارا سفر مشاہدے سے شروع کرتا ہے اور فنایت پر ختم ہوتا ہے۔‘‘39؎آتش نے عشق کو پیر قرار دیا ہے اور عشق کے مشاہدے کی جلوہ گری کو ذوقِ جمال کے نظارے سے تشبیہ دی ہے۔غالب نے مشاہدہ حق کی خواہش کے حصول میں بادہ و ساغر کا التزام ضروری قرار دیا ہے۔
؂ مرید کر کے مجھے پیرِ عشق نے اپنا/مشاہدے کو اک آئینہ جمال دیا[کلیات آتش،ر،الف،ص:155]
؂ ہر چند ہو مشاہدہ حق کی گفتگو/بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر[دیوان غالب،ص:۶۰]
منزل فقر و فنا منزلِ فقر و فنا سے مراد فقر و فنا کی منزل ہے ۔ صوفیانہ افکار میں راہ سلوک کا مسافر یعنی فقیر،درویش اور صوفی فقر اور فنا کی منزل سے گزر کر ولایت کے درجے پر فائز ہوتا ہے۔ ولایت کے درجے پر فائز ہونے کے لیے سالک کو ضبط نفس،اطاعت الہی اور اطاعت رسول پر پوری طرح عمل کر نا پڑتا ہے۔ یہ راہ اتنی آسان نہیں ہے کہ ہر کوئی اس پر سے آسانی سے گزرجائے ۔ ولایت کا منصب فقر کے گھوڑے پر سوار ہو کر فنائیت کے مقام کو چھولینے سے حاصل ہوتا ہے ۔ آتش کہتے ہیں کہ منزلِ فقر و فاقہ میں ادب کو مرکزی حیثیت حاصل ہے ۔اس مرتبہ پر جو شخص فائز ہوتا ہے اس کے ادب کے لیے بادشاہ کو اپنا تخت چھوڑنا پڑتا ہے اور مقامِ بادشاہت سے اُتر کر اس کی تعظیم کرنا پڑتی ہے کہ با ادب با نصیب اور بے ادب بے نصیب کا مقولہ یہاں مبنی بر مصداق نظر آتا ہے۔
؂ منزلِ فقر و قافہ جائے ادب ہے غافل/بادشاہ تخت سے یاں اپنے اُتر لیتا ہے[کلیات آتش،یاے تختانی:346]
منصبِ فقر منصبِ فقر سے مراد فقر کا منصب یعنی اختیار ہے۔ فقر سے مراد فقیری ہے یعنی اپنے احوال پر خوش رہنا ؛جو کچھ موجود ہے اس پر قانع رہنا ؛مزید کی خواہش سے بے نیاز ہوجانا اور رب تعالیٰ کی رضا پر راضی اور سر کو ہر وقت خم کیے رکھنا فقر کے ابتدائی مدارج ہیں۔ حضور اکرم ؐ نے فقر کو امارت پر ترجیح دی ہے اور فقر کی زندگی کو اصل زندگی قرار دیا ہے۔ ایک فقیر راہ فقر پر گامزن زندگی کو شریعت کے تابع کر کے حقیقت کا گیان حاصل کرتا ہے اور رب تعالیٰ کے کارخانہ قدرت کے اسَرار تک رسائی پاتا ہے اور انوار و تجلیات کے مشاہدے سے رب کی ربوبیت اور شانِ کریمی کے مظاہر کا جلوہ دیکھتا ہے جس سے ان کا ایمان مزید پختہ اور رب تعالیٰ سے تعلق وسیع ہو جاتا ہے۔آتش نے خود کو صبرو سکونت کا داعی قرار دیا ہے اور بطور سائل سلطان ِ عظیم یعنی ربِ ذوالجلال سے شب و روش منصبِ فقر کے حصول کی خواش کی ہے۔ آتش کے ہاں تصوف کے موضوعات کا جس قد رکُھل کر اظہار ملتا ہے اس سے ہم آتش کو ایک صوفی شاعر قرار دے سکتے ہیں ۔
؂ سائلِ صبرو سکونت ہوں خدا سے شب و روز/منصبِ فقر ہے مطلوب مجھے سلطاں سے[کلیات آتش،یاے تختانی:392]
ناقص و کامل ناقص و کامل؛صوفیانہ تلمیح ہے۔صوفیانہ تعلیمات کے مطابق راہِ سلوک کا مسافر جب مشاہدے کے ذریعے انوار و تجلیات کے حصول میں (بھولے جانے )نفسانی و شیطانی طاقتوں کے اثر سے زائل ہو کر راہ کھوٹی کر لیتا ہے۔ اس نقص کا ملال اسے عمر بھر رہتا ہے۔اس کے مقابلے میں مرشد کی راہنمائی میں طریقت کی منازل شیطانی و نفسانی طاقتوں کے اثر سے ماورا ہو کر طے کر لینے والا کاملیت کے درجہ پر فائض ہوتا ہے۔غالب کہتے ہیں دُنیا ایک آئینہ خانہ ہے ۔ عارف و عامی اس نگار خانہ میں حیران ہیں کیونکہ اسَرار قدرت کسی کی سمجھ میں نہیں آتے۔آئینہ؛ ناقص و کامل کا کچھ امتیاز نہیں کرتا بلکہ ہر چیز کا عکس قبول کر لیتا ہے۔ اسی طرح زمانہ بھی جو مثالِ آئینہ خانہ ہے؛ناقص و کامل کا عکس دکھانے میں امتیاز نہیں کرتا۔
؂ بر رُوئے شش جہت درِ آئینہ باز ہے/یاں امتیازِ ناقص و کامل نہیں رہا [دیوان غالب،ص:۴۶]
نفسِ امارہ نفسِ امارہ سے مراد نفس کی وہ قسم ہے جو انسان کو بُرائی پر اُکساتی ہے اور معصیت میں مبتلا کرنے کی مہمیز دیتی ہے۔نفس کی کئی اقسام بتائی جاتی ہیں جن میں نفس امارہ،نفس لوامہ، نفس مطمنہ زیادہ اہم ہیں۔ نفس ِ امارہ دراصل وہ شیطانی و سِفلی خواہشات ہیں جو انسان کے بُرائی، شکر، کفر اور نافرمانی و حکم عدولی پر اُکستاتی ہے اور مسلمان کی راہ کو کھوٹا کرنے میں پیش پیش ہوتی ہیں۔ نفس کے اس مذموم مقاصد سے آگاہ ہونا اور راہ ِ طریقت پر چلتے ہوئے شریعت کی پیروی کرنا اس کے شر سے نجات کا واحد ذریعہ ہے۔آتش نے نفسِ امارہ کی گردن کو مروڑنے کے لیے مو لا علی ؓ کی مدد کو ناگزیر قرار دیا ہے۔ آتش کی درویشانہ طبیعت میں نفسِ امارہ کے تدارک کا حل پیر ومرشد کی بیعت و خلوت میں مقیمی پر منحصر ہے۔
؂ صفا ہوا نہ ریاضت سے نفسِ امارہ/کوئی نجاست ِ سگ کا ازالہ کیا کرتا[کلیات آتش،ر،الف،ص:64]
؂ نفس امارہ سا رکھتا ہے یہ سرکش دُشمن/آدمی کے لیے غافل نہیں رہنا بہتر[کلیات آتش،ر،ر،ص:214]
؂ یا علیؓ کہہ کر بُتِ پندار توڑا چاہیے/نفسِ امارہ کی گردن کو مڑوڑا چاہیے[کلیات آتش،یا ےتختانی:439]
نفس کُشی نفس کُشی نفس امارہ ہی کا ایک ذیلی باب ہے۔ متصوفانہ طرزِ طریقت میں قُرب ِ خداوندی کے حصول کے لیے راہ سلوک کے مسافر پر ضبطِ نفس کی پابندی عائد ہوتی ہے۔ نفس امارہ کو ضبط یعنی اپنے حصار میں لائے بغیر روحانیت میں آگے بڑھا مشکل ہوتا ہے۔ نفس ایک اندھا جانور ہےجسے اپنے پرائے کی تمیز نہیں ہوتی اور یہ اپنے مفادات اور خود کو ہر طرح سے کُھلی لگام کی طرح آوارہ پھرنے پر انسان کو مجبور کرتا ہے ۔اپنی کثافت سے روح کی لطافت کو مجروح کرکے انسانی حواس کو اپنے قابو میں کر لیتا ہے جس سے انسان شرک و ہوس و دُنیاداری میں پڑ کر اپنی راہ کو کھوٹا کر لیتا ہے۔ آتش نے نفس کے بے لگام گھوڑے کو خاکساری سے تابع کیا ہے اور پری خوانو کو اس دیو کے تسخیر کرنے کا نسخہ خاکساری بتایا ہے۔
؂ ثابت قدم فقر کو ہے نفس کُشی شرط/بے دیو کے مارے ہوئے رُستم نہیں ہوتا[کلیات آتش،ر،الف،ص:162]
؂ نفس سرکش کو کِیاہے خاکساری سے مطیع/اے پری خوانو! یہ دیو ہے اپنی بھی تسخیر میں[کلیات آتش،ر،ن،ص:301]
نفی و اثبات نفی و اثبات متصوفانہ تلمیح ہے۔ نفی سے مراد رب تعالیٰ کے علاوہ ہر چیز کی نفی ہے اور اثبات سے مردا رب تعالیٰ کے وحدانیت کے اقرار کے علاوہ ہر چیز سے انکار ہے۔ نفی و اثبات کے اقرار و قائل کے بغیر ایک سالک راہ سلوک میں قدم نہیں رکھ سکتا۔ تصوف میں سب سے زیادہ زور وحدانیت کے تصور پر دیا جاتا ہے۔ ایک سالک کے لیے رب تعالیٰ کے تصور اور ربوبیت سے منسلک تمام تر اشکالات و شکوک و شبہات میں ایک واضح تصور اور ایقان محکم کا حاصلِ رفیقِ سفر ہو نا لازمی شرط ہے۔ اس سفر میں ذرا سا احتمال راہ کو کھوٹا کر سکتا ہے اور مقصد بے معنی ہو جاتا ہے۔نورین عبدالغفور لکھتی ہیں:”مقام نفی یعنی لا اللہ "سوائے اللہ کے” مقامِ اثبات ہے۔ نفی کا مطلب ہے "ختم کرنا” لا کی تلوار سے ظاہری اور باطنی تمام بتو ں کو ختم کر دیان اور کسی کو بھی اللہ تعالیٰ کا شریک نہ ٹھہرانا یعنی یہ اقرار کرنا کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اپنے دل میں ہر بت کو توڑنا اور مقابلے میں کسی اور چیز کو نہ لانا اور اللہ ہی کو واحد و یکتا ماننا ہے۔ناسخ متصوفانہ افکار سے بخوبی آگا ہ ہیں۔ ناسخ نے نفی و اثبات کے قضیے کو بے جا قرار دیا ہے ۔ غالب نے راہِ سلوک کے مسافر کی نفی و اثبات کی کشمکش کا ذکر کیا ہے ۔ غیر اللہ کی طاغوتی طاقتیں ہر لمحہ برسرِ پیکار رہتی ہیں اور راہ کھوٹا کرنے کے درپئے رہتی ہیں ۔ راہروانِ طریقت تصو ِ خدا سے مہمیز انہ استعانت کے پیشِ نظر استقامت سے پر اپنا سفر جاری رکھتے ہیں۔
؂ نفی الہٰی کر لے پہلے بعد اثبات حبیب/ہے عبث یہ شغل ناسخؔ نفی اور اثبات کا[کلیات ناسخ،جلد۲،ح،اول:92]
؂ نفی سے کرتی ہے اثبات تراوش گویا/دی ہے جائے دہن اُس کو دم ایجاد نہیں[دیوان غالب،ص:۹۵]
نعرہ "یا ھو”نعرہ ہُو ؛ایک صوفیانہ نعرہ ہے ۔ہُو سے مراد رب تعالیٰ کی وحدانیت کا اظہار ہے۔ رب تعالیٰ نے اپنے سوا کسی اور عبادت کو اپنے خلاف اعلانِ جنگ سے تعبیر کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر سب سے پہلے اپنے ایمان کی پختگی اور رب تعالیٰ کی ایقانیت کو ثابت کرتا ہے ۔ یہ ثابت قدمی کا عمل نعرہ ہُو کے مخصوص طریق سے مشروط ہے۔ نعرہ ہو کے ذریعے ایک انسان رب تعالیٰ کے ماسواتمام طاقتوں، واسطوں،ذریعوں اور وسیلوں کو تج دیتا ہے اور فقط ربِ کائنات کے تصور تک خود کو محدود کر تا ہے ۔یہ اس لیے ہے کہ رب تعالیٰ کی خشنودی کا حصول ہی منشائے حصولِ زیست ہے۔آتش کا مزاج صوفیانہ ہے اور کلام کا ایک تہائی حصہ صوفیانہ موضوعات سے مزین ہے
؂ یاد الہٰی میں جو نعرہ "یا ہو” کیا/بھول گئے وحش و طیر نغمہ داود کو[کلیات آتش،ر،و،ص:325]
؎ کچھ نظر آیا نہ پھر جب تُو نظر آیا مجھے/جس طرف دیکھا مقام ھو نظر آیا مجھے[کلیات آتش،یاے تختانی:419]
وجد/عالم وجد وجد تصوف و سلوک کی ایک خاص اصطلاح ہے۔یہ ایک کیفیت ہےجو ذکر کے وقت طاری ہوتی ہے۔ یہ کیفیت عموماً اولیاء کاملین کی کی صحبت میں ذکر کے دوران پیدا ہوتی ہے۔اسے "حال”سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔سید سرفراز اے شاہ لکھتے ہیں:”وجد ایک روحانی جذبہ ہے جو رب تعالیٰ کی طرف سے باطنِ انسانی پر وارد ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں یاس و نشاط کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ قلب کی کیفیت بدل جاتی ہے اور رجوع اِلَی اللہ کا شوق پیدا ہوتا ہے۔ وجد ایک قسم کی تسکین ہے۔ یہ ہراُس شخص کو حاصل ہوسکتی ہے؛ جس نے صفاتِ نفس کومغلوب کرلیا“۔ 40؎میرؔ نے مذکورہ شعر میں اپنی غزل کو تصوف کا رنگ قرار دیا ہے ۔ اس کو پڑھنے والا وجد کے عالم میں بے خود ہو جاتا ہے۔میر کا کلام گویا تصوف کا نگار خانہ ہے۔ ناسخ متصوفاہ تصورات اور طرزِ سالکیت سے آگاہ ہیں اور وجدی کیفیت سے رسماً واقف ہیں ۔ آتش متصوفانہ معاملات و افکار اور جملہ احوال سے بخوبی آگاہ ہیں اور اشعار کے پس پردہ ان اسَرارِ تصوف کو کھول کھول کر واضح کرتے ہیں ۔ غالب نے تکلیف کو راحت پر ترجیح دی ہے۔ یہ ایک طرح کی خودساختہ اذیتی ہے جسے غالب نے مذکور شعر میں بیان کیا ہے تاہم اسے ابنارملٹی نہیں کہا جا سکتا۔
؂ اس غزل پر شام سے تو صوفیوں کا وجد تھا/پھر نہیں معلوم کچھ، مجلس کی کیا حالت ہوئی[دیوان دوم،میر،ص:۶۱۵]
؂ وجد میں آیا اگر میں رند مشرب بھی تو کیا/ناچتے ہیں صوفی اُس مطرب پِسر کے سامنے[کلیات ناسخ،جلد۲،ح،۲،ص:80]
؂ صوفیوں کو وجد میں لاتا ہے نغمہ ساز کا/شُبہ ہو جاتا ہے پردے سے تری آواز کا[کلیات آتش،ر،الف،ص:136]
؂ یاد ہیں غالبؔ تجھے وہ دن کہ وجدِ ذوق میں /زخم سے گرتا تو میں پلکوں سے چنتا تھا نمک[دیوان غالب،ص:۷۴]
ولایت ولایت متصوفانہ تلمیح ہے۔ ولایت ایک طرزِ حیات ہے جس میں ایک مسلمان راہ سلوک اختیا ر کرتا ہے اور پھر اصول و قواعد پر سختی سے عمل پیرا ہو حقیقی عرفان کو حاصل کر لیتا ہے۔ جس طرح شریعت کے تمام تر اصول و ضوابط پر عمل پیرا ہو کر ایک مسلمان دین و دینا میں زندگی گزارتا ہے اور آخرت کی کامیابی کو یقینی بناتا ہے اسی طرح تصوف میں ولایت یعنی ر ب تعالیٰ کی دوستی اور خشنودی حاصل کرنے کے لیے ایک سالک ولایت کے تمام اصول و ضوابط اور طریق کی پیروی ایک مرشد کی راہنمائی میں کرتا ہوا رب تعالیٰ کی حقیقی معرفت کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے جس سے اس کی دُنیا اور آخرت دونوں کی کامیابی ممکن ہے۔
؂ واہ ہیں کیا ہی ترے ابروائے خم دار سیاہ/ایسی ہرگز نہ ولایت کی ہو تلوار سیاہ[کلیات ناسخ،جلد۲،ح،اول:411]
؂ ولایتی بھی حسینوں کو ہم نے دیکھ لیا /منش تری سی کہاں میرزائی مشکل ہے[کلیات آتش،یاے تختانی:430]
ولی اللہ / ولی ولی اللہ اور ولی سے مراد اللہ کا دوست ہے۔ ولایت میں ولی اللہ سے مراد وہ شخص ہے جس نے اطاعت الہی ،اطاعت رسول اور ضبطِ نفس کے ذریعے نیابتِ الہی کو حاصل کیا ہو۔ ولی اللہ پر رب تعالیٰ کی خاص نوازشات ہوتی ہیں اور انوار و تجلیات کا یکساں ظہور ا س پر ہوتا ہے۔ ولی اللہ کے لیے تصوف کے مقامِ فنی فی الشیخ اور فنا فی الرسول سے فنا فی اللہ کے مقام پر متمکن ہو نا لازم ہے۔ ولی اللہ کو مراتبِ تقویٰ کے اعتبار سے مختلف روحانی درجات پر سرفراز کیا جاتا ہے اور وہ ایک طرح سے رب تعالیٰ کے نظامِ قدرت میں بطور معاون عموی کا کردار ادا کرتا ہے۔آتش نے مو لا علی ؓ کو ولی اللہ قرار دیا ہے اور اس کے پس منظر میں کعبہ میں مولود ہونے کا واقعہ دُہرایا ہے ۔غالب نے اس شعر میں تصوف کے مسائل کے حوالے سے اپنے ’ولی‘ ہونے کا دعوی کیا ہے۔داغؔ متصوفانہ رجحانات میں خاصی دلچسپی رکھتے تھے ۔ عملی طور پر اس کے اسرار و رموز سے آگاہ و شنا سا بھی تھے۔ داغؔ کہتے ہیں ۔ زاہد مجھ کو رند کہتا ہے اور رند مجھ کو ولی سمجھتے ہیں ۔ میں خود کو کچھ بھی نہیں سمجھتا ۔ میری سمجھ میں میرا کوئی مقام و حیثیت نہیں ہے۔
؂ کون تجھ سا ہے ولی اللہ اے مولا !مرے/کعبہ پیدائش سے تیری گھر خدا کا ہوگیا[کلیات آتش،ر،الف،ص:146]
؂ لاریب اماموں میں سر آمد وہ ولی ہے/سمجھے نہ مقّدم یہ جماعت کی صف اے دل[کلیات آتش،ر،ل،ص:248]
؂ یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالبؔ /تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا[دیوان غالب،ص:۳۱]
؂ سمجھتا ہے تو داغؔ کو رند زاہد/و احد صمد ہے الہہ نام تیرا[گلزار داغ،ص: ۴۸۷]
ھو ہو؛متصوفانہ تلمیح ہے۔ہو؛کا تعلق وحدانیت کی کھوج اور اس کے پرچار سے ہے۔ ہو؛ کی منزل ایک سالک کے لیے انتہائی دُشوار اور کٹھن ہوتی ہے۔اس مقام پر ذرا سی غفلت سالک کا سارا سفر غارت کر دیتی ہے ۔ہو؛ذکر اپنی بناوٹ کے اعتبار سے جلالی ہے ۔ اس کا جلال سالک کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔گویا اس ذکر سے پہلے سالک کے باطن کی صفائی اور نفس کی زیادتی کی تکفیر ہونا بہت ضروری ہے ورنہ اس ذکر کا کوئی فائدہ نہ ہوگا بلکہ سالک کا اُلٹا نقصان ہوتا ہے“۔
؂ ہم ہیں قلندر، آکر اگر دل سے دم بھریں /عالم کا آئینہ ہے سیہ ایک ہو کے بیچ[دیوان چہارم،میر،ص:۲۵۸]
؂ عاشق چہرہ ہوا بندۂ گیسو نہ ہوا/آج کل ہے میکدہ اللہ کے گھر کا جواب[گلزار داغ،ص: ۳۵۴]
؂ مستی نے اپنا رنگ وہاں بھی جما دیا/ہو حق کا شور اُٹھنے لگا خانقاہ سے[یادگار داغ،ص:۳۸]
حوالا جات:
1۔سید احمد دہلوی، فرہنگِ آصفیہ،جلد اول،ص:184
2۔آفتاب حسن،اُردو ذریعہ تعلیم اور اصطلاحات،سن و پبلشرز(ندارد)،ص:2
3۔شوکت سبزواری،ڈاکٹر،علمی اصطلاحآت کے اُردو ترجمے،مشمولہ مضمون،ماہ نو،کراچی،1966،ص:179
4۔وحید الدین سلیم،وضع اصطلاحات،سنگ میل پبلیکیشنز،لاہور،1998،ص:12
5۔ دار الافتاء،دیو بند، ویب بلاگ،2021ء
6۔ خواجہ شمس الدین عظیمی،احسان و تصوف،عظیمی ریسرچ سنٹر،ملتان، اشاعت،چہارم،2014ء،ص:135
7۔ ولی حق،اسم اعظم سیکھنے کی اہلیت،روزنامہ، اُمت، 28 جولائی،2018ء
8۔ ساجدہ قریشی،تلمیحات ِ انشا مع شخصیات،اسلامک ونڈرس،نئی دہلی،2017،ص:69
9۔ میمونہ اسد سروری قادری،فقر کیا ہے؟ماہنامہ،سلطان الفقر،02 دسمبر،2020ء
10۔ سید سرفراز اے شاہ،کہے فقیر،جہانگیر بک ڈپو،2008،ص:42
11۔ سید سرفراز اے شاہ،ارژنگِ فقیر،جہانگیر بک ڈپو،2017،ص:137
12۔ شاہدہ تبسم،خواجہ میر درد کے کلام میں صوفیانہ اصطلاحات، ، مقالہ،ایم ۔اے،جامعہ پنجاب،2008ء،ص:215
13۔ اختیار حسین کیفی،نیازی،مراز، شاعری میں صوفیانہ اصطلاحات، ص:109
14۔ ساجدہ قریشی،تلمیحات انشا مع شخصیات،اسلامک ونڈرس بیورو،دریا گنج،دہلی،2017،ص:283
15۔ ظہیر علی صدیقی،ڈاکٹر،تصوف اور تصورات صوفیا،سیٹھی پبلشرز،2008،ص:62
16۔ شاہدہ تبسم،خواجہ میر درد کے کلام میں صوفیانہ اصطلاحات،غیر مطبوعہ، مقالہ،ایم ۔اے،جامعہ پنجاب،2008،ص:87
17۔ سرفراز اے شاہ،سید،کہے فقیر،جہانگیر پبلشرز،لاہور،2019،ص:125
18۔ روبینہ فاروق سروری قادری، علم لدنی، ماہنامہ،سلطان الفقر،لاہور،ستمبر،2020ء
19۔ سرفراز اے شاہ،سید،فقیر رنگ،جہانگیر پبلی کیشنز،لاہور،2016،ص:45
20۔ ڈاکٹر وحید عشرت، تصوف اور وحدت الوجود: شیخ اکبر اور اقبال کی نظر میں،شش ماہی رسالہ، اقبالیات،2001ء
21۔ اختیار حسین کیفی،نیازی،مراز، شاعری میں صوفیانہ اصطلاحات،ویلکم بک ڈپو،2012 ص: 138
22۔ سرفراز اے شاہ،سید،فقیر رنگ،جہانگیر پبلی کیشنز،لاہور،2016،ص:122
23۔ شہاب الدین سہروردی،عوارف المعارف،پروگیسو بکس،لاہور،1998، ص:77
24۔ سرفراز اے شاہ،کہے فقیر،جہانگیر بک ڈپو،لاہور،2014،ص:98
25۔ عبید اللہ فراخی،تصوف ایک تجزیہ،ادارہ تحقیق و تصنیف،علی گڑھ،1987،ص:15
26۔ محمد بدیع الزماں،اقبال کے اُردو کلام میں قرآنی تلمیحات اور قرآنی آیات کے منظوم ترجمے،دانش بکڈپو،فیصل آباد،1995،ص291
27۔ علامہ طباطبائی،تفسیر میزان،جلد،سوم،مترجم،محمد حسین،شیعہ دار السلام،2008ءص:109
28۔اقتدار حسن،ڈاکٹر،سدرہ یا بیری،مشمولہ مضمون،مجلہ،الوقعہ،22جون،2013
30۔احمد رضا شامی عطاری مدنی،علم لدنی ،مشمولہ مضمون ،ماہنامہ، دعوت ِ اسلامی،ستمبر،2017
۔30۔ اختیار حسین کیفی،نیازی،مراز، شاعری میں صوفیانہ اصطلاحات، ص:189
31۔ سرفراز اے شاہ،سید،فقیر رنگ،جہانگیر پبلی کیشنز،لاہور،2016ص:166
32۔ عنبرین مغیث سروری قادری، مرتبہ فنا فی الشیخ،مشمولہ،مضمون، ماہنامہ،سلطان الفقر،لاہور،29۔اگست،2020
33۔ ابن محمد جی قریشی،قطب کی حقیقت،کنوز ِ زل ویب پیچ،24،اکتوبر،2014ء
34۔ شمس الدین عظیمی،خواجہ،قلندر شُعور، مکتبہ روحانی ڈائجسٹ، کراچی،جولائی،2007 ص:23
35۔ مولانا عمران عطاری قادری، قناعت،ماہنامہ،فیضان مدینہ،جنوری،2019ء
36۔ اختیار حسین کیفی،نیازی،مراز، شاعری میں صوفیانہ اصطلاحات ،ص:56
37۔ اقبال آفاقی،اقبال کا مرد مومن،مشمولہ،مضمون،اقبالیات کے سو سال،اقبال اکیڈمی،لاہور،2007،ص:436
38۔ اختیار حسین کیفی،نیازی،مراز، شاعری میں صوفیانہ اصطلاحات، ص:218
39۔ سید سرفراز اے شاہ،فقیر نگری،جہانگیر بک ڈپو،2014ء،ص:115
40۔ سید سرفراز اے شاہ،نوائے فقیر،2014ء،ص:74

پروفیسر محسن خالد محسنؔ

Show More

محسن خالد محسن

محسن خالد محسن لیکچرار، گورنمنٹ شاہ حسین ایسوسی ایٹ کالج چنگ، لاہور
Loading...
Back to top button