زیست
رات سے طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ پورے وجود میں ایک ہلچل مچی ہوئی تھی۔
بار بار آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا نے لگتا اور ہر چیز دھندلی دھندلی سی محسوس ہوتی تھی۔ پیٹ کے اندر جیسے ایک آندھی سی چل رہی تھی۔
بچے کے گھومنے کی رفتار کچھ بڑھ گئی تھی۔
دل چاہا کہ آج کام پر نہ جائے۔
اس سلسلے میں اس نے رگھو سے مشورہ کرنا چاہا۔
لیکن رگھو تو نشے میں دھت پڑا تھا۔ رات اس نے معمول سے زیادہ پی لی تھی۔ کافی دیر سے گھر آیا۔ اس کے قدم لڑکھڑا رہے تھے۔ جسم پر کئی مقامات پر خراشیں تھیں جو اس بات کی کہانی سنا رہی تھیں کہ وہ کس طرح گھر آیا ہو گا۔
یقیناً گھر آتے و ہ کئی مقامات پر لڑکھڑا کر گرا ہو گا۔ گرنے سے اسے چوٹیں اور خراشیں آئی ہوں گی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کسی جگہ وہ گرا ہو گا اور بے ہوش ہو گیا ہو گا۔ پھر ایک دو گھنٹے بعد اسے ہوش آیا ہو گا۔
شام کے وقت اکثر گھر سے عادی شرابی سڑک کے کنارے پڑے ہوتے ہیں کوئی ان پر توجہ نہیں دیتا ہے۔ جب ان کا نشہ اترتا ہے اور آنکھ کھلتی ہے تو وہ چپ چاپ اپنے گھروں کو چل دیتے ہیں۔
دن میں اکثر وہ بچوں اور شرارتی لوگوں کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں بچے اور شرارتی لوگ ان کے نشے کا فائدہ اٹھا کر ان کے ساتھ من چاہی حر کتیں کر کے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
رگھو نے جس مقدار میں پی تھی اس کے ساتھ اس طرح کی کوئی کہانی نہ ہو یہ ممکن ہی نہیں تھا۔
ا کراس کا رگھو سے اس بات پر جھگڑا ہوتا تھا۔
اس کی بات کا رگھو کے بات سیدھا سا جواب رہتا تھا۔
’’لکشمی!تو کیا سمجھتی ہے میں شراب نشے کے لئے پیتا ہوں۔ دن بھر بوجھ ڈھوتے ڈھوتے سار اجسم دہکتے انگاروں کی طرح بن جاتا ہے جسم کا انگ انگ دکھتا ہے۔ اس درد سے رات بھر نیند نہیں آتی اس لیے تھوڑی سی پی لیتا ہوں۔ نشے کی وجہ سے نیند آ جاتی ہے۔
’’تم کیا سمجھتے ہو مجھے تکلیف نہیں ہوتی ہو گی‘‘ رگھو کا یہ جواب سن کر وہ بھڑک اٹھتی ‘‘میں بھی تو دن بھر جانوروں کی طرح کام کرتی ہوں۔ بوجھ ڈھوتی ہوں۔ میں بھی جب رات کوبستر پر سونے کے لئے لیٹتی ہوں تو میرے بھی جسم کا انگ انگ دکھتا ہے۔
تھکن سے نیند نہیں آتی ہے۔ میں تو اسے دور کرنے کے لئے شراب نہیں پیتی؟ اگر میں بھی پینا شروع کر دوں تو۔۔۔۔ ؟
’’ارے نہیں رے میری لکشمی! تو تو دیوی ہے دیوی۔ جو میرے جیسے شیطان کے پلے بندھ گئی ہے اور زندگی گزار رہی ہے۔ تو شیطان کو بدلنے میں کا ہے کو اپنا وقت خراب کرتی ہے۔ مجھے شیطان ہی رہنے دے۔ اور تو دیوی بنی رہ ہماری زندگی کی گاڑی آرام سے چلتی رہے گی۔
رگھو کی بات سن کر وہ لاجواب ہو جاتی۔ اسے اپنے اندر کہیں سے خوشی کے سوتے پھوٹتے محسوس ہوتے۔
رگھو نے اسے دیوی کہا یہ کتنی بڑی بات ہے۔ وہ اسے دیوی سمجھتا ہے یہی بہت بڑی بات ہے ورنہ اس کی برادری کے مرد تو کبھی اپنی عورتوں کو عزت نہیں دیتے۔ بات بات پر گالیاں دیتے ہیں شراب پی کر آتے ہیں تو نشے میں انھیں جانوروں کی طرح مارتے ہیں اور اپنی ضرورت کے لئے ان کا جانوروں سا استعمال کرتے ہیں۔
لیکن رگھو اس کے ساتھ ایسا کچھ نہیں کرتا یہ بڑی بات ہے۔
ایسا نہیں تھا کہ رگھو اسے گالیاں نہیں دیتا تھا یا مارتا نہیں تھا۔
جب وہ کام کرنے لگی تھی رگھو کے رویہ میں تبدیلی آ گئی تھی وہ اسے کم گالیاں دیتا تھا اور کم مارتا تھا۔ اس کے کام کرنے کی وجہ سے اس نے گھر میں پیسے بھی کم دینے شروع کر دیے تھے۔
شرب زیادہ پینے لگا تھا۔
وہ گھر کی طرف سے بے فکر ہو گیا تھا۔
اسے علم تھا اب وہ گھر چلا لے گی اسی لئے تو کام پر جانے لگی ہے۔
اب اسے گھر کی کوئی فکر نہیں۔ دل میں آیا تو کام کیا، من میں آیا تو کچھ پیسے لکشمی کے ہاتھوں پر رکھ دیئے، من میں آیا تو بچوں کے لیے کچھ لے آیا ہاں شراب پینا معمول بن گیا تھا۔
پہلے وہ کبھی کبھی پیتا تھا۔ لیکن اب باقاعدگی سے پیتا ہے۔
کبھی کبھی وہ سوچتی اس نے کام کرنا شروع کر کے بہت بڑی غلطی کی ہے اگر گھر یلو عورت بن کر رہ گئی ہوتی تو رگھو کی عادتیں خراب نہیں ہوتی۔
لیکن اسے کام پر جانا مجبوری محسوس ہوتا تھا۔
راجو اسکول جانے لگا تھا۔ رکھمی بڑی ہو رہی تھی اخراجات بڑھ رہے تھے۔ رگھو کے دیے پیسوں میں گھر چلتا تھا لیکن تمام ضروریات پوری نہیں ہوتی تھیں۔
بچوں کی ضرورتیں، کپڑے لتے، دوا وغیرہ۔
اس لئے اس نے مجبوراً فیصلہ کیا تھا کہ وہ کام پر جائے گی۔
کام پر جانے سے قبل دونوں کے درمیان باقاعدگی سے معاہدہ ہوا تھا۔
’میں کام کروں گی تو ان پیسوں سے گھر چلاؤں گی، تم جو کام کرو گے ان پیسوں کی بچت کرو گے۔ بچے بڑے ہو رہے ہیں۔ ان کے خرچے ہیں ہم کب تک اس جھگی میں رہیں گے۔ اس شہر میں رہنا ہے تو کوئی اچھی سی کھولی لینی پڑے گی۔ گاؤں کا گھر بھی بناتا ہے۔ میں بھی گھر میں اکیلے اکتا جاتی ہوں۔ کام کروں گی تو دو یسے تو ملے گے۔ ‘‘
رگھو نے نہ تو اس کے کام کرنے پر کوئی اعتراض کیا تھا اور نہ اس کی کسی بات سے انکار کیا تھا۔
برادری کی سبھی عورتیں کام کرتی ہیں رگھو کے تمام دوستوں کی بیویاں کام پر جاتی تھیں۔ اس کے دوست اکثر اسے طعنہ دیا کر تے تھے۔
’’بیوی کو مہارانی بنا رکھا ہے۔ گھر کا کام کرتی ہے تو کوئی اپکار نہیں کرتی ہے۔ ہماری بیویوں کو دیکھ گھر کا کم بھی کرتی ہیں بچے بھی سنبھالتی ہیں اور کام کر کے دو پیسے بھی کماتی ہیں۔ ‘‘
لکشمی کے لیے کام کرنا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔
بچپن سے وہ کھیتوں میں کڑی دھوپ میں کام کرتی آئی تھی۔
شادی کے سات آٹھ سالوں میں اس کی عادت چھوٹ گئی تھی۔
لیکن ایک بار کام شروع کر دیا تو پھر عادت ہو گئی۔
کام کیا تھا ایسا کوئی مشکل کام بھی نہیں تھا۔ نہ اسے ڈھونڈھنا پڑتا تھا اور نہ اس کے لئے خاص تربیت لینی پڑتی تھی۔
تین بتی کے انسانی بازار میں جا کر کھڑے ہو گئے۔ لوگ خود آتے تھے اور جتنے مزدوروں کی ضرورت ہے چن کر لے جاتے تھے۔
کبھی کسی ایسی جگہ کام مل گیا جہاں دس پندرہ دن کا مسلسل کام ہو تو پھر روزانہ تین بتی جانے کی۹ضرورت بھی نہیں گھر سے سیدھا کام کی جگہ چلے گئے۔ وہاں سے واپس گھر۔
پھر ایک دو عمارتیں بنانے والے کڑیوں سے پہچان ہو گئی تھی۔
انھیں پتہ تھا یہ عورت اچھا کام کرتی ہے محنتی ہے تو انھوں نے اسے اپنے ساتھ رکھ لیا تھا۔ انھیں کام مل جاتا تو اسے بھی کام مل جاتا۔
انھیں کام نہیں مل پاتا تو اسے بھی کام نہیں مل پاتا۔
اس طرح اسے خالی ہاتھ گھر آنا پڑتا تھا۔
کام کیا تھا زیر تعمیر عمارتوں کے لئے اینٹیں ڈھونا ریتی صاف کرنا۔ ریت سمنٹ ملانا۔ ریت سمنٹ کام کرنے والے مزدوروں تک پہنچانا وغیرہ وغیرہ۔
یہ تو کام اس کے لئے معمولی کام تھے۔ وقت کس طرح گزرنے لگا پتہ ہی نہیں چل سکا۔ پھر گوٹیا بھی آ گیا۔ لیکن اتنے سالوں تک کام کرنے کے بعد اسے محسوس ہوا جس مقصد کے لے اس نے کام شروع کیا تھا وہ مقصد پورا نہیں ہو سکا ہے۔
بچت کے نام پر وہ اتنے سالوں میں کچھ ہزار روپیے بھی جمع نہیں کر سکے ہیں۔
رگھو کام کی طرف سے لا پروا ہو گیا تھا۔ کام کرتا تھا تو ساری کمائی شراب میں اڑا دیتا تھا۔ وہ ایک ٹرانسپورٹ پر مال چڑھانے اتارنے یا انھیں ہاتھ گاڑی پر لاد کر پارٹی دوکانوں تک پہونچانے کا کام کرتا تھا۔
کام تو ہمیشہ ملتا تھا لیکن رگھو کے دل میں آتا تو وہ کام نہیں کر تا دوستوں کے ساتھ جوا کھیلنے میں لگ جاتا تھا۔
اس طرح اسے گھر بھی چلانا پڑ رہا تھا۔ اور بچت کے لیے بھی سوچنا پڑ رہا تھا۔
۱۰۰روپیہ یا ۱۲۰روپیہ روزانہ اسے ملتا تھا ان میں بڑے شہر میں ۴ممبروں کے خاندان کی پرورش کافی مشکل کام ہوتا تھا۔ لیکن روکھی سوکھی کھا کر گزر بسر چل رہا تھا۔ کبھی کبھی رگھو کچھ پیسے دے دیتا تھا تو وہ ان کی بچت کر لیتی تھی۔
اور اب ایک اور ممبر ان کے درمیان آنے والا تھا۔
پیٹ پھولتا جا رہا تھا۔ سوتی دیہاتی مزدوروں کی طرز کی ساڑی میں پیٹ کچھ زیادہ ہی پھو لا ہو ا محسوس ہوتا تھا اسے اس حالت میں کام کرتا دیکھ کر اس کے ساتھیوں کو تشویش ہوتی تھی۔ وہ اسے۔۔۔ بھی تھیں۔
’’لکشمی کب تک کام کرے گی ؟کچھ دن آرام کر۔
’’آرام کروں گی تو کھاؤں گی کیا؟بچوں کو کیا کھلاؤں گی؟
انھیں کیا بھوکا ماروں ؟رگھو تو نکمے پن پر اترا ہو ا ہے۔ اسے اس بات کی پرواہ ہی نہیں ہے کہ عورت کی کیسی حالت ہے۔ اب اسے کام نہیں کرنا چاہئے۔ ایک دو بار اس سے کہا بھی کہ اب میں کام پر نہیں جاؤں گی تو بھی اس کے کانوں پر جوں نہیں رینگی۔ نہ اس نے کوئی جواب دیا کہ ٹھیک ہے کام پر مت جا۔ یا تجھے کام پر جانا پڑے گا۔ کام پر نہیں جائے گی تو کیا کھائے گی۔۔۔۔ میں سمجھ گئی کہ وہ نہیں چاہتا ہے کہ میں کام پر نہ جاؤں۔ اس لئے کام کرنا تو مجبوری ہے۔ ‘‘
اس کے ساتھیوں کے کام ملتا تو وہ اسے اپنے ساتھ ضرور لیتے تھے۔ کیونکہ انھیں پتہ تھا کام کرنا اس کی مجبوری ہے۔ اور اس کی ایسی حالت اس کے کام میں حائل نہیں ہوتی ہے۔ وہ اب بھی ایسی حالت میں بھی پہلے کی طرح چستی پھرتی سے کام کرتی ہے۔
لیکن جب کوئی نیا آدمی مزدوروں کی تلاش میں آتا اور اسے دیکھتا اسے دیکھ کر ٹوک دیتا۔
’’یہ اس حالت میں کام کر پائے گی؟
اس پر اس کے ساتھی اسے سمجھاتے وہ کام کرتی ہے۔ کئی دنوں سے ان کے ساتھ کام کر رہی ہے۔
اس پر وہ تیا ر ہو جاتا۔
ان دنوں کام بہت اچھا چل رہا تھا۔
ایک بہت بڑی عمارت کا کام انھیں ملا تھا۔
اس عمارت کا کام کئی مہینوں تک چلنے والا تھا۔ اس لئے اس بات کی خوشی تھی کہ اب کئی مہینوں سے کم سے کم کام کی تلاش میں بھٹکنا نہیں پڑے گا۔
نوکری کی طرح کام تھا۔
وقت پر کام کے مقام پر پہونچ کر کام شروع کر دینا۔
وقت پر کام چھوڑ کر گھر واپس آ جانا۔
مزدوری روزانہ کے بجائے ہفتے میں ملتی تھی جو اچھی بات تھی ایک ساتھ بڑی رقم ہاتھ میں آ جاتی تھی اور تنخواہ نہیں ہوئی اس بہانے وہ رگھو سے پیسہ بھی مانگتی رہتی تھی۔
ٍ دو تین بار اس نے رگھو کو اٹھایا جب وہ نہیں جاگا تو اس نے اندازہ لگالیا کہ آج رگھو کا کام پر جانے کا ارادہ نہیں ہے اس لئے اس نے کام پر نہ جانے کا ارادہ ترک کر کے کام پر جانے کا طے کر لیا۔
اس نے رکھمی کو سمجھایا۔
گوٹیا کا خیال رکھنا۔ راجو اسکول سے آئے تو اسے کھانا کھانے دینا بابا آج شاید کام پر نہیں جائے انھیں گھر سے باہر جانے نہیں دینا۔
اور وہ کام پر چل دی۔
رکھمی کی عمر مشکل سے پانچ سال ہو گی۔ وہ دو سال کے گوٹیا کو اچھی طرح سنبھال لیتی تھی۔ اسے بھی آئندہ سال سے اسکول بھیجنا پڑے گا پھر گوٹیا کی دیکھ بھال کون کریگا؟ اکثر وہ یہ سوچتی رہتی تھی۔
’’وہ کل کی بات ہے۔ دیکھیں گے۔ پھر وہ یہ سو چ کر اپنا سر جھٹک دیتی تھی۔
وقت پر وہ کام کی جگہ پر پہونچ گئی تھی اور اسنے اپنا سونپا ہوا کام شروع کر دیا تھا۔
لیکن اسے کام کرنے میں سخت تکلیف ہو رہی تھی۔ اور بار بار اس کے اندر کا کوئی اس سے کہہ رہا تھا آج اسے کام پر نہیں آنا چاہئے تھا۔
وہ کام کر رہی تھی لیکن کام کرتے ہوئے جب تکلیف ہوتی تو کسی جگہ رک جاتی یا سستانے کے لیے بیٹھ جاتی تھی۔
اس کی اس تکلیف کو اس کے ساتھ کام کرنے والی اس کی دوسری ساتھی اچھی طرح سمجھ رہی تھیں۔
جہاں وہ اسے بیٹھی دیکھتیں اس کے پاس آ کر اس کا حال دریافت کرنے لگتیں۔
’’لکشمی!کیا بہت تکلیف ہے جا واپس چلی جا۔۔۔ ‘‘
’’دن پورے ہو گئے ہیں تجھے کام پر نہیں آنا چاہیے تھا۔ ‘‘
ایک بار کام پر چڑھ گئے تو سیٹھ اور مقادم تو یہ سوچیں گے نہیں کہ تجھے تکلیف ہے۔ وہ تو جو مزدوری تجھے دیں گے اس کی پوری قیمت وصول کریں گے۔ ‘‘
وہ ان کو جواب دیتی سوچتی۔
’’سچ مچ اسء کام پر نہیں آنا چاہیے تھا۔ اب معاملہ یہ ہے کہ وہ واپس گھر بھی نہیں جا سکتی۔ گھر جانے میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ ‘‘
اس کی تکلیف بڑھ سکتی ہے۔ راستے میں پریشانیاں بڑھ سکتی ہے۔
اس وقت وہ اس مقام پر محفوظ ہے۔
اسکی مدد کرنے والی اسکی کئی سہیلیاں ہیں وہ ان کے درمیان خود کو بہت محفوظ سمجھ رہی تھی۔
رک رک کر کام کرتے ہوئے وہ ایک بجے کا انتظار کر رہی تھی کب ایک بجے اور کھانا کھانے کی چھٹی ہو توا سے تھوڑا سا آرام ملے اور وہ کہیں لیٹ کر سستالے۔
جیسے ہی گھڑی نے ایک بجایاسب مزدور اپنے اپنے کام کو چھوڑ کر کا کھانا کھانے میں لگ گئے۔
انھوں نے ٹھنڈی چھاؤں تلاش کی اور جوڑیاں بنا کر کھانے کے لیے بیٹھ گئے۔
جو کچھ روکھا سوکھا کھانا وہ اپنے ساتھ لائے تھے مل بانٹ کر مزے لیکر کھانے لگے۔
وہ بھی دو تین سہیلیوں کے درمیان بیٹھ گئی۔
گھر سے جو کھانا ساتھ لائی تھی وہ کھانے لگی۔ کبھی کسی ساتھی کی ٹفن سے کوئی چیز پسند آتی تو وہ ایک نوالہ اٹھا کر منہ میں ڈال دیتی کبھی کوئی ساتھی اس کے ٹفن سے ایک لقمہ لے لیتی۔
کھانا کھاتے وقت درد اور تکلیف کا احساس جاتا رہا تھا۔
وہ بھول گئی تھی کہ وہ کس حالت میں ہے اور اسے کتنی تکلیف ہے۔
کھانا کھانے کے بعد وہ وہیں ٹھنڈی ٹھنڈی ریت پر لیٹ گئی۔
ٹھنڈی ریت اس کے جسم کے کھلے حصوں سے ٹکراتی تو اس کے جسم میں گدگدی سی ہونے لگتی۔
اچانک درد ٹھا اور اس کے منہ سے ایک چیخ نکل گئی۔
’’کیا ہوا لکشمی!؟دو تین عورتوں نے اسے گھیر لیا۔ ‘‘
’’درد ہو رہا ہے۔ درد بڑھتا جا رہا ہے۔ تکلیف برداشت نہیں ہو رہی ہے۔ اس کے منہ سے نکلا۔ ٍ
اس نے اپنے دانتوں سے اپنے ہونٹوں کو بھینچ کر تکلیف برداشت کرنے کی کوشش کی۔
ایک تجربہ کا ر عورت نے اس کے پیٹ پر ہاتھ رکھا۔
’’لکشمی!تو اس حالت میں بھی نہیں ہے کہ تجھے گھر یا اسپتال لے جایا جائے۔ تو دس پندرہ منٹ کے اندر ماں بن جائے گی۔ ‘‘
اس نے دوسری ساتھی عورتوں کو کہا۔ فوراً انھوں نے اس جگہ کو جہاں لکشمی لیٹی ہوئی تھی اپنے پاس کے کپڑوں سے گھیر کر آڑ کر لی۔
’’تو چنتا مت کر لکشمی!تجھے کچھ نہیں ہو گا۔ میں یہ سارے کام بہت اچھی طرح جانتی ہوں۔ میں خود اپنے ہاتھوں سے اپنی دو بیٹیوں کی ڈیلیوریاں کر چکی ہوں۔ ‘‘
عورتیں کپڑوں سے گھیرا بنائے لکشمی کو گھیرے کھڑی ہوئی تھیں۔
ماحول میں لکشمی کی کراہیں گونج رہی تھیں۔
جس عورت کو اس معاملے کا پتہ چلتا ہو اس جگہ پہونچ کر لکشمی کو مدد کرنے کی کوشش کرتی۔
مرد لوگ حیرت سے اس نظارے کو دیکھ رہے تھے۔
’’لکشمی !ہمت سے کام لے۔ صبر کر یہ تیرا کوئی پہلا بچہ نہیں ہے۔ ‘‘
عورتیں لکشمی کی ہمت اور حوصلہ بڑھا رہی تھیں۔
لکشمی کی کراہیں بڑھتی جا رہی تھی۔
اچانک لکشمی کی ایک فلک شگاف چیخ ماحول میں گونجی اور ساتھ ہی نو مولود بچے کے رونے کی آواز۔۔۔
ان تمام عورتوں کے چہرے خوشی سے چمکنے لگے جو لکشمی کو گھیرے ہوئے کھڑی تھیں۔
’’مبارک ہو لکشمی !بھگوان نے مشکل آسان کر دی۔ ‘‘
’’ایک اورلکشمی دنیا میں آئی ہے۔ ‘‘
اس کے چہرے پر ایک اطمینان تھا لیکن دل میں ایک ہوک سی اٹھ رہی تھی۔
’’یہ لوگ کتنی آسانی سے کہہ رہے ہیں۔ ایک اور لکشمی دنیا میں آئی ہے۔ لیکن ان کو کیا پتہ دنیا میں لکشمی ہونا کتنا مشکل کام ہے۔ اور ایک اور لکشمی! لکشمی کی قسمت لیکر دنیا میں آ گئی ہے۔