ساز خاموش کو چھوتی ہے ـــــــ ذرا آہستہ
ایک امید ـــــ کسی زخمۂ جاں کی صورت
لب پر آتے ہیں دل و ذہن سے الجھے یہ سوال
کسی اندیشے کے مانند ــــ گماں کی صورت
ذہن کے گوشۂ کم فہم میں سویا ہوا علم
جاگتی آنکھ کی پتلی پہ نہیں اترے گا
ڈوب جائے گا اندھیرے میں وہ نادیدہ خیال
جو چمکتا تو کسی دل میں اجالا کرتا
جسم پر نشّے کے مانند تصوّر کوئی،
دل میں تصویر مجسّم کی طرح کوئی وصال
دفن ہو جائے گا اک ٹھہرے ہوئے پانی میں
میری آنکھوں کی طرح عشق کا یہ ماہ جمال
ایک ہی پل میں بکھر جائے گا شیرازۂ جاں
ایک ہی آن میں کھو جائے گی لے ہستی کی
عمر پر پھیلی بھلے وقت کی امید جو ہے
ایک جھٹکے سے یہ دھاگے کی طرح ٹوٹے گی
کیا بکھر جائیں گے نظمائے ہوئے یہ کاغذ
یا کسی دست ملائم سے سنور جائیں گے
کیا ٹھہر جائیں گے اس لوح پہ سب حرف مرے
یا مرے ساتھ زمانے سے گزر جائیں گے
میری آواز کی لہروں سے، یہ بنتے ہوئے نقش
کیا ہوا کی کسی جنبش سے، بکھر جائیں گے
زندہ رہ جائیں گے تعبیر محبت بن کر
یا مرے خواب، مرے ساتھ ہی مر جائیں گے؟
ثمینہ راجہ