آپ کا سلاماردو تحاریراردو کالمزیوسف صدیقی

دستکاری ہاتھ : روایتی ہنر کی بقا

ایک اردو تحریر از یوسف صدیقی

انسانی تہذیب کے سفر میں ہر دور میں یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ انسان نے اپنے ہاتھوں سے نہ صرف ضروریات پوری کیں بلکہ جذبات، احساسات اور تخیل کو بھی اشیاء میں ڈھالا۔ یہی وہ عمل ہے جسے ہم دستکاری کہتے ہیں۔ دستکاری صرف برتن بنانے، کپڑا بُننے یا لکڑی کاٹنے کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک صدیوں پر محیط روایت ہے جو نسل در نسل منتقل ہو رہی ہے۔ یہ فن قوموں کو شناخت دیتا، ثقافت کو جِلا بخشتا اور معاشرے کو معاشی سہارا فراہم کرتا رہا ہے۔

پاکستان میں، جو ثقافتی تنوع اور تاریخی ورثے سے مالا مال ہے، دستکاری کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ یہاں کے ہنرمند صدیوں سے ایسے شاہکار تخلیق کرتے آ رہے ہیں جو مقامی طور پر پسند کیے جاتے ہیں اور دنیا کے کئی ممالک میں بھی ان کی مانگ ہے۔

پاکستان کی دستکاری کا تنوع

بلوچستان: شیشے والی کڑھائی اور مٹی کے برتن دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ بلوچ خواتین کی ہاتھ کی کڑھائی ایک داستان سناتی ہے، جو دھاگوں کے ذریعے روایتوں اور ثقافت کو زندہ رکھتی ہے۔

سندھ: اجرک اور رلی سندھ کی پہچان ہیں۔ اجرک صدیوں پرانی ثقافت کا نشان ہے، جسے آج بھی شادی بیاہ اور تہواروں میں عزت کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔

پنجاب: جھلم کے چمڑے کے جوتے، پھولکاری اور چنیوٹ کی لکڑی پر نفیس نقاشی پنجاب کے دستکاروں کی پہچان ہیں۔

خیبرپختونخوا: سوات کی لکڑی کی کاریگری اور گھریلو فرنیچر دنیا بھر میں پسند کیے جاتے ہیں۔ یہ فرنیچر اپنی پائیداری اور خوبصورتی کی وجہ سے طویل عرصے تک استعمال ہوتے ہیں۔

شمالی علاقے: قالین بافی اور ہاتھ سے بنے شال ہنزہ اور گلگت بلتستان کی پہچان ہیں۔ ان کی مضبوطی اور نفاست کی وجہ سے یہ دنیا بھر کے بازاروں میں قیمت پاتے ہیں۔

یہ ہنر پاکستان کی ثقافت کے رنگ ہیں، جو ہماری پہچان کو دنیا کے نقشے پر اجاگر کرتے ہیں۔

دستکاری کی موجودہ صورتحال

گزشتہ چند دہائیوں کے دوران پاکستان میں دستکاری نمایاں رہی، مگر آج یہ اتنی روشن نہیں۔ سستی مشینی مصنوعات نے مارکیٹ پر قبضہ کر لیا ہے اور ہنرمندوں کو محنت کے مطابق معاوضہ نہیں ملتا۔ نتیجہ یہ ہے کہ نئی نسل دستکاری کی طرف کم راغب ہے، کیونکہ محنت زیادہ اور منافع کم نظر آتا ہے۔

حکومتی سطح پر کبھی کبھار نمائشیں اور میلوں کا انعقاد ہوتا ہے، مگر یہ زیادہ دیرپا اثر نہیں چھوڑتیں۔ اکثر ہنرمند غربت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

عالمی منڈی میں پاکستانی دستکاری

ترقی یافتہ ممالک میں ہاتھ سے بنی مصنوعات کو نایاب اور قیمتی سمجھا جاتا ہے۔ پاکستانی اجرک، بلوچی کڑھائی اور چنیوٹ کا فرنیچر دنیا بھر میں برآمد کیا جاتا ہے اور اچھی قیمت ملتی ہے، مگر اصل ہنرمند کو فائدہ کم پہنچتا ہے۔ درمیانی دلال زیادہ منافع سمیٹ لیتے ہیں۔

دستکاری اور روزگار

پاکستان میں اگر دستکاری کو منظم انداز میں فروغ دیا جائے تو یہ لاکھوں لوگوں کے لیے روزگار کا ذریعہ بن سکتی ہے، خاص طور پر خواتین کے لیے۔ دیہی خواتین گھروں میں بیٹھ کر کڑھائی، بُنائی اور کپڑوں پر کام کر کے آمدنی حاصل کر سکتی ہیں۔ جدید تربیت، آن لائن مارکیٹنگ اور برآمد کے مواقع فراہم کیے جائیں تو یہ ہنرمندی قومی معیشت میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔

دستکاری کو درپیش چیلنجز

1. مشینی صنعت کا دباؤ: سستے اور مشینی سامان نے دستکاری کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔

2. حکومتی عدم توجہی: پالیسیوں میں ہنرمندوں کو وہ مقام نہیں ملا جو انہیں دینا چاہیے تھا۔

3. مارکیٹ تک رسائی کی کمی: زیادہ تر ہنرمند اپنی مصنوعات عالمی منڈی تک نہیں پہنچا پاتے۔

4. نئی نسل کی بے رُخی: نوجوان ہنرمند بننے کے بجائے تیز آمدنی والے پیشوں کو ترجیح دیتے ہیں۔

5. مالی مشکلات: ہنرمند اپنی محنت کا منصفانہ معاوضہ نہیں پاتے، جس سے وہ مایوس ہو جاتے ہیں۔

دستکاری کے فروغ کے لیے تجاویز

1. سرکاری سرپرستی: حکومت ہنرمندوں کے لیے خصوصی فنڈ قائم کرے، کم سود قرضے اور تربیتی پروگرام فراہم کرے۔

2. ای۔کامرس کا استعمال: Amazon، Etsy اور دیگر پلیٹ فارمز پر پاکستانی دستکاری پہنچائی جائے۔

3. ثقافتی میلے اور نمائشیں: سالانہ بنیادوں پر شہروں اور دیہی علاقوں میں نمائشیں منعقد ہوں۔

4. تعلیمی نصاب میں شمولیت: اسکولوں اور کالجوں میں دستکاری کے کورس شامل کیے جائیں۔

5. عالمی سطح پر تشہیر: سفارت خانوں کے ذریعے دنیا کے ممالک میں پاکستانی دستکاری کی نمائش کرائی جائے۔

6. کاروباری ماڈل: ہنرمند چھوٹے کاروبار کے طور پر آگے بڑھنے کی تربیت پائیں تاکہ خود کفیل بن سکیں۔

7. خواتین کی شمولیت: دیہی خواتین کو گھروں میں چھوٹے یونٹ بنا کر دستکاری کے کام سے جوڑا جائے۔

حرف آخر

دستکاری ہمارے معاشرے کا روشن چراغ ہے، جو ثقافت کو زندہ رکھتا اور دنیا میں منفرد مقام دلا سکتا ہے۔ اگر ہم ہنرمندوں کو عزت دیں، ان کی محنت کا صلہ دیں اور فن کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ڈھالیں تو آنے والے کئی سالوں تک یہ چراغ روشن رہے گا۔ بصورت دیگر، آنے والی نسلیں صرف کتابوں میں پڑھیں گی کہ کبھی پاکستان کے گاؤں اور شہروں میں ایسے ہنرمند بستے تھے جو اپنے ہاتھوں سے جادو کرتے تھے۔

یوسف صدیقی

یوسف صدیقی

میرا نام یوسف صدیقی ہے اور میں ایک تجربہ کار کالم نگار اور بلاگر ہوں۔ میں نے 2009 سے تحریری دنیا میں قدم رکھا اور مختلف پلیٹ فارمز پر اپنے خیالات عوام کے سامنے پیش کیے۔ میں نے روزنامہ دنیا میں مختصر کالم لکھے اور 2014 میں بہاولپور کے مقامی اخبار صادق الاخبار میں بھی مستقل لکھائی کا تجربہ حاصل کیا۔ اس کے علاوہ، میں نے ڈیجیٹل ویب سائٹ "نیا زمانہ" پر کالم شائع کیے اور موجودہ طور پر بڑی ویب سائٹ "ہم سب" پر فعال ہوں۔میری دلچسپی کا مرکز سماجی مسائل، سیاست اور عمرانیات ہے، اور میں نوجوانوں اور معاشرتی تبدیلیوں کے موضوعات پر مؤثر اور معلوماتی تحریریں پیش کرنے کے لیے کوشاں ہوں۔بلاگ نویسی کا تجربہ: میں تقریباً 15 سال سے مختلف پلیٹ فارمز پر لکھ رہا ہوں۔ میری تحریریں عوامی، سیاسی اور سماجی موضوعات پر مبنی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button